پاکستانی خواب

اس ہفتے صدر اوباما نے کانگرس اور اپنے ہم وطن امریکیوں سے پانچواں ''سٹیٹ آف دی یونین ‘‘ خطاب کیا۔ جب اُنھوںنے پہلا ''سٹیٹ آف دی یونین ‘‘خطاب کیا تھا اُن کے سامعین ، جنھوںنے اُنہیں ٹی وی پر سنا، کی تعداد پچپن ملین کے لگ بھگ تھی جبکہ اس مرتبہ صرف 33 ملین امریکیوںنے ان کو سنا۔ اس طرح ان کے امریکی سامعین کی تعداد میں خاطرخواہ کمی واقع ہوچکی تھی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ آج عام امریکیوں کی زندگی مشکلات کا شکار ہے جبکہ بیروزگاری میں ہر سال اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ جب اوباما سیاسی منظر نامے پر ابھرے تو اُنھوں نے ''امریکی ڈریم ‘‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ صرف امریکہ میں ہی ایک فیکٹری ملازم کی بیٹی ''جنرل الیکٹرک‘‘ جیسی بڑی فرم کی سی ای او بن سکتی ہے، یا کسی ہوٹل کے ملازم کا بیٹا سپیکر آف دی ہائوس، یا کسی ''سنگل والدہ ‘‘ کا بیٹا امریکہ کا صدر بن سکتا ہے۔ 
پاکستان میں نوجوان لوگ بہت سے خواب سجائے ارد گرد دیکھتے ہیں۔ میںنے ایک انگریزی اخبار میں ''پی این سی اے‘‘ (پاکستان نیشنل کالج آف آرٹس) کے بائیس طلبہ و طالبات کی، جو سری لنکا کے دورے پر تھے، تصاویر دیکھیں۔ ان کے چہرے جوش ، ولولے اور مسرت سے جگمگا رہے تھے۔ ہر چہرے کے خدوخال سے خوشی ہویدا تھی، ہر آنکھ اپنے اندر خواب سجائے ہوئے تھی۔ ان کے چہرے بتاتے تھے کہ ان کو زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے مواقع درکار ہیں۔ انہیں ایسا ماحول ملنا چاہیے کہ چاہے ان کے والدین کے پاس وسائل ہوں یا نہ ہوں، یہ لوگ آگے بڑھ سکیں۔ سب سے اچھی بات یہ تھی کہ نوجوان لڑکیوں کے، جن کا گروپ فوٹو سری لنکا میں پاکستانی سفارت کار کے ساتھ تھا، چہرے پر بھی اعتماد کی جھلک ملتی تھی۔ اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ ان کا تعلق بہت ہی پرسکون معاشرے سے ہے، تاہم افسوس، ایسا نہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ریاست ِ پاکستان بہت سے مسائل کی شکار ہے۔ یہاں نوجوان طلبہ کو، جب وہ عملی زندگی میں قدم رکھتے ہیں، اقربا پروری اور من پسند افراد کو نوازنے کی پالیسی کا احساس ڈسنے لگتا ہے۔ ایک طالب ِ علم نے مجھے سکھر سے ای میل بھیجی اور کہا کہ یہاں تعلیمی اداروں میں سیاسی مداخلت کا عذاب تعلیمی سرگرمیوں کے ماحول کو شدید نقصان پہنچا رہا ہے۔ اس نے بتایا کہ وہ سکھر آئی بی اے کا طالب علم ہے اور اس کے کالج نے ہر طالب ِ علم کو حکم دیا کہ وہ اتوار کو حاضر ہوں تاکہ وزیر ِ اعلیٰ قائم علی شاہ کا استقبال کیا جاسکے۔ اس نے بہت تلخی سے لکھا۔۔۔''وہ ہمارے لیے چھٹی کا دن تھا لیکن ہمیں حاضر ہونے کے لیے مجبو رکیا گیا او ر ہم گھنٹوں قطار میں کھڑے رہے تاکہ وزیر ِ اعلیٰ تشریف لائیں اور ہم ان کے لیے تالیاں بجائیں۔ آخر کار وہ شام سات بجے آئے اور ہم خالی پیٹ ان کے لیے تالیاں بجانے لگے۔ یہ ایک آمرانہ اقدام تھا کیونکہ اتوار کی حاضری لازمی قرار دی گئی تھی۔ جوطلبہ نہیںآئے تھے، ان کی غیر حاضری لگائی گئی تھی ۔ اسکے علاوہ طلبہ کو مجبور کیا گیا کہ وہ پی پی پی کے حق میں نعرے لگائیں۔ گویا ایک تعلیمی ا دارے میں یہ تاثر دیا گیا جیسے سب طلبہ اس سیاسی جماعت کے کارکن ہوں۔ ‘‘
ایک صوبے کا یہ حال ہے اور دوسرے صوبے، خیبر پختونخوا، میں تنگ نظر ی اور دقیانوسی سوچ نے ڈیرے جمائے ہوئے ہیں۔ اخباری رپوٹس کے مطابق صو بائی حکومت کی مداخلت کی وجہ سے ملالہ یوسفزئی کی کتاب ''I am Malala‘‘ کی تقریب ِ رونمائی پشاور یونیورسٹی میں منعقد کرنے کی اجازت نہ ملی ۔ اس کے لیے کھانے کا اہتمام ''بی کے ای ایف‘‘ (باچا خان ایجوکیشن فائونڈیشن ) اور کچھ مقامی تنظیموں کی طرف سے کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر خادم حسین نے، جو کہ ''بی کے ای ایف ‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں، پریس کو بتایا ۔۔۔''ملالہ کی کتاب کی تقریب کو روکنا آزادی ِ اظہار پر پابندی کے مترادف ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ تمام انتظامات مکمل تھے لیکن عین وقت پر پولیس نے اُنہیں بتایا کہ وہاں ''سکیورٹی کے مسائل ہیں‘‘۔ سرفراز خان نے، جو ''ایریا سٹڈی سنٹر ‘‘ کے ڈائریکٹر ہیں‘ کہاکہ اُنہیں بہت سے وزراء، یونیورسٹی کے وی سی اور رجسٹرار نے اس پروگرام کے انعقاد سے باز رہنے کے لیے کہا تھا۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق لنچ کا اہتمام کرنے والوں سے عنایت اﷲ خاں نے، جو جماعت ِ اسلامی سے تعلق رکھنے والے صوبائی وزیر ہیں، اور شاہ فرمان نے، جو پی ٹی آئی سے تعلق رکھنے والے وزیر ِ اطلاعات ہیں، رابطہ کیا اور پھر یونیورسٹی انتظامیہ نے تقریب روکنے کا حکم دے دیا۔ 
اس پر کس کو ذمہ دار ٹھہرایا جائے۔۔۔ کیا مقامی حکومت یا طالبان؟یا پھر حکومت اتنی سہمی ہوئی ہے کہ وہ طالبان کی منشا کے خلاف کچھ بھی کرنے کے لیے تیار نہیں ؟ہمارے عظیم ہیرو عمران خان کہاں ہیں ؟ان کو تو پاکستان کے بہت سے نوجوانوں نے تبدیلی کے لیے ووٹ دیا تھا۔ اگر یہی اُس تبدیلی کی جھلک ہے تو پھر لوگوں کو کچھ اور سوچنا چاہیے۔ عمران گزشتہ ایک عشرے سے کہہ رہے تھے کہ وہ پاکستان میں انقلابی تبدیلی لائیںگے۔ اس میںکوئی شک نہیںکہ وہ ایک کھرے اور ایماندار انسان سمجھے جاتے ہیں لیکن انسانی کردار میں ہمت بھی اہمیت رکھتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کی جماعت کے اس ایک فیصلے نے دنیا بھر میں ان کے مداحوں کے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچائی ہے۔ حقیقت یہ تھی کہ نوجوان لوگ روایتی رہنمائوں، جیسے نواز شریف اور زرداری، سے مایوس ہو کر عمران کے ساتھ چلنے کو تیار تھے اور سیاسی مبصرین بھی بتاتے تھے کہ ان کے زیادہ تر ووٹرز نوجوان لوگ ہیں۔ یہ تبدیلی کا اشارہ تھا لیکن ملالہ کی کتاب کی تقریب کوروک کر پی ٹی آئی کی حکومت نے جماعت ِ اسلامی کے تعاون سے کیسا اشارہ دیا ہے؟
ملالہ یوسفزئی ایک علامتی حیثیت اختیار کرچکی ہے۔ آپ اس بات کو پسند کریں یا نہ کریں، دنیا اس کی بات سنتی ہے اورا س کے حوالے سے کیے جانے والے پراپیگنڈے سے بھی آگا ہ ہے۔ کیا ہمارے سیاست دان اس بات کا احساس رکھتے ہیں کہ جب ہم ملالہ اور شکیل آفریدی جیسے افراد کو مجرم قرار دیتے ہیں تو دنیا ہمیں کس صف میں کھڑا دیکھتی ہے ؟کیا پی ٹی آئی اور جماعت ِ اسلامی یہ فیصلہ کرچکے ہیں کہ پاکستان کو آخر کار عالمی تنہائی سے ہی دوچار کرنا ہے اور کیاوہ واقعی یہی سمجھتے ہیںکہ ایسا کرتے ہی یہاں تیل کے کنوئیں جاری ہوجائیں گے یا آسمان سے دولت کی بارش شروع ہوجائے گی؟ کیا وہ خودفریبی کی دنیا سے باہر آنے کے لیے ابھی بھی تیار نہیں؟پاکستانی نوجوانوں کی آنکھوںمیں اچھی زندگی کے خواب ہیں۔ اُنہیں ان خوابوںکی تعبیر درکار ہے۔ انہیں دقیانوسی سوچ کے سمندر میںمت دھکیلیں ، ورنہ بہت دیر ہوجائے گی۔۔۔ اور ہمارے پاس وقت ویسے ہی بہت کم ہے۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں