جب روم جل رہا تھا !

سٹاک مارکیٹ نیچے جاتے جاتے دھڑم سے کریش ہو گئی۔ روپے کی گراوٹ پر تو گویا کوئی روک ٹوک نہیں‘ بس گرتا چلا جارہا ہے۔ آئی ایم ایف بات کرنے سے انکاری، سعودی عرب مزید رعایت دینے سے گریزاں اور متحدہ عرب امارات نے بات سنی اَن سنی کر دی۔ قیمتیں ہیں کہ آسما ن سے باتیں کررہی ہیں۔ ملک کا سری لنکا سے موازنہ شروع ہوچکا۔ اس دوران حکومت کہاں ہے ؟لیجیے یہ رہی ! برٹش ایئرویز کے سی سویٹ کے پُرتکلف ماحول میں وزرا کی لی گئی سیلفیوں میں حکومت محوِ پرواز ہے۔ اس کے بعد لندن میں مقیم باس کے شاہانہ دفتر میں ہونے والی نشست کی تصاویر ہیں۔ ملک کے حالات اور تصاویر میں دکھائی دینے والا تضاد روم کے ظالم حکمران، نیرو کی یاد دلاتا ہے۔ 64ء میں روم چھ دن تک خوف ناک آگ کی لپیٹ میں رہاجس نے شہر کے انفراسٹرکچر کا 70 فیصد حصہ جلا دیا۔ اس وقت کے رومی مؤرخ ٹیسی ٹس (Tacitus) کے مطابق شہر کا 70 فیصد حصہ جل گیاجبکہ اس کی آبادی بے گھر ہوگئی، لیکن اس دوران نیرو انٹیم میں اپنے عالی شان محل میں بانسری بجا رہا تھا۔ موجودہ مخلوط حکومت سانحات میں بھاگ نکلنے کی تاریخ رکھتی ہے۔ جب 2010 ء میں پاکستان سیلاب کی زد میں تھا تو پیپلز پارٹی کی قیادت دبئی میں پر لطف وقت گزار رہی تھی۔
ابتدائی تیس دنوں میں وزیر اعظم نے چار غیر ملکی دورے کیے ہیں۔ اس دوران وہ کراچی سے خضدار تک بھاگے پھر رہے ہیں۔ کیوں ؟ کسی کوکچھ معلوم نہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ اُن کی اپنی جماعت کے کارکن اور ان سے وابستہ اینکرز اور تجزیہ کار بھی ان پر تنقید کرنا شروع ہوگئے ہیں۔ پٹرولیم کی قیمت کے حوالے سے لندن میں ہونے والی کئی دنوں پر محیط ملاقاتوں کے بعد وہ فیصلہ کرکے واپس آگئے۔ وہی فیصلہ جو اُنہیں کرنا تھا۔ اس سے ان کی صلاحیت، مہارت اور فکری رسائی پر اگر کسی کو غلط فہمی تھی تو دور ہوچکی ہوگی۔ آئیے! کچھ تباہ کن غلط اندازوں کی جانچ کریں جو لگائے گئے اور لگائے جائیں گے، جب تک یہ بندوبست جاری رہے گا:
1۔ ضرورت، لالچ اور پھرتی : عدم اعتماد کا عجیب و غریب ووٹ! یہ واحد ووٹ جو پاکستان میں کامیاب ہوا‘ دراصل ناکامی تھا۔ یہ ایک ناکامی تھی کیونکہ اس نے ایک ایسی معیشت کا راستہ روک دیا اور اسے نقصان پہنچایا جو ابھی مستحکم ہونا شروع ہوئی تھی۔ اس حکومت نے اقتدار میں آکر چند ہفتوں میںنہ صرف معیشت بلکہ اس کے ساتھ اپنے سیاسی سرمایے کو بھی غیر مستحکم کر دیا ہے۔ بہت سے تجزیہ کار حیران ہیں کہ انہیں اس گڑبڑ میں پڑنے کی جلدی کیوں تھی؟ اس کا جواب یہ ہے کہ انہیں اقتدار کی ہوس کے ساتھ ساتھ اپنے ماضی اور حال کو دھونے کی ضرورت تھی۔ موجودہ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب پر مقدمات اور ریفرنسز ہیں۔ اس کی وجہ سے وہ اقتدار میں آنے کی جلد جلدی میں تھے تاکہ انہیں ختم کرایا جاسکے اور یقینا ان بھاری بھرکم سیاست دانوں اور جعلی جمہوری خاندانوں کو ہمیشہ اقتدار میں رہنے کی ضرورت ہوتی ہے۔
2۔ اندازے کی غلطی : حکومت کی تبدیلیاں اگر براہِ راست نہیں تو بالواسطہ طور پر انٹرنیشنل اسٹیبلشمنٹ کی معاونت سے ہوتی ہیں۔تاثر ہے کہ پاکستان میں یہ صورت حال معمول سے کچھ زیادہ ہے۔ عدم اعتماد کے ووٹ میں تو کھیل اور بھی آسان ہوجاتا ہے جب حکومت تبدیل کرنے کے لیے صرف چند ووٹوں کی ضرورت ہو۔ اس بارے میں شکوک و شبہات موجود ہیں کہ اس کی منصوبہ بندی کس طرح کی گئی اور کیسے یہ کھیل ایک غلط مہم جوئی کی شکل اختیار کر گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ سنگین سے سنگین تر ہوتا جارہا ہے۔ اگر کوئی سٹیک ہولڈر سخت الجھن میں ہے تو وہ‘ جنہوں نے مبینہ طور پر واقعات کو یہ موڑ دیا تھا۔ اندازے کی اس غلطی کا افسوس ناک پہلو یہ نہیں تھا کہ یہ حکومت کیسے کام کرے گی یا یہ بندوبست کیا گل کھلائے گا۔ یہ تو ان کے ریکارڈ اور تاریخ کو دیکھتے ہوئے عیاں تھا۔ عوام کو جس چیز سے تکلیف ہوئی وہ یہ ہے کہغلط حساب کتاب معیشت کی تباہی نہیں بلکہ بے مثال عوامی ردعمل کی بابت لگایا گیا تھا۔ یعنی اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکا کہ اس پر عوام کی طرف سے کیا ردعمل آئے گا۔ عوام نے یقینا ایسا حوصلہ اور جذبہ دکھایا ہے جسے اب نہیں روکا جاسکتا۔ اس وقت کسی کو کچھ نہیں معلوم کہ اس سے کیسے نمٹا جائے۔
3۔ وسیع پیمانے پر جمود: سابق حکومت کو نکال باہر کرنے والے کھلاڑی ایک دوسرے سے بات نہیں کررہے۔ حکومت کا حزبِ اختلاف سے کوئی مکالمہ نہیں ہورہا۔ اداروں کا کہنا ہے کہ اُنھیں سیاست میں نہ گھسیٹا جائے‘‘۔ دکھائی دیتا ہے کہ ملک پر بدترین سیاسی جمود طاری ہے۔ فیصلہ سازی بداعتمادی، خوف، گھبراہٹ اور قیاس آرائی کے ہاتھوں یرغمال بن چکی۔ اس کی وجہ سے ملک میں غیر یقینی اور تذبذب کا ماحول ہے جبکہ کسی کو بھی سمت کا اندازہ نہیں ہے۔ یہ سب منفی صورت حال کے اشاریے ہیں جو معیشت کے لیے تباہ کن ثابت ہوں گے۔
سیاسی طور پر مفلوج اور معاشی طور پر جان کنی کی کیفیت دیر تک نہیں چل سکتی۔ کسی نہ کسی کو تو پیچھے ہٹنا پڑے گا۔ ہونے والے نقصان کی تلافی کے لیے اور اس کی بحالی کے لیے کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا:
1۔ راست اقدام ناگزیز ہوچکا: 4 مارچ 2022ء سے ملکی حالات کسی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں۔ ٹکرائو، لڑائی اور اب انتہائی خوف۔ ایک فعال حکومت کو معزول کرنے کا انداز، اقتدار سنبھالنے کا انداز اور بے خبر حکومت کا مکمل طور پر مفلوج ہو جانا تباہی کا نسخہ ہے۔ ڈالر 200 روپے سے تجاوز کر گیا اور زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ اس پارلیمانی بندوبست کے معماروں کے لیے ضروری ہے کہ وہ فوری طور پر ٹیکنو کریٹس پر مشتمل عبوری حکومت قائم کریں تاکہ معیشت کو آئی سی یو پر لگادیں۔ اس کی جان بچانے کی انتہائی کوشش کا وقت آن پہنچا ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو نہ صرف سری لنکا کا ڈرائوناخواب یہاں بھی ننگی حقیقت بن کر سامنے آن کھڑ اہوگا بلکہ ملک کی سا لمیت بھی خطرے میں پڑجائے گی۔
2۔ پیہم عوامی دبائو: اپوزیشن اور اس کے سرپرستوں نے عوامی ردعمل کی پیشین گوئی کرنے میں ایک بہت غلط حساب لگایاتھا۔ وہ اس پر حیران توہوں گے۔ اگر اندازے کا پہلا نشانہ خطاگیا تو دوسرا بھی خطا جائے گا کہ یہ عوامی دباؤ کم ہو جائے گا۔ اس کے برعکس اس میں اضافہ ہوگا۔ ہم پہلے ہی ایسے مختلف النوع طبقوں کو دیکھ رہے ہیں جو کبھی سیاسی عمل کا حصہ نہیں بنے تھے۔ اب وہ اس تحریک میں سب سے آگے ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید سیاسی سومنات منہدم ہوتے جائیں گے۔ اس سے صورتحال اس حد تک خراب ہو جائے گی جہاں سرپرستوں کے لیے پیچھے ہٹنا، پینترا بدلنا یا دوبارہ کھیل شروع کرنا بھی ممکن نہ رہے گا۔
3۔ ایک نیا پاکستان آرڈر: پاکستان کو اس خرابی سے نکلنے کے لیے ایک نیا آرڈر درکار ہے۔ اگلی آنے والی کسی بھی حکومت کے لیے ایک بنیاد ی نظر ثانی کرنی چاہیے۔ نئے ڈیزائن کے ساتھ اس تبدیلی کو دوبارہ نافذ کرنا چاہیے جو حقیقی اور پائیدار ہو۔ تبدیلی کا پہلا اشارہ یہ ہو کہ مقابلہ کرنے والی جماعتیں حقیقی تبدیلی کے لیے جا رہی ہیں‘ ان کے امیدواروں کے فہرست میں پرانے الیکٹ ایبلز، روایتی، خاندانی، مورثی سیاست دانوں کی جگہ نیا خون ہونا چاہیے۔ اس کے ساتھ ہی پاکستانی عوام کو ایسے چہروں کا انتخاب نہیں کرنا چاہیے جو سٹیٹس کو کے نمائندے ہوں بلکہ اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ وہ نئے چہروں، نئے امیدواروں کی حمایت اور سرپرستی کرتے ہوئے انہیں فتح دلائیں۔ نئی حکومت کے پاس ایک متنوع اور تازہ کابینہ ہونی چاہیے جو اصلاحات اور پالیسیوں کے ساتھ تیار ہو۔ ان اصلاحات کو ایک ایسے پاکستان کی عکاسی کرنی چاہیے جو آخر کار ترکی یا ملائیشیا کی صف شامل ہونے جارہا ہے۔
عوام کی اجتماعی مرضی سے کچھ بھی ممکن ہے۔ ایسی صورت حال سے سیکھنے کے لیے بہت سے سبق ہیں جو ناممکن اورناقابل برداشت دکھائی دیتے ہیں لیکن ناگزیر ہیں۔ تمام سٹیک ہولڈرز تابڑ توڑ عوامی تنقید کی زد میں ہیں۔ کبھی پچھلے قدموں پر جاتے ہیں، کبھی ڈگمگاتے ہوئے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہیں، لیکن ان پر سماجی اور جذباتی چاند ماری جاری ہے۔ کس نے سوچا ہوگا کہ ایک دن ایسا بھی آئے گا جب طاقتور، متکبر، جوڑ توڑ کرنے والے اجتماعی عوامی عزم کی وجہ سے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجائیں گے، اور ان کی خود ساختہ دلیری، راست بازی اور طاقت کا بھرم چاک ہوجائے گا۔ یہ ملک کے حقیقی عوامی اختیار کا ایک اہم موڑ ہے۔ یہ اس عوامی بغاوت کی نوید ہے جو سیاست، عہدوں اور سازشوں سے بالاتر ہو کر ملک کو آزادی اور خوشحالی کی راہ پر گامزن کر سکتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں