امن و امان کی خراب صورت ِ حال کے باوجود کراچی میں تعمیر و ترقی کا عمل جاری رہتا ہے۔ اس میں لا تعداد دمکتے ہوئے فلائی اوورز اور کشادہ سڑکیں ہیںجبکہ کوسٹل ھائی وے پر سفر کرنا رومانوی دنیا میں لے جاتا ہے۔ اس شہر میں ہوائوں کے جھونکے کبھی نہیں تھکتے اور نہ ہی سورج آگ برسانے پر آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ جب اس شہر کا موسم اتنا اچھا ہے تو پھر لوگ اپنا سامان باندھ کر دوبئی کا، جہاں کا موسم نہایت شدید ہے اور سورج کا پارا بات بات پر چڑھ جاتا ہے، رخ کیوں کر رہے ہیں؟معاشی انحطاط کے علاوہ اس کی ایک بڑی وجہ وہ سیاسی سرکس ہے جس میں بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والے شعبدہ بازوں نے نہ صرف کراچی، بلکہ پورے پاکستان کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے جب میں کراچی آئی تو جن افراد سے بھی میری ملاقات ہوئی، ان سب کی اپنی ایک رائے تھی۔۔۔ افسوس، سب کی رائے منفی تھی۔ سب نے مختلف پیرائے میں اس شہرکے حکمران طبقے کو مورد ِ الزام ٹھہرایا کہ اُنھوںنے پاکستان کے اس سب سے بڑے شہر کو جہنم زار میں تبدیل کر دیا ہے۔ کسی نے کہا۔۔۔’’کیا یہ باشعور لوگ ہیں جو احمقوں کی طرح بچگانہ کھیلوں میں مصروف ہیں؟ ایک دن وہ ایک دوسرے پر سنگین ترین الزامات کی بوچھاڑ کرتے ہیں تو دوسرے دن ان کے درمیان محبت کا زمزمہ بہنے لگتا ہے‘‘ ۔ زیادہ تر کی رائے تھی کہ اب ہمارے پاس اپنے رہنمائوں کے بنائے ہوئے شیخ چلی جیسے منصوبوں کا وقت نہیں رہاہے ۔ بیتنے والا ہر لمحہ عمر عزیز پرنقب لگارہا ہے اور مایوسی کے بادل گہرے ہوتے جارہے ہیں اور اذیت کا یہ خونی دریا بے کنار دکھائی دیتا ہے۔ آج پاکستانیوں کا ان کے اپنے وطن میں بھی کوئی پرسان ِ حال نہیںہے۔ وہ نہایت بے بسی کے عالم میں دیکھ رہے ہیں کہ ان کے نام نہاد رہنما ان کے ملک کے ساتھ کیا کررہے ہیں۔ ایم کیو ایم کے ایک حامی نے کلفٹن پر اپنی تاریک دکان پر بیٹھ کر افسردگی کے عالم میں سر ہلاتے ہوئے کہا ۔۔۔’’ ہم یکے بعد دیگر ے مختلف بحرانوں کا شکار ہوتے رہیںگے‘‘۔ اس کی دکان پر لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے اندھیرا تھا جبکہ ارد گرد کے کچھ دکاندار یو پی ایس یا چھوٹے جنریٹرز کی مدد سے اپنے دکانیں روشن کرنے کے قابل تھے۔ اس نے کہا۔۔۔’’ میں بڑی مشکل سے اپنے بچوں کے لیے دووقت کی روٹی کماپاتاہوں، میں اس کا ( شور مچانے والے پرانے جنریٹرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا) خرچہ برداشت نہیںکر سکتا۔ دوسری طرف ہمارے حکمران اپنے آرام دہ محلوں میں انتہائی پر تعیش زندگی بسر کررہے ہیں۔ ان لٹیروںنے ہمارا مستقبل چرا لیا ہے۔‘‘ میرے ساتھ کار ڈرائیور نے، فرض کرلیں اس کانام رضاخان تھا، بتایا کہ وہ کراچی کی بنارس کالونی میں رہتا ہے۔ ہم پشتون آباد ی کے گڑھ سہراب گوٹھ سے گزررہے تھے۔ رضا نے ایک بس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ بس کراچی سے سرحد تک جاتی ہے۔ کراچی میں آباد پشتون اس میں سفرکرتے ہیں ۔ وہ خیبر پختونخوا میں موجود اپنے اہل ِ خانہ سے ملنے جاتے ہیں۔ اس بس کاکرایہ ایک ہزار روپے فی سواری تھا اور یہ بیس گھنٹے میں اپنی منرل پر پہنچ جاتی تھی۔ رضا خان نے، جیسے کہ اُس نے میری سوچ پڑھ لی ہو، کہا۔۔۔ ’’بس مالکان اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ بس میں منشیات اور اسلحے کے سمگلر سفر نہ کرنے پائیں۔‘‘ جب میں بتانے لگی کہ میں بنارس کالونی بھی گئی تھی اور وہاں میری ملاقات اے این پی کے ایک مقامی رہنما سے ہوئی تو میرے بھتیجے نے مجھے دبے لفظوں میں مگر سخت لہجے میں ٹوکتے ہوئے کہا کہ میں محتاط رہوں۔اگلے دن میرے بھتیجے نے مجھے ٹیکسٹ پیغام بھیجا کہ وہ جب دوبارہ اس جگہ سے گزرا تو اس سے گن پوائنٹ پر موبائل فونز اور پرس چھین لیا گیا۔ بہرحال مجھے رضا خان کا رویہ اچھا لگاتھا(یقینا میرے بھتیجے کے لٹنے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیںتھا)۔ وہ کراچی میں پیدا ہوا تھا، اسی شہر کی فضائوں میں جوان ہوا تھا ۔ اس کی باتوںسے یہی تاثر ملتا تھا کہ وہ ’’کراچی والا ‘‘ پہلے اور پشتون بعد میںہے۔ پھر وہ ہمیں سمندر کی طرف لے گیااور ہمیں وہاں ہونے والی زبردست ترقی دکھائی۔اس نے مجھے بتایا کہ ڈی ایچ اے نے بہت اعلیٰ معیار کے منصوبے بنائے تھے ۔ خاص طور پر کریک کے اردگرد مناظر قابل ِ دید تھے۔۔۔ دلکش سبزہ زار، گالف کے میدان، لہلاتے ہوئے پام کے درخت اور ان کے درمیان واٹروے میں بہتا ہوا پانی، جبکہ دیدہ زیب خواتین اور اچھلتے کودتے بچے اس ماحول سے لطف اندوزہورہے تھے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میں ایک مرتبہ تو بھول گئی کہ کہا جاتا ہے کہ کراچی بیروت بننے والا ہے۔ یہ سب کچھ دیکھ کر مجھے وہ شاندار casino یاد آیا جو ذوالفقار علی بھٹو نے کلفٹن پر بنوایا تھا۔ جب میں وہاں جنرل ضیا کے تاریک دور میں گئی تو اس شاندار جگہ پر مکڑی کے جالے لگے ہوئے تھے، تاہم بیش قیمت لکڑی کے بنے ہوئے فرنیچر اور آرائشی پردوں اور برتنوں کی چمک ابھی ماند نہیں پڑی تھی۔ افسوس، پی پی پی حکومت آئی اورچلی گئی لیکن اس casino کی زندگی واپس نہ لوٹائی جا سکی۔ ہم تاریخ سے کبھی کچھ نہ سیکھنے والی قوم ہیں، بلکہ ہم اب تو کسی چیز کو تاریخ کے پیرائے میں ڈھلنے ہی نہیں دیتے ، کیونکہ ایک حکومت جو کچھ بناتی ہے ، دوسری حکومت اسے گرا دیتی ہے۔ ایم کیو ایم سے تعلق رکھنے والے جواں سال ناظم سید مصطفی کمال نے مشرف دور میں اس شہر کو جو آب دینے کی کوشش کی تھی، اب وہ پی پی پی اور ایم کیو ایم کے درمیان کشمکش کی نذرہورہی ہے۔ جب زرداری حکومت قائم ہوئی تو کراچی کے واٹراور سیوریج بورڈ میں آٹھ ہزار کے قریب اسامیاں خالی تھیں؛ چنانچہ بعض ’’نامعلوم‘‘ وجوہات کی بنا پر اسے ناظم کے اختیار سے نکال کر پی پی پی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر آغا سراج درانی کے حوالے کر دیا گیا۔ میرے پشتون ڈرائیور رضا خان نے سید مصطفی کما ل کی تعریف کی مگر ساتھ یہ بھی کہا۔۔۔’’ایم کیو ایم نے ان علاقوں میں ترقیاتی کام کیے جہاںاس کے اپنے لوگوں کو فائدہ پہنچتا۔ ‘‘ کراچی میں آکر اس بات پر حیرت ہوتی ہے کہ یہاں زندگی کے تقریباً ہر شعبے میں نسل پرستی کے جذبات پائے جاتے ہیں۔ رضا خان نے کہا کہ پی پی پی کی موجودہ حکومت بگڑے ہوئے معاملات کو درست کرنے کی بجائے ان کو چھپانے کے لیے صرف میک اپ کررہی ہے۔ اپنی سابقہ حکومت کے آخری ایام میں اس پر جنون سوار ہوگیا کہ جو چیز بھی دکھائی دے، اسے بھٹو یا محترمہ کے نام سے منسوب کر دیا جائے۔۔۔ جیسا کہ چکلالہ ائیرپورٹ راولپنڈی۔ ائیرپورٹ کی حالت بہتر نہیں بنائی، بس اسے نام دے دیا۔ درحقیقت کراچی کے مسائل کی وجہ یہ ہے کہ یہاں عوامی بہبود کی بجائے سیاسی نمبر مفاد کا کھیل کھیلاجاتا رہا ہے۔ جب پی پی پی اور ایم کیو ایم شراکت ِ اقتدار میں تھیں تو دراصل اپنے لیے زیادہ سے زیادہ حصہ لینے کی کوشش میں تھیں۔ اُس وقت مصطفی کمال نے دعویٰ کیا کہ اُنھوںنے کراچی کو دوبئی بنا دیا ہے۔ انھوںنے ایک انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا۔۔۔’’ پانچ سال میں ایساہوسکتا ہے۔ میں اس شہر کی کایا پلٹ سکتا ہوں۔‘‘47 منزلہ آئی ٹی ٹاور پر، جس میں دس ہزار کال سنٹرز ہونے تھے، کام شروع ہو چکا تھا ۔ شہر میں چھ اوور ہیڈ اور انڈر پاس تعمیر ہو چکے تھے اور ان کی وجہ سے شہر کے گنجان آباد حصوں میں ٹریفک کے دبائو میں کمی آنا شروع ہو چکی تھی۔یہ ترقی اپنی جگہ لیکن ٹائمز میگزین کے مطابق ۔۔۔’’ شہر کی نصف سے زیادہ آبادی کی رہائش ایسی آبادیوں میں ہے جہاں زندگی کی سہولیات ناکافی ہیں، بجلی کی کمی ہے اور شہر کو درکار پانی میں سے صرف نصف مقدار ہی میسر آتی ہے۔ کئی عشروںسے جاری جرائم اور سیاسی بنیادوں پر ہونے والے تشدد اور دہشت گردی نے شہر کو لہو رنگ کر دیا ہے۔‘‘ 2006ء میں کئی ارب روپوں کی لاگت سے بننے والا واٹر پراجیکٹ سیاسی مداخلت کی وجہ سے رک گیا۔ خلیج ٹائمز کی رپورٹ کے مطابق شہر میں ہونے والے ترقیاتی کاموں میں سیاسی سٹیک ہولڈرز کا حصہ نکالنا پڑتا ہے۔ مصطفی کمال نے ٹائمز کو بتایا ۔۔۔’’اس شہر میں بہت سا پوٹینشیل موجود ہے۔ یہ صرف ایک شہر نہیں، یہ پاکستان کا مستقبل ہے۔ اگر کراچی ترقی کرے گا تو پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا۔‘‘ تاہم کراچی کو کنٹرول کرنے کے لیے لڑی جانے والی وحشیانہ لڑائی ختم ہونے کانام نہیںلے رہی تو پھر کیسا مستقبل ، کس کا مستقبل؟