سٹیک ہولڈرزکی سوچ میں تبدیلی کی ضرورت

تبدیلی کے لیے اپ سیٹ درکار ہوتا ہے۔ اپ سیٹ کے لیے ہر عمل اور اس کے نتائج کا جائزہ لیا جانا ضروری ہے۔ جائزے کے لیے ضروری ہے کہ اعتراف کر لیا جائے کہ معاملات خرابی کی سمت بڑھ رہے ہیں۔ خرابی کا اعتراف کرنے کے لیے انا‘ رعونت اور عیش و عشرت کے گھوڑوں کو لگام دینا ہوگی۔ اہم سٹیک ہولڈرز کے لیے ضروری ہے کہ ملک کی حالیہ صورت حال کے پیش نظردل پر پتھر رکھ کر ان حقائق کا اعتراف کر لیں۔ یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ کیا اس اعتراف کے ساتھ نئی سوچ اور جائزے کو بروئے کار لاتے ہوئے بے قابو ہوکر ڈھلوان سے پھسلنے کے عمل کو روک لیا جائے گا؟
سیاست سٹیک ہولڈرز کی حرکیات کا نام ہے۔ دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کے درمیان تال میل سیاسی حکمت عملی کا ایک حصہ ہے۔ لیکن پھر سیاست الجھاؤ میں سے امکانات پیدا کرنے کا ہی تو نام ہے۔ سیاسی ابلاغ کے لیے میڈیا ایک اہم واسطہ ہے۔ ہٹلر سے لے کر دور حاضر کے ٹک ٹاک پراپیگنڈا تک‘ میڈیا رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والا بہت بڑا عامل ہے۔ اربابِ حکومت کے اختیار کے غلط استعمال پر چیک اینڈ بیلنس رکھنے اور انہیں آئینی اور قانونی ضوابط کو پامال کرنے سے روکنے کے لیے ریاستی ادارے‘ بشمول نظامِ عدل اہم سٹیک ہولڈر ہیں۔ اقتدار کی سیاست یا عوام کی سیاست کی کامیابی یا ناکامی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ ایک حکومت کس طرح ان سٹیک ہولڈرز کے ساتھ یا ان کے خلاف کام کررہی ہے۔ اس وقت ہم ملک میں ایک تاریخ رقم ہوتے دیکھ رہے ہیں۔ پہلی مرتبہ ایک حکومت کو عدم اعتماد کے ووٹ سے نکال دیا گیا۔ پہلی مرتبہ تیرہ جماعتی اتحاد عدم اعتماد پر رائے شماری میں کامیاب رہا۔ پہلی مرتبہ کسی حکومت کو بدعنوانی کا الزام لگائے بغیر اقتدار سے رخصت کیا گیا۔ پہلی مرتبہ تیرہ جماعتیں‘ مقتدرہ‘ میڈیا اور دیگر ادارے کسی حکومت کو ہٹانے کے لیے ایک صف میں کھڑے ہوگئے۔ پہلی مرتبہ تمام سٹیک ہولڈر نہ صرف بے نقاب ہوگئے ہیں بلکہ اپنے اختیارات کے باوجود اپنی سوچ‘ اپنے رویے اور طرزِ عمل میں تبدیلی لانے کے لیے بے پناہ دباؤ کا سامنا کررہے ہیں۔ یہ ہے وہ حقیقی تاریخ جو ہمارے سامنے رقم ہورہی ہے کہ کس طرح ملک کی تمام قوتوں‘ جن کے پیچھے بیرونی قوتیں بھی ہیں‘ میں تبدیلی کے شواہد دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی کچھ مثالیں قابلِ غور ہیں:
1۔ عوامی تبدیلی: سیاست اور سیاستدانوں کے لیے عوامی جذبات مختلف ہوتے ہیں۔ بڑے پیمانے پر نچلا طبقہ جسے سماجی اقتصادی گروہ بندی کی سی‘ ڈی اور ای کلاس کہا جاتا ہے‘ میں ووٹروں کی بڑی تعداد ہوتی ہے۔ یہاں ووٹنگ کا تناسب 50فیصد کے قریب ہوتا تھا۔ جوں جوں آپ بلند طبقات کی طرف بڑھیں تو ووٹنگ کی اوسط شرح کم ہوتی جاتی تھی۔ کیونکہ یہ اشرافیہ انتخابی عمل سے لاتعلق اور بیزار تھی۔ سی‘ ڈی اور ای کلاس کا بڑے پیمانے پر ووٹ بھی مقامی رہنماؤں پر مبنی تھا جنہوںنے اپنی مقامی طاقت کی وجہ سے فوائد یا زبردستی ووٹ لیے۔ ای کلاس سے تعلق رکھنے والا طبقہ وڈیرے کے سوا شاید ہی کسی سیاسی قوت سے واقف تھا۔ وہ ان سے جبری مزدوری لیتا تھا۔ انتخابات کے دوران ان کے شناختی کارڈ لے کر انہیں کسی خاص انتخابی نشان پر ووٹ دینے کا حکم دیتا۔ کلاس Dاور Cاپنی کمیونٹیز میں بجلی کی فراہمی‘ گیس کی فراہمی اور گلیاں پکی کرانے جیسے بنیادی فوائد کو ووٹ کے ماحَصل کے طور پر دیکھ رہے تھے۔ سندھ میں پی پی پی اور پنجاب میں پی ایم ایل این نے اپنی مدت کے اختتام تک ووٹوں کو اپنے حق میں منتقل کرنے کے لیے بنیادی ترقیاتی فوائد فراہم کرنے کے فن میں کمال حاصل کر لیا تھا۔
یہ سلسلہ کئی دہائیوں تک جاری رہا یہاں تک کہ پاکستان تحریک انصاف سیاسی اُفق پر ابھرنے لگی۔ اس نے ووٹر کو اپنے ووٹ کے بارے میں سوچنے پر مجبور کیا۔ سب سے پہلے غیر ووٹر سے ووٹروں میں تبدیل ہونے والا سماجی معاشی طبقہ Bتھا جس نے اعتراف کیا کہ 2013ء میں انہوںنے اپنا پہلا ووٹ دیا۔ طے شدہ سیاسی نمونہ عوام کا استحصال کرتا۔ اس کا ہدف اہم صوبوں پر حکومت کرنا تھا۔ یہ نمونہ اب تبدیل ہورہا ہے۔ حکومت کے خلاف موجودہ تحریک نے عوام کو چونکا دیا۔ چونکہ حکومت کی یہ تبدیلی بدعنوانی کی بنیاد پر نہیں بلکہ بڑے غنڈوں بالخصوص امریکا کے خلاف کھڑے ہونے پر ہے‘ اس لیے عام آدمی ان کے اثر سے باہر نکل کر یہ بات کرنے لگا ہے کہ اپنے ملک کو دھوکے بازوں سے کیسے بچایا جائے۔ اس کلاس کا ردعمل دیکھنے کے لیے صرف اس موضوع پر ٹک ٹاک کی وڈیوکی ویور شپ دیکھیں۔ وہ اربوں میں ہیں اور ان میں اضافہ ہورہا ہے۔ یہ عوام میں آنے والی بہت بڑی فکری تبدیلی ہے۔ وہ عوام جو کچھ عرصہ پہلے تک ملازمت‘ تبادلے یا بجلی کے ٹرانسفارمر کے وعدے پر ووٹ دے دیتے تھے۔
2۔ مقتدرہ کے رویے میں تبدیلی:گزشتہ سات عشروں سے ملکی سرحدوں کی حفاظت کرنے والے قابل فخر لوگ اپنے ادارے کا بھرپور دفاع کرتے رہے ہیں۔ اُن کی عمر جو بھی ہو یا وہ جس پوزیشن پر بھی فرائض انجام دیتے رہے ہوں‘اور وہ سابق افسران جو اپنی ریٹائرمنٹ کو کنٹری کلبوں میں گالف کھیلتے ہوئے اور اپنے کارناموں کو یاد کرتے ہوئے گزار دیتے تھے‘ اب ملکی حالات کو دیکھتے ہوئے وہ بھی خاموش نہیں ہیں۔کسی سیاسی رہنما کو تحریری طور پر‘ وڈیوز کی صورت میں‘ عوامی سطح پر اس طرح کی حمایت کبھی نہیں ملی‘ جتنی عمران خان کو ملی ہے۔ درحقیقت یہ تبدیلی اب تک واقع ہونے والی تبدیلیوں میں سب زیادہ پیچیدہ اور معنی خیز ہے۔
3۔ اداروں کے سربراہان کی تبدیلی: یہ تبدیلی ابھی ابتدائی مرحلے میں ہے۔ اداروں کے سربراہوں کو مراعات اور خطرات کی وجہ سے اپنی ملازمتیں ترک کرنا مشکل لگتا ہے۔ وہ یا تو بیوروکریٹس ہیں جنہیں سٹینڈ لینے کی بجائے اغماض برتنے کی تربیت دی گئی ہے۔ تاہم‘ کچھ ہمت رکھتے ہیں۔ واپڈا کے چیئرمین نے نئی حکومت کے ساتھ نہ چلنے پر استعفیٰ دے دیا ہے۔ ڈپٹی چیئرمین پلاننگ کمیشن نے بھی استعفیٰ دے دیا۔ بہت سے دیگر افسران ہنوز اپنی پہلے والی روش پر چپ چاپ چل رہے ہیں۔ اوریہ بات قابلِ فہم ہے کیوں کہ یہ ملازمتیں سخت ہیں اور حکومت کا انداز بہت جارحانہ ہے۔ نادرا کے موجودہ سربراہ کو 2014 میں ایک سیاسی جماعت کی طرف سے متنازع حلقے کے انگوٹھوں کے نشانات نہ دینے پر مبینہ طور پر دھمکایا گیا تھا۔ اُسی جماعت کی اعلیٰ قیادت کے منی لانڈرنگ کیس کی تحقیقات کرنے والے ایف آئی اے کے سربراہ بھی اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کر گئے۔
4۔ میڈیا میں آنے والی تبدیلی: میڈیا ایک کاروبار ہے ؛چنانچہ جس طبقے کے بیانیہ کو میڈیا پذیرائی دیتا ہے وہاں سے اسے کاروبار بھی ملتا ہے۔ یہی معاصر میڈیا کا عالمی ماڈل ہے ۔ حکومتوں کو چونکہ اپنا نقطہ نظر اور بیانیہ عوام تک پہنچانے کے لیے ذرائع ابلاغ کی اشد ضرورت ہوتی ہے ؛چنانچہ حکومتیں عام طور پر ان کی بڑی گاہک ہوتی ہیں۔ پی ٹی آئی کی حکومت ذرائع ابلاغ کے لیے موافق نہیں تھی کیونکہ وہ اندھا دھند رقم نہیں لگا رہی تھی۔ پی ڈی ایم حکومت اب تک 136کروڑ روپے کے اشتہارات میڈیا کو دے چکی ہے۔ لیکن نئی ابھرنے والی صورت حال یہ ہے کہ یہاں پیسہ اور دباؤ وغیرہ کے باوجود الٹ ہورہا ہے۔ تمام تر سرمایہ کاری ایک طرف‘ میڈیا ناظرین کو نظر انداز نہیں کر سکتا۔ چونکہ عوام ایسی سکرینوں کو دیکھنا چھوڑ دیتے ہیں جو صریح تعصب پر مبنی ہوتی ہیں‘ اس لیے میڈیا اپنی پالیسی کو معتدل کرنے پر مجبور ہے۔ عمران خان کی تقریریں نہ دکھانے سے لے کر اب دکھانے تک کی تبدیلی ناظرین کے دباؤ کی وجہ سے ہے۔ اسی طرح اینکرز کی یوٹیوب ویور شپ بھی بڑی رقم ہے۔ جانبدارانہ تصویر پیش کرنے والے اینکروں کی فالوشپ ختم ہوتی جارہی ہے۔ حقیقت دکھانے والے فائدے میں ہیں۔ یہ دل یا دماغ کی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے لیکن یہ یقینی طور پر کسی بھی بزنس میں دیکھا جاتا ہے کہ فائدہ کس چیز میں ہے۔
ذہنیت کو تبدیل کرنا تقریباً ناممکن ہے۔ ہم جس چیز کا مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ان طاقتور سٹیک ہولڈرز کی ذہنی تبدیلی ہے۔ وہ نام نہاد جمہوریت‘ لچک دار قانون کی طاقت کے بَل بوتے پر کچھ بھی کر گزرنے کے عادی تھے۔ لیکن اب عوام کے عزم نے اُنہیں ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ممکن ہے کہ سٹیک ہولڈرز دل سے تبدیل نہیں ہوئے بلکہ ہچکچاہٹ کا شکار ہوں اور یہ اپنی حکمت عملی سے تبدیلی کو تبدیل کرنے کی کوشش میں ہوں۔ یہ سماجی اورسیاسی تاریخ کی بے مثال پیش رفت ہے۔ اگلے چند ماہ یقینی طور پر سٹیک ہولڈرز کے اتحاد اور عوام کے عزم کے درمیان حیرت انگیز جدوجہد ہونے جارہی ہے ۔ ملک کے مستقبل کا دارومدار اس جنگ کے نتیجے پر ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں