اگر کرکٹ کو کنٹرول کرنا ہے تو اس کے سرپرست ِ اعلیٰ کو کنٹرول کیا جائے۔ معاملات کو جاننے والے اس بات کو سمجھتے ہیں کہ کرکٹ بورڈ کے چیئر مین ، جن کا وہ چنائو کرتا ہے، کی بجائے مسائل کی بنیاد اس کا سرپرست ِ اعلیٰ ہی ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں ملک کا چیف ایگزیکٹو ہی پی سی بی (پاکستان کرکٹ بورڈ ) کا سرپرست ہوتا ہے۔ اگر وہ کرکٹ کی صورت ِ حال کا جائزہ لینا چاہیں تو یہ مناسب وقت ہے۔ چیئرمین کا الیکشن ماضی کی طرح پسند و نا پسند کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ الیکشن شفاف ہونا چاہیے کیونکہ دو ماہ پہلے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے لیے پہلا الیکشن جس میں ذکا اشرف کا چنائو ہوا، شفافیت سے عاری تھا، جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے کالعدم قرار دے دیا۔ کیا اس سے یہ پیغام جائے گا کہ انتخابی عمل میں کسی کی مداخلت نہ ہو؟ اگر آپ ضیا ، بے نظیر، نواز شریف، پرویز مشرف اور آصف زرداری تک کے دور کو دیکھیںکہ ان کی طرف سے کرکٹ بورڈ کے چیئرمین وہ افراد منتخب کیے گئے جو چاہے سویلین تھے یاریٹائرڈجنرل ، بہرحال سیاست دان تھے اوراُن کی دلچسپی کا محور کرکٹ اور ٹیم کو عالمی ریننگ میں بلندکرنے کی بجائے کرکٹ بورڈ کے سوتوںسے پھوٹنے والی مالیاتی گنگا میں ہاتھ دھونا تھا۔ جب نواز شریف وزیر ِ اعظم بنے تو یہ بات طے تھی کہ ذکااشرف کی قسمت کا فیصلہ ہو چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ وہ اپنے عہدے میں چار سال کی توسیع چاہتے ہوں کیونکہ وہ ن لیگ کی رکن ِ پارلیمنٹ بیگم عشرت اشرف کے بھائی ہیں اور وہ محترمہ چوہدری جعفر اقبال کی زوجہ اور زیب جعفر کی والدہ ہیں۔ یہ تمام شخصیات نواز لیگ کے اہم ممبران میں سے ہیں۔ کالم میں ذکا اشرف کے خاندان کا تذکرہ نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن کیا کریں ، پاکستان میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونے کے لیے اہلیت سے زیادہ خاندانی روابط درکار ہوتے ہیں۔ قارئین اگر غور سے جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ پاکستان کے تمام متمول اور صاحب ِ حیثیت افراد کے کسی نہ کسی سطح پر سیاسی روابط ضرور ہیں۔ ذکا اشرف کو جوایک بنکار اور زرعی ماہر تھے، کرکٹ بورڈ کا چیئر مین صرف اس لیے بنا دیا گیا کہ وہ صدر زرداری کے دوست تھے۔ ذکا اشرف کے جانے کے بعد میڈیاکی ایک قدآور شخصیت، نجم سیٹھی پی سی بی کے نگران چیئرمین بنے۔ کرکٹ کو کھوئی ہوئی عظمت واپس دلانے کے لیے نواز شریف کی نگاہ ِ انتخاب پنجاب کے سابق نگران وزیر ِ اعلیٰ پر پڑی۔ اس فیصلے پر بہت تنقید ہوئی اور احتجاج بھی کیا گیا۔ کامران رحمت ایک انگریزی اخبار میں لکھتے ہیں: ’’نجم سیٹھی اپنے اس نئے عہدے پر پریشان ہیں کیونکہ پی سی بی نو سو ملازمین کا حجم رکھتا ہے جو اس کو ڈبونے کے لیے کافی ہے۔ اس کے مختلف ڈائریکٹرز مختلف بلکہ مخالف مقاصد کے حصول کے لیے کام کرتے ہیں۔‘‘کچھ اراکین ِ اسمبلی بھی اعتراض کرنے والوں کے ہم آواز ہو گئے اور انہوں نے الزام لگا یا کہ نواز شریف اہم عہدوں پر اپنے پسندیدہ افراد کو فائز کر رہے ہیں۔ چونکہ ان کی تقرری کو چیلنج کیا جاچکا ہے، اس لیے قبل اس کے کہ عدالت اُنہیں ایسا کرنے کو کہے، ہوسکتا ہے کہ نجم سیٹھی خود ہی یہ عہدہ چھوڑ دیں۔ کامران رحمت لکھتے ہیں: ’’ اس سے قبل نجم سیٹھی کا کہنا تھا کہ وہ پی سی بی کا گند صاف کر دیں گے لیکن اُنہیں اس کام کے لیے مہلت درکار ہے، لیکن اب اُن کا کہنا ہے کہ وہ صرف آئی سی سی کی کانفرنس میں شرکت کرکے اور ٹیم کے دورہ ِ ویسٹ انڈیز کی منظوری دے کر عہدہ چھوڑ دیںگے۔ ‘‘ میں جیسا کہ اپنے قارئین کو بعض اوقات اپنے ساتھ ایام ِ رفتہ میں لے جاتی ہوں، آپ کو1954 کے موسم ِ گرما کی یاد دلاتی ہوں۔ پنجاب کے گورنر میاں امین الدین تھے اور وہ پاکستان کرکٹ بورڈ جو اُس وقت بی سی سی پی کہلاتا تھا کے سابق چیئرمین تھے۔ اُن کی محنت ، مہارت اور لگن نے وہ ٹیم تشکیل دی تھی جس نے پہلی مرتبہ انگلستان کا دورہ کرنا تھا۔ اُن کی حکمت ِ عملی کامیاب رہی اور پاکستانی ٹیم پہلے ہی دورے میں انگلینڈ کو ایک ٹیسٹ میچ میں شکست دینے میں کامیاب رہی۔ یہ ایک تاریخ ساز کامیابی تھی کیونکہ کرکٹ کی تاریخ میں کوئی ملک بھی پہلے ہی دورے میں انگلینڈ کو ہرانے میں کامیاب نہیںہوا تھا۔ مشہور رسالے وزڈن کے مطابق: ’’کرکٹ کی تاریخ میں آج کا دن ، سترہ اگست، ہمیشہ یاد رہے گاکیونکہ اس دن پاکستانی ٹیم وہ پہلی ٹیم بن گئی جس نے پہلے ہی دورے میں اوول ٹیسٹ (فضل محمود کی طلسمی بالنگ کی بدولت )میں کامیابی حاصل کی۔‘‘ اُس تاریخی دن میں بھی جبکہ میں ایک چھوٹی سی بچی تھی، اوول میں موجود تھی۔ مجھے وہ جوش و جذبہ ابھی تک یاد ہے۔ میچ کے آخری دن انگریزی اخبار وںنے سرخیاں لگائی تھیں: ’’او جونی، کیا تم میچ بچا سکتے ہو؟‘‘۔۔۔ اس سے ایک دن پہلے، کھیل کے چوتھے دن، اوول کی سنہری سہ پہر کو سرسبز گھاس پر بھاگتے ہوئے فضل محمود کی گیند کی رفتار اور سونگ نے تاریخ رقم کرنا شروع کر دی تھی جب کہ لین ہٹن، ڈینس کمپٹن ، گریونی اور پیٹر مے جیسے نامور بلے بازوں کی وکٹیں تنکوںکی طرح بکھر گئیں۔ میچ کے آخری دن انگلینڈ کی آخری امید سپنر جونی وارڈلے تھے جو آخری نمبروں پر کئی اچھی اننگز کھیل چکے تھے۔ تاہم اُس دن کچھ بھی کام نہ آیا ۔ انگلینڈ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ ’’بے بیز‘‘ کے ہاتھوں اُنہیں شکست ہو سکتی ہے(ہم نے صرف سات سال پہلے اُن سے آزادی حاصل کی تھی) اور وہ ریاست جو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا اُن کی کالونی تھی، اب ان سے ٹیسٹ میچ سیریز ڈرا کرنے میں کامیاب ہو گئی۔ اوول ٹیسٹ میں کامیابی کھیل سے زیادہ علامتی اہمیت کی حامل تھی۔ آج اس میچ کی تفصیلات بہت سے لوگوں کے علم میں نہیں ہیں۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اگر اُس میچ میں وزیر محمد کو ڈراپ کر دیا جاتا تو پاکستان وہ میچ نہیں جیت سکتا تھا۔ اس سے پہلے کپتان عبدالحفیظ کاردار وزیر محمد کو ڈراپ کرنا چاہتے تھے لیکن منیجر اور نائب منیجر نے اُن کو قائل کر لیا کہ وزیر محمد کو موقع ضرور دیا جائے۔ اُنھوںنے اُس مشکل وکٹ پر ناقابل ِ شکست 43 رنز سکور کیے۔ اگرچہ اوول کے ہیرو فضل محمود ہی کہلائے تھے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس جیت کا سہرا تمام گیندبازوں، بلے بازوں ، کپتان اور ٹیم انتظامیہ کے سر تھا۔ ان سب کے پیچھے چیئرمین کرکٹ بورڈ کی کاوش کارفرما تھی۔ اصل بات یہ تھی کہ وہ کرکٹ کی سوجھ بوجھ رکھتے تھے۔ صرف سابق کرکٹر ہونا اس کام کے لیے کافی نہیںہے۔ کرکٹ بورڈ کے چیئرمین کے عہدے کے لیے جسمانی اور ذہنی طور پر فٹ اور غیر متعصب شخص کی ضرورت ہے۔ سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو کھیل کو د کی سہولتیں فراہم کر سکے اور بیرونی دوروں پر صرف شاپنگ کرنا اُس کی ترجیحات میں شامل نہ ہو۔ کیا پاکستانی کرکٹ کو کوئی ایسا شخص مل سکتا ہے جو ذاتی پسند کے منبر سے اترنے کے لیے تیار ہو اور کھلاڑیوں کو صرف اہلیت کی بنیادپر منتخب کر سکے؟