سوشل میڈیا پر سیاسی لڑائی

یہ محض ایک فیس بک کی پارٹی ہے ‘ ٹویٹس کو کون پڑھتا ہے؟ اور پھر انسٹاگرام تو فلمی اداکاروں کے لیے ہے ‘ واٹس ایپ ایک بے کارچیز ہے ! چند سال پہلے تک یہ تبصرے عام تھے ۔ حقیقی سیاست کااظہار عملی طور پر جلسے جلسوں سے ہوتا تھا ۔ لیکن اب ایسا نہیں ۔ مصر کے تحریر چوک میں ہونے والے احتجاج سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن جیت کر فاتحانہ طور پر وائٹ ہائوس میں داخل ہونے تک‘ سوشل میڈیا ہی مرکزی دھارے کا میڈیا ثابت ہوا ۔ اب الیکٹرانک میڈیا بھی اس رجحا ن کے پیچھے چلتا ہے جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتا ہے ۔ ٹوئٹر ہیش ٹیگ اب بریکنگ نیوز بن جاتے ہیں ۔ فیس بک پر سرعت سے مقبول ہونے والی ویڈیو عوام کا موضوعِ گفتگو بن جاتی ہیں۔ انسٹاگرام پر سیاست دانوں کی تصاویر تفریحی گپ شپ کو دعوت دیتی ہیں ۔ سوشل میڈیا ایسا پلیٹ فارم بن چکا ہے جہاں رائے کا اظہار ہی نہیں ہوتا‘ رائے بنتی بھی ہے اور بگڑتی بھی ۔
الیکٹرانک میڈیا کے برعکس سوشل میڈیا سب کے لیے دستیاب ایک پلیٹ فارم ہے ۔ اس کی مقبولیت کی وجہ اس تک ہر کسی کی رسائی ہونا ہے ۔ مثبت زاویۂ نگاہ سے دیکھیں تو سوشل میڈیا پلیٹ فارم معاشی امکانات پیدا کرنے ‘ آزادیٔ اظہار کو تقویت دینے‘ لبرل تصورات کی ترویج کرنے اور اختلاف رکھنے والوں کو متبادل ابلاغ کا پلیٹ فارم فراہم کرنے والا ایک ذریعہ سمجھا جاتا ہے جو دراصل انٹر نیٹ کے لبرل تصور کا عملی ا ظہار ہے ۔ اس طرح یہ شہریوں کو بااختیار بناتا ہے ۔
سوشل میڈیا کے بارے میں منفی تاثر یہ ہے کہ یہ جھوٹی اور من گھڑ ت خبریں پھیلانے اور پراپیگنڈا کرنے کا وہ ذریعہ ہے جس پر کسی کا کوئی کنٹرول نہیں ۔ یہ سماجی طور پر تباہ کن ہے اور اس کی لت کسی نشے سے کم نہیں۔ یہ نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں نفسیاتی الجھنوں میں مبتلا کررہا ہے ۔
یہ دونوں تاثرات اپنی اپنی جگہ پر درست ہیں ‘ لیکن جو چیز ایک ناقابل ِتردید حقیقت بن چکی ہے وہ سوشل میڈیا کی طاقت ہے جو چاہے اچھی ہو یا بری ‘ ایک کلک کے ساتھ کسی بیانیے کو دوردور تک پھیلادیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ رائے عامہ کو متاثر کرنے کے لیے سیاست دانوں کے پاس ایک مثالی میڈیا ہے ۔ سوشل میڈیا پر اپنی مہم چلانے اور حمایت حاصل کرنے کے لیے سیاست دان چھ فیچر استعمال کرسکتے ہیں:
1۔ ڈیٹا کا تجزیہ: ڈیٹا ووٹ ہے‘ یہ ہر جگہ تک رسائی رکھتا اور متاثر کرتا ہے۔ ہم دیکھ سکتے ہیں کہ سیاست دان اپنی مہم کو بہتر اور مؤثر بنانے کے لیے بڑے پیمانے پر ڈیٹا اینالیٹکس کا استعمال کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرماہرین اور صحافیوں نے ٹرمپ کی مہم کو ایک ''ڈیٹا مشین‘‘ قرار دیاتھا جس کے دست و بازو مصنوعی ذہانت تھے اور جو مواد اور اس کا تجزیہ کرتے ہوئے ووٹروں کو متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ ٹرمپ نے 2016ء میں دراصل ٹوئٹر کے ذریعے اپنی فتح کی راہ ہموار کی تھی۔ پیٹرووا اور سین کی سٹڈی کے مطابق ٹوئٹراستعمال کرنے کے پہلے مہینے میںسیاست دان اپنی حمایت میں ایک سے تین فیصد اضافہ کرنے میں کامیاب رہے جو انہوں نے دو سالہ روایتی مہم میں حاصل کی تھی اور وہ بھی بغیر کسی قیمت کے۔ پاکستان میںتحریک انصاف وہ سیاسی جماعت ہے جس نے نوجوانوں تک پہنچنے کے لیے سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے۔ ان کی 2013 ء کی رضاکارانہ رجسٹریشن تحریک جسے ''تبدیلی رضاکار پروگرام‘‘ کے نام سے جانا گیا‘ نے سوشل میڈیا پر ڈیٹا کا سیاسی استعمال شروع کیا۔
2۔ ووٹر کے ساتھ رابطہ : شریک مصنف یلدرم کا ایک نیا مطالعہ کچھ جوابات سامنے رکھتا ہے۔ ماریا پیٹرووا اور سین کے ساتھ مل کر تحریر کردہ ''سوشل میڈیا اور سیاسی شراکتیں: سیاسی مسابقت پر نئی ٹیکنالوجی کے اثرات ‘‘کے مطابق سیاسی میدان میں نووارد سوشل میڈیا چینلز کا استعمال کر کے حمایت میں خاطر خواہ فروغ حاصل کر سکتے ہیں‘ا ور اس کی سیاست دانوں کو کچھ بھی قیمت ادا نہیں کرنا پڑتی۔ ووٹراِن سے محض ایک کلک کے فاصلے پر ہوتے ہیں۔ فیس بک وغیرہ کے ذریعے مائیکرو ٹارگٹنگ کا تصور بہت متاثرکن ہے۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ ووٹر ایک مخصوص پارٹی‘ ایک مخصوص نعرے کو ترجیح دیتا ہے۔ اس سے سیاسی اپیل ترجیحات کے مطابق ڈھالنے میں مدد مل سکتی ہے۔ سوشل میڈیا سٹڈیز لفظی طور پر لوگوں کے ذہنوں اور بٹوے میں داخل ہوسکتی ہیں اور انہیں ڈیزائن کردہ انتخاب کو خریدنے اور ووٹ دینے کے لیے قائل کرسکتی ہیں ۔
3۔ رائے ساز رہنما : سیاسی خیالات پر اثر انداز ہونے کے لیے سیاست دان رائے رکھنے والے رہنماؤں کا استعمال کر سکتے ہیں۔ مذہبی جماعتوں نے اس حکمت عملی کے ذریعے سوشل میڈیا کا استعمال کیا ہے۔ تحریک لبیک پاکستان نے اپنے قائد خادم حسین رضوی کے خطبات کا استعمال کرتے ہوئے بہت تیزی سے ایک بہت بڑی فالوونگ بنائی۔ ایم کیو ایم لندن نے الیکٹرانک میڈیا پر پابندی کے بعد بانیٔ ایم کیو ایم کی تقاریر کے لیے فیس بک وغیرہ کا استعمال کیا۔ دیہی علاقوں میں پاکستان میں مسجد کا امام اور امریکہ میں مبلغ رائے دہندگان کو کسی مخصوص امیدوار کی حمایت پر مائل کرسکتے ہیں ۔
4۔ مشہور شخصیات کی حمایت: اس سے پہلے کھیلوں کے سٹار کھلاڑیوں اور فلمی ستاروں جیسی مشہور شخصیات کو خاص طور پر پاکستان جیسے ملک میں غیر سیاسی سمجھا جاتا تھا۔ جب سے سوشل میڈیا کا دور شروع ہوا‘ ایسی مشہو ر شخصیات سیاسی مسائل کے بارے میں بھی آواز اٹھا رہی ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کی موجودہ تحریک کو کئی اداکاروں کی حمایت حاصل ہے۔ عاطف اسلم اور ماہرہ خان جیسے ستارے یا وسیم اکرم جیسی کھیلوں کی مشہور شخصیات کے مداحوں کی بڑی تعداد ہے۔ ان کے انسٹاگرام فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ ان کے خیالات ایسے افراد پر اثر انداز ہوسکتے ہیں جو ابھی تک کسی طرف سیاسی جھکائو نہ رکھتے ہوں یا اس میں دلچسپی نہ لیتے ہوں ۔
5۔ ہیش ٹیگ : روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تقریباً تین دہائیوں تک واحد یادگار سیاسی نعرہ رہا جب تک کہ سوشل میڈیا پاکستان میں نہیں آیا تھا۔ نعرے ہیش ٹیگ کے طور پر تحریک کے طاقتور دست و بازو ثابت ہوتے ہیں۔ ہیش ٹیگز کی طاقت کو سیاست دانوں نظر انداز نہیں کرسکتے اور نہ ہی سیاسی مہم ان کے بغیر چلائی جاسکتی ہے ۔ چونکہ زیادہ سے زیادہ لوگ سیاسی امیدواروں کے بارے میں معلومات کے لیے آن لائن ہوتے ہیں‘ ان ٹیگز کو مؤثر حکمت عملی کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے تاکہ یہ تشہیر ممکنہ ووٹروں تک ایسے جملوں کی صورت پہنچ جائے جو زبان زدعام ہوں۔ ذرا ہیش ٹیگ ''امپورٹڈ حکومت نامنظور‘‘ کی طاقت کو دیکھیں۔ اس نے 10 ملین سے زائد ٹویٹس اور ری ٹویٹس کا عالمی ریکارڈ توڑ دیا ۔ ٹوئٹر بائنڈر نے اس کا اعلان کیا ہے۔ صرف ایک ریلی میں لگائے گئے نعرے کی پہنچ کا اندازہ کریں ۔
6 ۔ ٹِک ٹاک کی دنیا: آواز اور مناظر ذہن پر نقش ہوجاتے ہیں۔ فیس بک ویڈیوز اب تقریباً ہر فورم پر جا چکی ہیں۔ ایک ویڈیو جس میں وائرل مواد ہوتا ہے وہ پوری دنیا کے واٹس ایپ گروپس‘ انسٹاگرام اور ٹوئٹرپر پہنچ جاتی ہے۔ ''پاوری ہورہی ہے‘‘ ٹرینڈ کو یاد رکھیں۔ اسی طرح چینی ٹِک ٹاک ایپ بھی دھماکہ خیز ہے۔ اس نے ریکارڈ وقت میں تمام ایپس کو مات دے دی ہے۔ برانڈسٹک کے ان اعدادوشمار پر ذرا غور کریں کہ فروری 2021ء تک ٹِک ٹاک کے دنیا بھر میں اندازے کے مطابق ایک اعشاریہ ایک بلین صارفین تھے۔ جون 2021ء تک ٹِک ٹاک کے 60فیصد صارفین کی عمریں 16 سے 24 سال کے درمیان ہیں۔ٹِک ٹاک کے عالمی ناظرین میں سے تقریباً 50 فیصد کی عمریں 34 سال سے کم ہیں۔ٹِک ٹاک ایپ کو دنیا بھر میں ایک اعشاریہ پانچ بلین سے زیادہ بار ڈاؤن لوڈ کیا جا چکا ہے۔ 2020ء میں ٹِک ٹاک ڈاؤن لوڈ کی تعداد 850 ملین تک پہنچ گئی۔ اس ایپ کی رسائی دنیا بھر میں ہے: 466 ملین ہندوستان سے‘ 173 ملین چین سے اور 123 ملین امریکہ سے ہیں اوسط صارف ٹک ٹاک ایپ پر روزانہ 52 منٹ گزارتا ہے۔ Bytedanceجو کمپنی ٹِک ٹاک کی مالک ہے اس کی قیمت 140 بلین ڈالر ہے جو اسے دنیا کا سب سے مہنگا سٹارٹ اپ بناتی ہے اور اس کی مالی اہمیت ٹوئٹر اور کوکا کولا سے زیادہ ہے۔ یہ ان لوگوں کے لیے ماس گراس روٹ تک رسائی کا فورم ہے جو اپنے طریقے سے اپنا مواد بنانا چاہتے ہیں۔ اس کا استعمال ووٹر کو اپنے پسندیدہ سیاست دانوں کے پیغامات بنانے اور دوبارہ تخلیق کرنے کے لیے کیا جا سکتا ہے جس کی رسائی آمنے سامنے یا یہاں تک کہ فیس بک پر بھی ہو سکتی ہے۔
معلومات فراہم کرنا‘ غلط معلومات پھیلانا‘ پروفائل بنانا اور پروفائلز کو نقصان پہنچانا سیاسی کھیل کا حصہ ہے۔ اس کھیل کو سوشل میڈیا انفارمیشن مارکیٹ میں کم قیمت‘ زیادہ رسائی‘ غیر منظم آؤٹ لیٹ ملا ہے۔ اب جب سرگرمیاں زمین کی بجائے سوشل میڈیا پر ہورہی ہیں تو یقینا سیاست دان یا سیاست پہلے جیسی نہیں رہے گی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں