ذرا تصور کریں کہ ایک سنجیدہ دکھائی دینے والی غیرملکی تجزیہ کار مس کرسٹن فیئر (Ms Christine Fair) نے اپنے ایک علمی اور ادبی مضمون میں ''بکواس پرچم‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ اس مضمون کا عنوان ''پاکستانی دفاعی افسروں کے دس پسندیدہ فکشن‘‘ تھا۔ واشنگٹن سے تعلق رکھنے والی مس فیئر‘ جو پاکستان کے معاملات پر نظر رکھنے والی تجزیہ کار ہیں، اکثر پاکستان کا دورہ کرتی رہتی ہیں۔ گزشتہ دورے کے موقعے پر انہوں نے افغان امور کے ماہرین سے ملاقات کی جن میں احمد رشید بھی شامل ہیں (جنہوں نے ایک کتاب کے مواد کے سلسلے میں ان کی مدد کی تھی) اسلام آباد یونیورسٹی کے ایک طالب علم تیمور خان لکھتے ہیں کہ ان ملاقاتوں سے مس فیئر کو پاکستان کے اُن حالات سے آگاہی ہوئی جو شاید واشنگٹن سے انہیں دکھائی نہ دیتے۔
کرسٹن فیئر اپنے مضمون کا آغاز اس جملے سے کرتی ہیں: ''حال ہی میں پاکستان کے دفاعی افسر واشنگٹن آئے اور وہی گھسٹے پٹے جملے بول کر امریکیوں کو خوش کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیںکچھ مال وغیر ہ مل جائے‘‘۔ ایک غیرجانبدار قاری یقیناً یہی سمجھے گا کہ مس فیئر نے پاکستانی افسروںکی توہین کی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے دفاعی ادارے امریکہ سے بھاری امداد وصول کرتے رہے ہیں، اس کے علاوہ ملکی ریونیو کا تقریباً 80 فیصد بھی اسی ادارے پر خرچ ہوتا ہے۔ ملک میں یہ چیز عام دیکھنے کو ملتی ہے کہ جنرل، ایڈمرل اور ائیر مارشل جیسے اعلیٰ فوجی افسر نوابوں کی طرح نہایت پُرتعیش زندگی بسر کرتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کے خلاف بدعنوانی کے شواہد بھی ملتے ہیں اور عدالت میں کیس بھی دائرکیے جاتے ہیں لیکن قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ پاتے۔ ان کے خلاف الزامات کی تفصیل بھی عوام کی نظروں سے اوجھل رکھی جاتی ہے۔ ایسا تاثر ملتا ہے کہ ہماری طاقتور اسٹیبلشمنٹ ہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے۔
ہو سکتا ہے، پاکستان میں اس موضو ع پر لب کشائی کی جسارت نہ کی جائے لیکن کوئی غیرملکی مبصرین کی زبان بند کر سکتا ہے؟ دوسرے ناقدین کی طرح کرسٹن فئیر بھی اس موضوع پر قلم اٹھاتی ہیں۔ وہ''Strategy Page‘‘ کے لیے لکھتی ہیں جس میں دنیا بھر کے دفاعی اداروں کے بارے میں مضامین اور خبریں شائع ہوتی ہیں۔ اس میں 22 فروری کو پاکستان کے دفاعی اداروں کے حوالے سے چونکا دینے والی رپورٹ شائع کی گئی جس کا عنوان تھا ''Counter-Terrorism: Honor Among thieves‘‘۔ اس میں پاکستان کے بارے میں کافی تیکھی باتیں لکھی گئی ہیں۔ اس رپورٹ کا آغاز اس جملے سے ہوتا ہے: ''جنوبی ایشیا خاص طور پر بھارت اور پاکستان میں حکومتی سطح پر ہونی والی بدعنوانی ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے۔ بدعنوانی کی اس گنگا میں دفاعی ادارے بھی ہاتھ دھوتے ہیں۔ گزشتہ صد ی کے آخر تک ان طاقتور اداروں کے پوشیدہ معاملات منظرعام پر نہیں آتے تھے کیونکہ بدعنوان افسر اپنے خلاف کھلنے والی زبان فوراً خاموش کرا دیتے تھے۔ اگرچہ ان اداروں کی بدعنوانی کے بارے میں مواد شائع کرنا یا ان کا کھوج لگانے کی کوشش کرنا ابھی بھی مہنگا پڑ سکتا ہے، لیکن گزشتہ ایک عشرے سے کچھ جرأت مند صحافی تمام تر خطرات کو دعوت دیتے ہوئے مواد اکٹھا کر کے شائع کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ صحافیوں کی جرأت کے علاوہ عوام میں ان اداروںکی غیرضروری تقدیس کے حوالے سے تبدیل ہوتے جذبات بھی ہیں۔ بعض اوقات تحقیقات کے نتیجے میں حاصل ہونے والا مواد گمنام پتے سے انٹرنیٹ پر ڈال دیا جاتا ہے‘‘۔ اس رپورٹ میں ایک گمنام پاکستانی رپورٹر کا ذکر ہے جس نے بہت دلیری سے کچھ خفیہ معلومات افشا کیں۔ اس رپورٹر نے دہشت گردی کے حوالے سے پاکستان کے دفاعی افسروں کو ملنے والی امریکی امداد کا کھوج لگایا۔
رپورٹ کے مطابق: ''امریکہ نے پاکستانی حکومت کی طرف سے یہ رقم درست استعمال نہ کرنے پر سخت نالاں ہو کر سینکڑوں ملین ڈالر کی امداد معطل کر دی۔ اس امداد کو اس وقت بحال کیاگیا جب پاکستان نے وعدہ کیاکہ اب اس رقم کا درست استعمال کیا جائے گا اور اسے 'چوری‘ ہونے سے بھی بچایا جائے گا۔ پاکستانی رپورٹرکے مطابق اس رقم میں کئی ملین ڈالر افسروں کی تفریح اور تحائف کی خریداری میں خرچ ہو جاتے ہیں، لیکن عوام کو ان اخراجات کے بارے میں کچھ نہیں بتایا جاتا۔ بعض مثالیں ایسی بھی ہیں کہ دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ملنے والی رقم سے کسی افسرکے بھتیجے یا بھتیجی کی شادی کے لیے تحائف خریدے گئے جو ''مال مفت، دل بے رحم‘‘ کی کہاوت کا عملی مظاہرہ لگتا ہے‘‘۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستانی دفاعی اداروںکے افسروں کو غیرملکی کس نظر سے دیکھتے ہیں۔
اسی پس منظر میں وزیر داخلہ چودھری نثارعلی خان بھی ایکشن میں نظر آئے۔ پریس پورٹ کے مطابق اُنہوں نے ''نیشنل انٹرنل سکیورٹی پالیسی‘‘ کے مسودے میں ملک میں ہونے والی دہشت گردی کی کچھ تفصیل بیان کی ہے: ''2001ء سے 2013ء تک پاکستان میں دہشت گردی کے تیرہ ہزار سات سو اکیس واقعات پیش آئے، یہ تعداد عراق میں پیش آنے والے واقعات سے کچھ ہی کم ہے۔ 2001ء سے 2005ء تک پاکستان بھر میں دہشت گردی کے پانچ سو تئیس واقعات ہوئے لیکن 2007ء سے نومبر 2013ء تک ان واقعات کی تعداد تیرہ ہزار تک پہنچ گئی۔ اسی طرح 2001ء سے 2007ء تک ملک میں صرف پندرہ خود کش حملے ہوئے لیکن 2007ء سے گزشتہ سال نومبر تک ان کی تعداد تین سو اٹھاون تک پہنچ گئی۔ ان حملوں نے دس سال کے قلیل عرصے میں ملکی معیشت کو 78 بلین ڈالرکا نقصان پہنچایا‘‘۔ اس صورتِ حال نے پاکستان کو عراق کے بعد دنیا کا سب سے زیادہ دہشت گردی کا شکار ملک بنا دیا۔ وزیر داخلہ کے مطابق دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے مختلف ادارے بنانے جانے کی ضرورت ہے جن پر اخراجات کا تخمینہ اکیس بلین روپے لگایا گیا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پاکستان کو ایک مرتبہ پھر امریکہ کے سامنے دستِ سوال درازکرنا پڑے گا۔
اس مقام پر ہمیں ایک بار پھر مس کرسٹن فیئر کی رپورٹ اور اس میں ایک گمنام پاکستانی رپورٹر کے حوالے پر غورکرنے کی ضرورت ہے۔۔۔دہشت گردی جیسے اہم ترین مسئلے کے لیے ملنے والی رقم کو اس وقت شادی بیاہ اور تحائف کی خریدار ی پر خرچ کرنا جب پاکستانی لوگ بم دھماکوں میں ہلاک ہو رہے ہوں، کس قدر سفاکی کے زمرے میں آتا ہے! چودھری صاحب مزید رقم کی بات کر رہے ہیں، لیکن کیا ایسا کرنے سے پہلے ہمیں اپنے گھر کو درست نہیں کرنا چاہیے جبکہ ہماری معیشت پہلے ہی شدید دبائو میں ہے۔ کہیں پھر''شادی بیاہ‘‘ کے امکانات نہ نکل آئیں۔ دوسری حیران کن بات یہ ہے کہ مذاکرات کی ناکامی کے بعد کس چیز نے وزارت داخلہ کو اتنا فعال بنا دیا حالانکہ ایک عشرے سے دہشت گرد پاکستانیوںکے خون سے ہولی کھیل رہے ہیں۔ کیا یہ انکشاف ان پر راتوں رات ہوا ہے کہ اسلام آباد انتہائی خطرے کی زد میں ہے؟ کیا یہ خطرہ راتوں رات نازل ہوا؟ بہرحال، اگلے دن چودھری صاحب نے اس کی تردید کر دی۔ کیا خطرہ ٹل گیا تھا؟ عوام کو اس طرح کنفیوژن میں مبتلا رکھنے کی پالیسی کب تک جاری رہے گی؟ ہمیں آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے کیونکہ دہشت گردی کی جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی اور دنیا نے اس کا جائزہ لینا بھی شروع کر دیا ہے۔ ہمیں اچھا لگے یا برا، اس میں پاکستان اور اس کے دفاعی اداروں کے کردار کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔