ناانصافی کی انتہا

ایک قتل‘ گولیوں کی برسات‘ ایک خاندان پر تشدد۔ اور یہ سب کچھ نامی گرامی افراد کے ساتھ ہوا‘ وہ افراد جن کی بات سنی جاتی ہے۔ پھر بھی ہر طرف گہری خاموشی ہے۔ کوئی انصاف نہیں مل رہا۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ: مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے! ان کیسوں میں تو پہلے ہی دو افراد کا خون ہو چکا۔ چودہ افراد گولیوں کا نشانہ بنے ہیں لیکن حقوق کے محافظوں کے سامنے سب دم سادھے ہوئے ہیں۔ یہ بات ذہن ماؤف کر دیتی ہے‘ پریشان کن ہے‘ دل شکن ہے۔ جمہوریت میں قانون کی عملداری ہی حقیقی حکمرانی ہے۔ یہ نہ ہو تو یہ جمہوریت کے نام پر منافقت ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ کسے پکارا جائے؟ کہاں جائیں؟ یہ سوالات عوام کے ذہن میں عشروں سے کلبلا رہے تھے۔ لیکن اب ان کی حدت اتنی بڑھتی جارہی ہے کہ خدشہ پیدا ہوچلا ہے کہ کہیں عوام قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لیں۔
کچھ افراد کا کہنا ہے کہ ملک میں کہیں بھی قانون کی عملداری سرے سے ہے ہی نہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ ملک میں گویا جنگل کا قانون ہے۔پاکستان کو یقینا کسی بیرونی طاقت سے جنگ کا سامنا نہیں‘ لیکن یہ اندرونی طاقتوں کے خلاف جنگ ضرور ہے۔ جنگل کا قانون مگر اس سے بھی تباہ کن ہوتا ہے۔ لغت میں اس سے مرادایسا نظام ہے جس میں طاقتور بچ جاتے ہیں‘ جیسا کہ قدرتی ماحول میں جانور یا انسان جن کے افعال قوانین یا تہذیبی اقدار کے تابع نہیں ہوتے۔ اگر ہم اپنی موجودہ حالت کا موازنہ کریں تو یہ جنگل کے قانون سے قریب ترین دکھائی دیتی ہے۔ لوگ مر رہے ہیں‘ ان پر بہیمانہ تشدد ہو رہا ہے‘ انہیں جذباتی صدمات پہنچ رہے ہیں۔ وہ انصاف کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں‘ لیکن انصاف ملنے کے بجائے اُنہیں مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔ ہمیں تینوں واقعات کا کیس بنا کر ان میں روا رکھی گئی بربریت کو اجاگر کرنا ہوگا۔ ضروری ہے کہ صدا بلند کرتے ہوئے نظام انصاف پر دباؤ ڈالا جائے تاکہ ناانصافی کا تدارک ہو سکے۔
1۔ جنگل میں قتل: ارشد شریف کا قتل بہت کچھ سوچنے اور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ اُنہیں پراسرار حالات میں گولی مار دی گئی۔ کینیا کی پولیس نے انہیں ''غلط شناخت‘‘ پر حادثاتی طور پر قتل کیا۔ پمز ہسپتال اسلام آباد نے پوسٹ مارٹم کیا لیکن لواحقین کو رپورٹ کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانا پڑی۔ بالآخر انہوں نے اسلام آباد ہائی کورٹ کا دروازا کھٹکھٹایا‘ جس پراسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس عامر فاروق نے اُن کی درخواست پر سماعت کی اور متعلقہ حکام سے جواب طلبی کی۔ ارشد شریف کی والدہ رفعت آرا علوی نے درخواست میں صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی‘ سیکریٹری داخلہ اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمز) کو مدعا علیہ نامزد کیا تھا۔ بالآخر اسلام آباد ہائی کورٹ کی وساطت سے ارشد شریف کی پوسٹ مارٹم رپورٹ ان کی والدہ کے حوالے کردی گئی۔ارشد شریف کے اہل خانہ کو حکومت کی جانب سے بنائی گئی انکوائری کمیٹی پر بھی تحفظات ہیں۔ حکومت نے جسٹس شکور کو جوڈیشل انکوائری کا سربراہ مقرر کیا تھا لیکن اُنہوں نے یہ عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ سب واقعات مرحوم کے لواحقین کے لیے مزید پریشانی کا باعث ثابت ہوئے ۔ تصور کریں کہ ارشد شریف کی صدمے سے نڈھال والدہ جو اپنے آخری بیٹے کو بھی کھو چکی ہیں‘ چھوٹی چھوٹی باتوں پر تڑپ رہی ہیں۔ یہ انتہائی افسوس ناک صورت حال ہے۔ اب کیس اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہے۔ ارشد شریف کی والدہ نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر اس کیس کو جیسے ہینڈل کیا جا رہا ہے‘ اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ وہ بتانا چاہتی ہیں کہ ارشد شریف کو کس کی طرف سے دھمکیاں مل رہی تھیں لیکن نہ ہی پولیس اور نہ ہی حکومت جاننا چاہتی ہے۔ جذباتی طور پر تھکی ہوئی بوڑھی عورت روتی ہوئی چلی گئی اور انصاف کی التجا کرتی رہی لیکن کہیں شنوائی نہیں ہورہی۔ وقت اس زخم کو مندمل نہیں کرپائے گا۔ نظامِ انصاف کو اُس کمزور بوڑھی خاتون کو بچانا چاہیے جو اپنے بیٹے کو کھونے کے بعد اب جذباتی ایذا رسانی کا شکار ہو رہی ہے۔
2۔ وزیر آباد میں فائرنگ اور قاتلانہ حملہ: چلیں ارشد شریف کیس دور افتادہ افریقی محل وقوع کی وجہ سے قدرے مبہم تھا لیکن وسطی پنجاب میں ایک سابق وزیراعظم اور مقبول ترین سیاسی رہنما پر قاتلانہ حملہ ایک واضح اور دوٹوک کیس ہے۔ اُنہیں روزانہ دھمکیاں مل رہی تھیں۔ وزیر داخلہ سے لے کر کچھ اور وزرا تک اس ''فتنے‘‘ کو کچلنے کی خواہش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ 24 ستمبر کو پی ٹی آئی چیئرمین نے عوام کو یہ بتا دیا تھا کہ وزیر داخلہ اور ان کے سہولت کار یہی منصوبہ بنا رہے ہیں۔ تو یہ کوئی اتفاق نہیں کہ ایسا ہی ہوا۔ اس کے علاوہ فائرنگ کے تبادلے کے بعد ہونے والے واقعات بھی قابلِ فہم ہیں۔ کئی روز گزرنے کے بعد بھی ان افراد کے نام پر ایف آئی آر درج نہ ہو سکی جنہیں چیئرمین تحریک انصاف تحقیقات میں شامل کرانا چاہتے تھے۔ پولیس کی مزاحمت اوربیوروکریسی کی جانب سے سست روی نے اس بات کی تصدیق کر دی کہ قتل کی کوشش کے پیچھے کوئی تو بڑا ہاتھ ہے۔ عدالتی احکامات کے بعد بھی ایف آئی آر محض اشک شوئی تھی کیونکہ یہ پولیس نے درج کروائی تھی اور یہ بالکل بے فائدہ تھی۔ اس سے نظام انصاف پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ اصل شکایت کنندہ قانون کے مطابق ایف آئی آر درج کراسکے۔ یہ جنگل کے قانون کی انتہا ہے۔ ذرا غور کریں کہ یہ واقعہ ایک انتہائی اعلیٰ شخصیت اور اس کی پارٹی کے ساتھ پیش آیا کہ یہ واقعہ ایک ایسے شخص کے ساتھ پیش آیا جس کی پارٹی ستر فیصد پاکستان پر حکومت کررہی ہے۔ لیکن ان سے زیادہ طاقتور لوگ ہونے کی وجہ سے ان کے اپنے صوبوں کی حکومت کچھ نہیں کر پا رہی۔ اس صورتحال سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں کس طرح جنگل کا قانون نافذ ہے جس میں کسی شہری کے لیے انصاف کا حصول بالکل ممکن نہیں ہے۔
3۔ انسانی وقار کی پامالی: جسم کو زخمی کرنا خوفناک ہے لیکن روح کو گھائل کرنا بھیانک فعل ہے۔ اعظم سواتی کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ بیان سے باہرہے۔ ان کے ساتھ پیش آنے والے واقعات طاقت کی راہداریوں کا عام حربہ ہیں لیکن جو کچھ غیر معمولی ہوا وہ ان واقعات کے بعد اعظم سواتی کا رویہ ہے۔ انہوں نے نصف صدی کی خاموشی کا جمود توڑ دیا۔ وہ میڈیا پر آگئے۔ انہوں نے برہنہ کرکے تشدد کرنے کی بات کی۔ وہ عدالت چلے گئے۔ وہ پارلیمنٹ میں گئے۔ اس سے ایک اور ویڈیو کا پتا چلا جو ان کی بیٹی کو ڈرانے کے لیے بھیجی گئی تھی۔ یہ حربے تو کسی بھی جرات منداور جارح انسان کو خاموش کرا سکتے ہیں۔ یہ ویڈیو غلطی سے یا جان بوجھ کر اعظم سواتی اور ان کی اہلیہ کی نکلی۔ حقیقت یہ ہے کہ اعظم سواتی نے ایک بار پھر خاموش نہ رہتے ہوئے غیرمعمولی ہمت کا مظاہرہ کیا لیکن یہ سب واقعات کیا ظاہر کرتے ہیں؟ یہ انسانی زندگی کی گراوٹ ہے۔ جذباتی اور نفسیاتی اذیت کے لیے ایسے ہتھکنڈے اختیار کرنا پستی کی انتہاہے لیکن اس سے بھی قابلِ افسوس نظام انصاف کا وہ ردِعمل تھا جس نے کہہ دیا کہ وہ جگہ جہاں یہ ویڈیو بنی‘ اس کے اختیار میں نہیں آتی۔
اس میں طاقتوروں کی ملی بھگت واضح ہے۔ پولیس جبر پر مجبور ہے۔ نظام انصاف تذبذب کا شکار ہے۔ چند میڈیا ہائوس استحصال پر تلے ہوئے ہیں۔ عوام پریشان اور بے حال ہیں۔ ہم عام‘ بے اختیار لوگوں کی بات نہیں کر رہے۔ ہم بات کر رہے ہیں ملک کے سب سے مشہور صحافی کی۔ ایک سینئر پارلیمنٹرین اور وزیر کی۔ ایک سابق وزیراعظم اور پاکستان کی سب سے مشہور شخصیت کی۔ جو اپنی تمام تر آواز‘ طاقت اور رابطوں کے باوجود ابھی تک پوسٹ مارٹم‘ ایف آئی آر اور انکوائری کے بنیادی حقوق حاصل کرنے کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں۔ عام آدمی کی زندگی کا تصور کریں۔ وہ کچھ نہیں کر سکتے۔ اپنے حقوق کے لیے لڑنا کوئی مذاق ہے۔ آواز اٹھانا جرم ہے۔ انصاف کا مطالبہ کرنا فضول ہے۔ یہ سب اس نظام کے غلام ہیں جو جمہوریت کے بھیس میں آمریت سے بھی زیادہ جابر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی کی موجودہ جنگ انسان ہونے کے حق کی جنگ بن چکی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں