ٹائی ٹینک کی طرح ہماری معیشت بھی برف کے ایک خطرناک تودے کی طرف بڑھ رہی ہے جس سے تصادم کے نتیجے میں ہمارا پہلے سے خستہ حال معاشی جہاز خدانخواستہ غرقاب ہو سکتا ہے۔ سر پر منڈلانے والی اس تباہی سے کون بچا سکتا ہے؟اس وقت ہم اندازہ لگانے کے سوا کچھ نہیں کر سکتے کہ وزارتِ عظمیٰ کے بعد سب سے اہم منصب کس کو سونپا جائے گا؟فی الحال یہ جہاز کسی کپتان کے بغیر ہی چل رہا ہے کیونکہ کپتان اپنے کسی خواب کا پیچھا کرنے کے لیے پتوار کو چھوڑ گیا تھا۔ عبد الحفیظ شیخ ایک باصلاحیت انسان ہیں اُن کا خیال تھا کہ انہیں نگران وزیر ِ اعظم بنا دیا جائے گا؛ چنانچہ وہ اپنی وزارت کو خیر آباد کہہ گئے۔ اب وہ محسوس کر رہے ہوں گے کہ اُن کا خواب سراب کی مانند تھا۔ شیخ صاحب کی جگہ جن صاحب کو لایا گیا، اُن کا کام ایسا تھا جیسے زرداری صاحب کسی باورچی کو مختصر مدت کے لیے کچن کی صفائی کے لیے رکھ لیں۔ انہوں نے حکومت کے آخری لمحات میں خزانے میں جھاڑو دے کر تمام بچی کھچی پونچی حکومت کے پیاروں کے حوالے کردی۔ ان کے بعد کیونکہ خزانے میں کچھ نہیں تھا اس لیے نگران حکومت کو وزیر ِ خزانہ کی ضرورت ہی نہ تھی۔ کئی ہفتے یہ منصب خالی رہا۔ تاہم چند دن پہلے اعلیٰ سطح کا ایک وفد عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے مالی مدد حاصل کرنے کے لیے امریکہ گیا۔ اس وفد میں شامل شاہد امجد چودھری وزیر ِ اعظم کے مشیر برائے مالی امور بتائے گئے جبکہ سیکرٹری خزانہ ڈاکٹر وقار مسعود خان اُن کے ہمراہ تھے۔ یہ حضرات ایک اچھی اور ایک بری خبر لے کر واپس لوٹے۔ اچھی خبر یہ کہ پاکستان پانچ بلین ڈالر تین سے چار سال کے عرصے میں حاصل کر سکتا ہے جو پانچ سے دس سال میں واپس کیا جائے گا۔ بری خبر یہ ہے کہ آئی ایم ایف سودی مارکیٹ سے دوسو سے تین سو پوائنٹ زیادہ شرح سود پر یہ قرض دے گا اور اسلام آباد کو سالانہ ایک ارب ڈالر کی قسط ادا کرنی پڑے گی۔ چودھری صاحب خوشی خوشی واپس آئے اور روایتی سرکاری زبان میں خوشخبری سنائی کہ مالیاتی اداروںسے گفتگو ’’انتہائی مفید ‘‘ رہی۔ انہوںنے یہ بھی بتایا کہ فریق ِ ثانی کا رویہ ’’انتہائی‘‘ مثبت تھا اور وہ نئی حکومت کے ساتھ بات چیت کرنے پر آمادہ ہیں۔ اس گفتگو میں لفظ ’’انتہائی ‘‘ قابل ِ غور ہے۔ تمام بوجھ آنے والے وزیر ِ خزانہ پر ڈالتے ہوئے انہوں نے اپنی قومی خدمت کو خود ہی سراہا۔ اس وقت ٹی وی اینکروں اور اخبارات کے کالم نگاروں کو بتانا چاہیے کہ آنے والے دنوں میں ملک کو کس طرح کے وزیر ِ خزانہ کی ضرورت ہوگی۔ ملک کو اس وقت ایک قابل اور معاملہ فہم وزیر ِ خزانہ کی جتنی ضرورت آج ہے شاید پہلے کبھی نہ تھی۔ ایسا وزیر ِ خزانہ جو خود ٹیکس چور ہو یا بنک ڈیفالٹر ہو، وہ ملک کی موجودہ مالیاتی ایمرجنسی میں کیا مدد کرے گا؟ دھوکے بازوں ، بنک ڈیفالٹروں اور ٹیکس چوروں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کے لیے کمزور، تھکے ماندے اور تنقید سے گھبرائے ہوئے الیکشن کمیشن نے اپنا کام ریٹرننگ آفیسرز کو سونپ دیا۔ اُن میں سے کچھ نے پورے عمل کو مذاق بنا دیا۔ جب امیدوار کسی چھلنی سے گزر کر نہیںآئے تو بنیادی سوال وہیںموجود ہے کہ ہمارا نیا وزیر ِ خزانہ کون ہو گا؟اگر نواز شریف آئندہ وزیر ِ اعظم بنتے ہیں تو کیا نشان ِ امتیاز حاصل کرنے والے اسحاق ڈار کو یہ ذمہ داری سونپی جائے گی ؟اگر پی پی پی جیت گئی تو کیا آصف زرداری دومرتبہ کے آزمودہ اور ناکام رہنے والے نوید قمر کو وزیر ِ خزانہ بنائیںگے یا پھر سلیم مانڈوی والا بہتر انتخاب ہو گا؟اگر عمران خان کے سر پر اقتدار کا ہما بیٹھا تو کیا ایک غیر ملکی ادارے کے سی ای او اسد عمر یا مشرف دور میں شہرت پانے والے صنعت کار جہانگیر ترین کو یہ منصب سونپا جائے گا؟ذرا ٹھہریں… شنید ہے کہ شوکت عزیز کی طرح کے ریڈی میڈ ماہرین واشنگٹن میں تیار بیٹھے ہیں ۔ اسلام آبادسے اشارہ ملتے ہی وہ پہلی دستیاب فلائٹ سے امریکہ سے پاکستان پہنچ جائیںگے۔۔۔ اور ایسا پہلی مرتبہ نہیںہوگا کیونکہ ہم عالمی بنک اور آئی ایم ایف سے تعلق رکھنے والے بہت سے ماہرینِ معاشیات کو بھگت چکے ہیں۔ ایسے لوگ کسی مشن پر آتے ہیں اور وہ اپنا کام کرنے کے بعد جہاںسے آئے تھے وہیں واپس سدھار جاتے ہیں۔ شنید ہے کہ واشنگٹن سے نہال ہوکر آنے والی ٹیم نے اسٹیبلشمنٹ کے کان میںکوئی سرگوشی کی ہے۔ پاکستان کے معروضی حالات بتاتے ہیںکہ یہاں وزیرِ خزانہ کی تقرری کرنا ایک الجھا ہوا معاملہ ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے وزیر ِ اعظم اور صدر ِمملکت کو ایک ایسا شخص چاہیے ہوتا ہے جو اُن کے مالی مفادات کا تحفظ کر سکے یا پھر انہیں زیادہ سے زیادہ اپنی جماعت کا مفاد عزیز ہوتا ہے۔ ڈاکٹر مشتاق خان کو شاید اسی وجہ سے چلتا کیا گیا۔ انہیں نگران حکومت میں وزیر ِ خزانہ کے منصب پر تعینات کرنے کے لیے دو اپریل کو ایوان ِ صد ر میں بلایا گیا تھا۔ جس نشست پر اسٹیٹ بنک کے یہ چیف اکانومسٹ بیٹھے تھے، وہ کچھ اور استحقاق زدہ افراد کی نظر میںبھی تھی۔ اس کشمکش میں ڈاکٹر خان کو کہا گیا وہ کرسی چھوڑ کر حاضرین کے درمیان کہیں بیٹھ جائیں۔ جب انہوںنے انکار کیا تو انہیں زبردستی اٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد اب تک کسی کو وزارت ِ خزانہ کے منصب پر فائز نہیںکیا گیا۔ اسے کچھ مشیرانِ باتدبیر چلا رہے ہیں۔ جہاں تک پی پی پی حکومت کا تعلق ہے‘ محترمہ بے نظیر بھٹو نے اپنی پہلی اور دوسری مدت کے دوران یہ منصب اپنے پاس رکھا تھا۔ دوسری مدت کے دوران جب یہ عہدہ بدعنوانی کے الزامات کی زد میں آیا تو انہوںنے نوید قمر کو وزیرِ خزانہ بنا دیا۔تاہم نوید قمر کو زیادہ موقع نہ ملا کیونکہ ان کی تعیناتی کے ایک ماہ سے بھی کم عرصے میں محترمہ کی حکومت جاتی رہی۔ اگر میاں نوازشریف کو موقع ملا تو کیا وہ ہمارے غیر ملکی اکائونٹس ایک بار پھر منجمد نہیں کر دیں گے؟ بہت سے لوگ ابھی تک اُس چرکے کو نہیں بھولے۔ اُس واقعے کے بعد میںنے ایک ریٹائرڈ جنرل سے جو اُس وقت سکیورٹی رائٹ کے انچارج تھے‘ انٹرویو لیا۔ انہوں نے مجھے اُن ناموں کی فہرست مہیا کی جنہوں نے اکائونٹس منجمد ہونے سے کچھ دیر پہلے اپنے غیر ملکی اکائونٹس خالی کر لیے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اُس شام غیر ملکی کرنسی سے لدا ہوا جہاز پاکستان سے باہر پرواز کر گیا۔ جب جنرل صاحب نے اعلیٰ حکام کو یہ بات بتائی تو اُنہیں فوراً اُس حساس عہدے سے برخاست کر دیا گیا۔ میاں محمد منشا جو پاکستان کے پہلے ارب پتی ہیں اور Forbes کی فہرست کے مطابق وہ دنیا کے امیر ترین افراد میں سے ایک ہیں نے Bloomberg کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ نئی حکومت کو وہ ادارے فروخت کرنا پڑیں گے جو ملکی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے جب مسلم کمرشل بنک خریدا تھا تو میڈیا میںیہ معاملہ متنازعہ رنگ اختیار کر گیا تھا۔ اگر اس سلسلے میں مزید سچائی کی تلاش ہو تو مسٹر شاہد الرحمان کی1999ء میں شائع ہونے والی کتاب ’’Who Owns Pakistan‘‘ پڑھیں۔ اس کا انٹر نیٹ ایڈیشن بھی دستیاب ہے۔