ایک شخص کی طاقت

''جب آپ کے ارد گر د موجود ہر شخص سر جھکا لے تو سربلند رکھنا باعثِ فخر ہے‘ اس کیلئے حوصلے کی ضرورت ہے‘‘۔ یہ جملہ بریس کورٹینی کی کتاب The Power of One سے لیا گیا ہے۔ مذکورہ کتا ب جنوبی افریقہ کے ایک لڑکے پیکے اور اس کی جدوجہد کے بارے میں ہے جس نے تمام تر نامساعد حالات کے باوجود اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنایا۔ ایک شخص کی طاقت کے اصول کا اکثر حوالہ دیا جاتا ہے‘ اس پر بحث کی جاتی ہے اور لکھا جاتا ہے۔ اسے ایک اچھا موضوعِ گفتگو خیال کیا جاتا ہے لیکن جب اسے عملی شکل دینے کی باری آتی ہے تو بہت کم ایسا کرپاتے ہیں۔ پاکستان میں جو کچھ ہورہا ہے‘ اس جملے کی عملی شکل کا اظہار تیزی سے ایک جیتی جاگتی حقیقت بنتا جارہا ہے۔ تمام طاقتور مل کر ایک شخص کے خلاف زور آزمائی کررہے ہیں تاکہ اسے زیر کرلیں لیکن اس ایک شخص نے مکمل اختیار اور بے اختیار ہونے کے درمیان فرق کی حتمی لکیر کھینچ دی ہے۔ اختیار حاصل کرنا اولین ایجنڈا ہے۔ اختیار کھونے کا مطلب انتہائی بے توقیری ہے۔
یہ افراد اور گروہوں کے لیے فطری امر ہے کہ وہ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے حمایت تلاش کرتے ہیں۔ یہ بھی فطری امر ہے کہ وہ منزل حاصل نہ ہونے کا الزام اس حمایت کو دیتے ہیں جو حاصل نہ ہوسکی۔ ہر لیڈر کا مقصد ایک ایسی ٹیم تیار کرنا ہے جو اسے اپنے مقاصد کے حصول میں مدد دے سکے۔ جب اہداف حاصل نہیں ہوتے ہیں تو ٹیم جائزہ لیتی ہے کہ کیا کمی رہ گئی تھی۔ تاریخ میں شاید ہی کبھی ایسا ہوا ہو کہ ایک آدمی اتنی طاقت حاصل کرلے کہ تمام حریف میدانِ جنگ سے فرار ہونے میں عافیت گردانیں۔ آج ہم پاکستان میں کم و بیش یہی منظر دیکھ رہے ہیں۔ آخری دنوں تک پی ڈی ایم کے اتحاد میں شامل 13جماعتوں نے انہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن کچھ بھی کام نہیں آیا۔ جیسے جیسے دن گزرتے جا رہے ہیں ''مائنس عمران‘‘ کا خواب دیکھنے والا گروہ خود ہی مائنس ہوتا جا رہا ہے۔ وہ ہر قسم کے سیاسی مقابلے سے بھاگ رہاہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ تمام مخالفین کے مقابلے میں اس ایک شخص (عمران خان) کی جرأتِ رندانہ نے کتنے دیو مالائی افسانوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے۔
1: فلاحی کاموں کیلئے بہتر ہے نہ کہ معیشت کیلئے: عمران خان کے بارے میں سب سے بڑا افسانہ یہ تھا کہ وہ ایک انسان دوست شخص ہیں اور خیراتی اداروں کے لیے چندہ اکٹھا کر سکتے ہیں لیکن حکومت کوئی خیراتی ادارہ نہیں۔ گورننس اور معیشت الگ کہانی ہے اور وہ اسے سنبھال نہیں سکیں گے۔ عمران خان کو ایک ایسی معیشت وراثت میں ملی جو 2018ء میں خطرناک حد تک غیرمستحکم اور انتہائی نازک حالات سے دوچار تھی۔ انہوں نے مارچ 2022ء میں ایک ایسی معیشت چھوڑ ی جو مستحکم تھی اور تیزی سے ترقی کر رہی تھی۔ پی ڈی ایم نے اپنے دور میں ناکامی کی داستان رقم کی‘ حقائق نے اسے ثابت کیا ہے۔ پی ڈی ایم کی دس ماہ کی کارکردگی تحریک انصاف حکومت کے بالکل برعکس ہے۔ تحریک انصاف حکومت نے کورونا کے ڈیڑھ سال کے باوجود گزشتہ دو سالوں میں 5.74 فیصد اور 6 فیصد اقتصادی شرحِ نمو حاصل کی جس میں اب تک کی سب سے زیادہ برآمدات‘ ترسیلاتِ زر اور صنعتی ترقی شامل ہے۔ مارچ 2022ء میں کریڈٹ ڈیفالٹ کا خطرہ 5فیصد تھا جو سال کے آخر میں 95فیصد تک ہوگیا۔ عالمی ادارے پاکستانی معیشت کو مسلسل زوال پذیر بتا رہے ہیں۔ پی ڈی ایم کی اس تباہ کن کارکردگی کے بعد ماہرین نے بادل نخواستہ تسلیم کیا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے مفتاح اور ڈار سے کہیں بہتر معیشت کا انتظام کیا تھا۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کے اپنے قائدین اب ان دونوں کی لائی ہوئی تباہی پر سوال اٹھا رہے ہیں۔ اس سے وہ افسانہ دم توڑ گیا ہے جو عمران خان کی مبینہ معاشی لاعملی کے بارے میں تراشا گیا تھا۔
2: مقبولیت اپنی جگہ پر‘ لیکن الیکشن دھاندلی سے جیتے تھے: عمران خان کی مقبولیت اب زیر بحث نہیں۔ معیشت کورونا کی وجہ سے متاثر تھی لیکن سمجھنے والے سمجھ نہ پائے۔ نیز دولت کے بل بوتے پر بیانیہ بھی پھیلا دیا گیا لیکن جس رات انہیں اقتدار سے ہٹایا گیا‘ لوگ سڑکوں پر تھے۔ حقیقت کھل کر سامنے آگئی تھی۔ اس کے بعد تمام پولز نے مقبولیت میں زبردست اضافہ دکھایا ہے۔ غیرمقبولیت کے نعرے سے دستبردار ہوتے ہوئے پی ڈی ایم نے عمران خان کو ووٹ سے منتخب ہونے والے لیڈر کے بجائے سلیکٹڈ کہنا شروع کردیا۔ ان کے پاس اس کی دو وجوہات تھیں۔ ایک‘ انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران خان نے 2018ء کے انتخابات دھاندلی سے جیتے تھے۔ چونکہ عدم اعتماد کے ووٹ کے بعد سب عمران خان مخالف تھے‘ اس لیے وہ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں 20میں سے 8سے زیادہ نشستیں نہیں جیت سکیں گے۔ لیکن انہوں نے پندرہ نشستیں جیت لیں۔ یہ جیت محض ایک ضمنی انتخاب کے نتائج سے کہیں بڑھ کر تھی۔ اس نے تحریک انصاف کو پنجاب حکومت پر قبضہ کرنے کے قابل بنادیا۔ اس نے پی ڈی ایم کی تحریک انصاف کے لانگ مارچ کو روکنے‘ اسے ہراساں کرنے اور پرتشدد ہتھکنڈوں کی حکمت عملی کو ناکام بنا دیا لیکن اس سے بڑھ کر اس نے اس افسانے کو غلط ثابت کر دیا کہ پاکستان میں کوئی بھی الیکشن انجینئرنگ کے بغیر نہیں جیتا جا سکتا۔ یہ اس وقت مزید پختہ ہوا جب عمران خان نے 16اکتوبر 2022ء کو قومی اسمبلی کی 8میں سے 7نشستیں جیت لیں۔
3: قیادت نہ کہ فرار: تحلیل ہو جانے والا ایک اور افسانہ یہ ہے کہ قیادت عہدے سے ہوتی ہے۔ ایک لیڈر سامنے آکر قیادت کرتا ہے‘ چاہے اس کے پیروکار کم ہوں۔ کھڑے ہونے اور خطرہ مول لینے کا ناقابلِ تسخیر جذبہ مزید کو ساتھ شامل ہونے کی ترغیب دیتا ہے۔ اقتدار کی راہداریوں کے جغادریوں نے عمران خان کو گھیرنے‘ شکست دینے‘ گرفتار کرنے اور ختم کرنے کے ہدف کے طور پر نشانہ بنا لیا۔ اور یہ محض لفاظی نہیں۔ انہیں پارلیمنٹ میں کھلی ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے حکومت سے ہٹایا گیا۔ پارلیمانی ریسٹ ہاؤسز بالخصوص سندھ ہاؤس میں خرید و فروخت ہوئی۔ انہیں ملی بھگت سے انتخابات میں ناکام بنانے کی کوشش کی گئی لیکن ناکام رہے۔ ان پر متعدد مقدمات قائم کیے گئے۔ گرفتاری کی بھی چند کوششیں کی گئیں جو ابھی تک جاری ہیں۔ ان پر قاتلانہ حملہ ہوا ہے لیکن ان کی جان بچ گئی۔ اس سب کے باوجود وہ ملک میں تقریباً تمام سیاسی حرکیات میں پیش پیش رہے ہیں۔ یہاں وہ پی ڈی ایم سے بالکل مختلف ہیں۔ شہباز شریف ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ غیر مقبول وزیراعظم ہیں۔ نواز شریف نے پاکستان واپس آنے سے انکار کر دیا۔ حمزہ شہباز پنجاب میں آنے سے گریزاں ہیں لیکن عوام میں اس کا کیا تاثر جارہا ہے۔ تاثر وہی ہے جو دکھائی دیتا ہے۔ حکومت کے پاس وزیراعظم ہے لیکن کوئی لیڈر نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معیشت اور گورننس زمین بوس ہو رہی ہیں۔ عمران خان وزیراعظم نہیں ہیں اور تمام تر مخالفت کے باوجود وہ اس ملک کے عوام کے دِلوں پر حکومت کرتے ہیں۔
4: درحقیقت وہ کوئی سیاست دان نہیں: بیشتر تجزیہ کار سالہا سال خان صاحب کو سیاست سے دور رہنے کا مشورہ دیتے رہے۔ وہ کہتے کہ عمران خان اچھے کرکٹر تھے‘ عظیم انسان دوست ہیں لیکن سیاست دان نہیں۔ آصف زرداری اور نوازشریف کی مثالیں دی گئیں کہ انہوں نے کیسے اپنی پارٹیوں کو کئی بار اقتدار میں لانے کی سیاست کی۔ یہ 2013ء اور 2018ء کی بات ہے جب ان دونوں جماعتوں نے پی ٹی آئی کو ایک سنگین سیاسی مخالف سمجھنا شروع کیا۔ تاہم 2022ء میں جب وہ عدم اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تو انہوں نے ایک ہی نعرہ لگانا شروع کر دیا ''اک زرداری سب پر بھاری‘‘۔ تاہم اس کے بعد جو کچھ ہوا‘ اس میں سب کے لیے ایک سبق ہے۔ اور آنے والے زمانوں میں اس پر کتابیں لکھی جائیں گی۔ پی ٹی آئی نے جس ہوشیار طریقے سے عوامی بیداری کا استعمال کیا‘ اس نے پی ڈی ایم کو پیچھے دھکیل دیا۔ اور یوں انہیں بیانیہ تبدیل کرنا پڑا۔ اب تو پی پی پی اور (ن) لیگ کے قائدین بھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمران خان ایک اچھا سیاست دان ہے۔
یہ ملک کے لیے تکلیف دہ وقت ہے۔ عوام پر ایک ایسی حکومت مسلط ہے جو اپنی ساکھ کھو چکی ہے۔ وہ عوام کو مسلسل پسماندگی میں دھکیل رہی ہے۔ وہ ابھی تک لیکن طاقت بڑھائو کے پرانے فارمولے پر چل رہی ہے اور قانونی‘ سیاسی اور پوشیدہ شکنجے کو ان لوگوں پر استعمال کر رہی ہے جو چیلنج کرنے کی ہمت کرتے ہیں۔ انہیں عوامی تکالیف سے کوئی پریشانی نہیں کیوں کہ تمام سٹیک ہولڈرز ان کے ساتھ ہیں۔ایک طاقت لیکن حقیقی اور ناقابلِ شکست ہے جو اصول کی طاقت ہے۔ جیسا کہ مارگریٹ میڈ کہتی ہے: ''بلاشبہ سوچنے سمجھنے والے پُرعزم شہریوں کا ایک چھوٹا سا گروہ دنیا کو بدل سکتا ہے۔ درحقیقت یہی دنیا کی سب سے بڑی حقیقت ہے‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں