ملکہ فوت ہو چکی ہے۔۔۔۔ ملکہ زندہ باد! مری، جس کو پہاڑوںکی ملکہ کہا جاتا تھا، اب مر چکی ہے لیکن تصورات کے محل میں ایک نئی ملکہ تخت نشین ہے۔ سلسلہ روزوشب، جو نت نئے حادثات کا نقش گر بنتا ہے، جاری رہتا ہے۔ اگرچہ ماضی کی پرکیف یادیں اور جادوئی مناظر غائب ہو چکے ہیں، روح کی تاروںکو چھیڑنے والی دھن خاموش ہے اور گہری وادیوں کے سکوت کا آئینہ دھماچوکڑی کے بے ہنگم شور نے چکنا چور کر دیا ہے لیکن، ’’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردش ایام تو‘‘۔۔۔ کی پیروی کرتے ہوئے ان گرمیوں میں ہم اپنا ٹھکانہ ایک مرتبہ پھر اپنے دل کی ملکہ (مری) کے قلب میں بنانے کا عزم صمیم کر چکے ہیں‘ کیونکہ دل کے نہاں خانوں میں جلوہ فگن تخیلات کی شیشہ گری گزرتے ہوئے وقت کی ہنگامہ خیزی اور معروضی حقائق کی سنگینی سے بے نیاز رہتی ہے۔ یہاں ابھی تک فرازِ کوہ سے آتی ہوئی ندی کی موجوں میں عروسِ فطرت اپنا رخِ زیبا دیکھ کر شرماتی اور مسکراتی رہتی ہے؛ چنانچہ یہ بات تعجب خیز نہیں کہ اگرچہ ہم محاورۃً نہیں بلکہ عملاً سات سمندر پار ہیں لیکن مری کی وادیاں، پھول اور درخت چشم تخیل میں ابھی تک تازہ ہیں۔ جب تازہ کھلے ہوئے پھول، بھیگی ہوئی شاخیں، مسکراتے ہوئے گلاب، مہکتی ہوئی چنبیلی، بل کھاتے ہوئے راستے، دھند کا نقاب اوڑھے ہوئے پہاڑی چوٹیاں امریکہ میں نظر آئیں تو ہم بے اختیار کہہ اٹھتے ہیں۔۔۔ ’’یہ منظر بالکل مری جیسا ہے‘‘ مری کا نام سن کر مجھے اکثر وہ ابر آلود دن یاد آ جاتا ہے جب ہم مری میں تھے اور جھاگ اُڑاتی ہوئی ندیاں پہاڑوں سے بل کھاتی ہوئی نکل رہی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ سبز کمخواب پر کسی نے پگھلی ہوئی چاندی سے نقش و نگار بنا دیے ہیں۔ آج مری کی یاد کا موجب ڈاکٹر شاہدہ جعفری کی ایک ای میل ہے‘ جس میں اُنھوں نے کہا ہے۔۔۔’’یہ تم لوگ نیوجرسی کے اکتا دینے والے ماحول میں کیا کر رہے ہو؟ آئو تمھیں مری کی وادیاں صدا دیتی ہیں‘‘۔ شاہدہ ہر سال اپنے بیٹے اور بیٹی سے ملنے امریکہ آتی ہیں۔ وہ یہاں جی بھر کے لطف اندوز ہوتی ہیں، نجی جہاز پر سیر کرتی ہیں، مین ھاٹن میں براڈوے پر شو دیکھتی ہیں لیکن ان کے رویے سے لگتا ہے۔۔۔ ’’جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی‘‘ آخری مرتبہ جب وہ امریکہ آئیں تو اُنھوں نے کہا کہ اس بھری دنیا (امریکہ) میں دل نہیں لگتا، اس سے تو میرا کشمیر پوائنٹ پر چھوٹا سا گھر زیادہ پُرلطف ہے۔ میں اگلی گرمیاں وہیں گزاروں گی‘‘۔ ڈاکٹر شاہدہ جعفری ’’وومن یونیورسٹی کوئٹہ‘‘ کی بانی اور پہلی وائس چانسلر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ پاکستان دنیا کا بہترین ملک ہے۔ اور تو اور، تشدد کے زخموں سے چور چور کوئٹہ ابھی تک اُنہیں صدا دیتا ہے۔ وہ اسی شہر میں پلی بڑھی تھیں اور وہیں اُنھوں نے درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا، جس کی معراج خواتین یونیورسٹی کا قیام تھا۔ اس یونیورسٹی میں صوبے بھر کی ہزاروں نوجوان خواتین نے سائنس اور آرٹس میں ماسٹرز کیا ہے۔ ان میں سے بہت سی آج پیشہ ور فرائض سرانجام دے رہی ہیں۔ وہ تعلیم یافتہ بیویاں اور مائیں ہیں۔ میں نے ان سے گزشتہ دنوں بولان میڈیکل کالج کی بم دھماکے اور فائرنگ سے ہلاک ہونے والی 14 طالبات اور ٹیچرز کے بارے میں پوچھا تو اُنھوں نے کہا: ’’جب یہ واقعہ پیش آیا تو مجھے ایسا لگا جیسے دہشت گردوں نے میرے پھولوں کو مسل دیا ہو۔ میری جنت اجڑ گئی ہو۔ میرا بلوچستان ایسا نہیں تھا‘‘۔ جب وہ وائس چانسلر تھیں تو اُنھوں نے کیمپس کی سکیورٹی پر خصوصی توجہ دی تھی۔ کیمپس کے اندر ماحول خاصا نرم اور گھٹن سے پاک تھا۔ اُن کی کوشش تھی کہ یہاں تعلیم کا معیار بہتر بنایا جائے اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والی طالبات کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ ان کے جاندار رویّے کی بدولت کسی میں کیمپس یا کوئٹہ شہر میں طالبات سے شرارت کرنے کی جرات نہ تھی۔ اگرچہ وہ نسلی طور پر بلوچ نہیں تھیں لیکن مقامی افراد اُنہیں نہایت قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ ان کے شکر گزار تھے کہ وہ ان کی بیٹیوںکو زیور تعلیم سے آراستہ کر رہی ہیں۔ اُنہیں تعلیمی سرگرمیوں میں اُس وقت کے چانسلر، گورنر بلوچستان، کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ کوئٹہ یونیورسٹی کا نام سردار بہادر خان، جو ایک مشہور سیاست دان اور ایوب خان کے بھائی تھے، کے نام پر رکھا گیا۔ اب اس میں ایم فل کی کلاسز بھی شروع ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹر شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کی بہت سی طالبات وہاں پڑھا رہی ہیں جبکہ کچھ بیرون ملک اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہی ہیں، کچھ نے پبلک سروس کمیشن کا امتحان پاس کر کے اعلیٰ ملازمتیں حاصل کر لی ہیں۔ وہ صوبے کے مختلف کالجوں میں پڑھا رہی ہیں۔ ڈاکٹر صاحبہ کا کہنا ہے کہ نوجوان نسل اپنے حالات سے خائف ہوئے بغیر آگے بڑھ رہی ہے۔ وہ غیرمتزلزل عزم رکھتی اور ناامیدی کو اپنے پاس نہیں آنے دیتی۔ جبکہ دیگر ممالک میں ہونے والا ایک واقعہ وہاں کی زندگی کو مفلوج کر دیتا ہے۔بہرحال وہ مجھ سے مکالمہ کرتے ہوئے ماضی کی یادوں کی روشنی میں مستقبل کی جھلک دیکھتی اور دکھاتی رہتی ہیں۔ ڈاکٹر شاہدہ نے مجھے بتایا کہ ان کے آبائواجداد نے 1924ء میں ایک انگریز کرنل سے کشمیر پوائنٹ پر گورنر ہائوس کے نزدیک تیس کنال زمین خریدی تھی۔ ہر سال وہ موسم گرما میں اہل خانہ، ملازمین، جرمن ڈاگ اور سب کے کھانے پینے کی اشیا لے کر ملکہ کوہسار کے دامن میں آ جاتے ہیں۔ سارا خاندان وہاں گورنر ہائوس کے نزدیک چہل قدمی کر کے یا ’’پنج پانڈو‘‘ کی سیر کر کے بہت خوش ہوتا ہے۔ غروب ہوتے ہوئے ارغوانی سورج کی درختوں کی ٹہنیوں کے درمیان سے چھن چھن کر آنے والی کرنوں سے بننے والے طویل سایوں کے ساتھ مال پر چلنا اور کریم‘ سینڈوچ اور چپس کھانا بہت اچھا لگتا ہے۔ ریستورانوں میں بجنے والی موسیقی بہت دلفریب ہوتی ہے، خاص طور پر ہفتے کی شام کی جلوہ گری کسی اور ہی دنیا میں لے جاتی ہے۔ شاہدہ جعفری کا کہنا ہے کہ پرانے مری کے اب بہت کم گھر باقی رہ گئے ہیں۔ تقسیم سے پہلے مری میں بھارتی فلم انڈسٹری کا ایک بڑا نام پرتھوی راج کپور رہائش پذیر تھا۔ اس کا بنگلہ ڈاکٹر شاہد ہ کے گھر سے چند گز کے فاصلے پر تھا۔ پرتھوی راج کپور اکثر اپنی بیوی کو ڈاکٹر شاہدہ کے دادا، ڈاکٹر محمد حسین کے پاس علاج کے لیے لاتا تھا۔ ان کے دادا نے مری کے نزدیک ٹی بی کے مریضوںکے علاج کے لیے Samli Sanitorium قائم کیا تھا۔ سید مراتب علی کا خاندان گھوڑا گلی میں پورا ایک پہاڑ اپنی ملکیت میں رکھتا تھا۔ آج کل یہ سیدہ عابدہ حسین اور فخر امام کا گھر ہے۔ پنجاب کے سابق گورنر میاں امین الدین کا بھی کشمیر پوائنٹ پر گھر تھا۔ ڈاکٹر شاہدہ جعفری کو یاد ہے کہ ’’آنٹی امین الدین‘‘ بہت باوقار اور سلیقہ مند خاتون تھیں۔ اُن کے گھر پر انگریزی آداب کے مطابق کھانا اور کشمیری چائے پیش کی جاتی تھی۔ ان کی وفات کے بعد وہ گھر فروخت ہو گیا۔ آج کل مری میں سب سے بڑا گھر وزیر اعظم کی ذاتی رہائش گاہ ہے۔ اس کا بہت بڑا گیٹ ہے اور اس کے باہر پیتل کا شیر ایستادہ ہے۔ مری میں گزشتہ پندرہ برسوں سے مزید تعمیرات پر پابندی کے باوجود بہت سی بلندوبالا عمارتوں نے اس کی خوبصورتی کو گہنا دیا ہے۔ شاہدہ نے مجھے بتایا کہ ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں پرندوں کی سات سو سے زائد اقسام دریافت ہو چکی ہیں۔ یہ سلسلہ’’بڑا کوہ‘‘ مری سے شروع ہوتا ہے۔ سارے یورپ میں مجموعی طور پر پرندوںکی اتنی اقسام نہیں پائی جاتیں۔ یہاں دیودار، صنوبر، کیکر سمیت بہت سے درختوں اور جھاڑیوں کی متعدد اقسام پائی جاتی ہیں۔ ہم یہ کہنے سے کیوں شرماتے ہیں ’’چاند میری زمیں، پھول میرا وطن‘‘۔