بلّا اور موراور خودکشی

جب ہم یوم ِ پاکستان منارہے ہیں، ایک لمحے کے لیے رک کر سوچیں کہ عام افراد، خاص طور پر گمنام اور غریب گھروں میں رہنے والی عورتوں کو ابھی تک اس ریاست میں انصاف میسر نہیں ہے، لیکن چھوڑیںاس بات کواور سنیں کہ پہلا مور مرچکا ہے، بلکہ یوں کہہ لیں کہ اُسے ایک گستاخ بلا چٹ کر گیا ہے۔ نواز شریف شاید صدمے سے نڈھال ہوں گے ، چنانچہ مقامی پولیس کے سربراہ نے اکیس سپاہیوں کو طلب کیا او ر ان کی سخت سرزنش کی۔ وہ ان پر سخت الفاظ میں چلائے ہوں گے کیونکہ وہ فرائض میں غفلت برتنے کی پاداش میںمعطل بھی کیے جاسکتے تھے۔ بات بھی معمولی نہ تھی کیونکہ یہ کسی عام پاکستانی کا گھر نہ تھا، یہ ملک کے سربراہ کی جاگیر تھی اور ایک کم ظرف بلا اسے لقمہ بنا گیا اور پولیس والوں کو پتہ بھی نہ چلا۔ کیا یہ صریحاً غفلت نہیں؟
اس کے بعد ''مجرم‘‘ کو کیفر کردارتک پہنچانے کے لیے ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی قائم کی جائے گی۔ اب تک وزیر ِاعظم کی رہائشگاہ پر تعزیت کے پیغامات کا تانتا بندھا ہوگاجبکہ کچھ غمزدہ افراد بین ڈالتے ہوئے فرسٹ فیملی کے غم میں شریک ہورہے ہوں گے۔ اس دل گداز واقعے کو ایک قومی سانحہ قرار دیا جائے گا۔یہ صدمہ یقینا پتھر کا جگر بھی پانی کر سکتا ہے ، تاہم فاصلہ غم کی شدت کو کم کردیتا ہے، اس لیے امریکہ میں رہائش پذیرایک پاکستانی، جیسا کہ یہ کالم نگار، کی بینائی شاید آئوٹ آف فوکس ہے کہ اُسے خوشنما پروں والے کھائے گئے مور کی بجائے کالج کی ایک اٹھارہ سالہ طالبہ، 
جسے گھر جاتے ہوئے گینگ ریپ کیا گیا، زیادہ واضح دکھائی دے رہی ہے۔ آبروریزی کرنے والے مجرمان کا حشر اُس بلے کا سا نہ ہوا کیونکہ آمنہ بی بی کا تعلق ایک عام سے گھرانے سے تھا۔ اس کے لیے مختاراں مائی بھی کچھ نہ کرسکی حالانکہ اسے میڈیا کی کوریج ملتی ہے۔ مختاراں مائی کی مشرف دور میں آبروریزی کی گئی تھی لیکن جنرل صاحب کی حکومت میں خواتین کے معاملات کی مشیرنیلو فر بختیار نے اُس سنگین معاملے کو نظر انداز کردیا۔ ہمارے ملک میں تو ایسے واقعات خبر ہی نہیں بنتے، لیکن عالمی میڈیا کی طرف سے اس واقعے کو رپورٹ کرنے پر سب جاگ اٹھے۔ 
اس کے بعد ایک لیڈی ڈاکٹر شازیہ خالد کا کیس تھا۔ وہ بلوچستان کے شہر سوئی میں ایک پٹرولیم کمپنی میںملازم تھی۔ اُسے اُس ہوسٹل کے کمرے میں، جہاں وہ رہتی تھی، ریپ کیا گیا۔ تاہم اس کمپنی کے مالکوں اور مقامی پولیس نے کیس کو دبا دیا۔ مشرف اور اس کی کابینہ کے ارکان بھی اس کیس میں ہاتھ ڈالنے سے ہچکچا رہے تھے۔ حکومت دم سادھے کھڑی تھی جب غیر ت مند بلوچ قبائلیوں نے قانون کو اپنے ہاتھ میں لے کر فیصلہ سنا دیا اور سوئی جل اٹھا۔ اس کے بعد شازیہ کو وہاں سے جلدی سے نکال کر کسی دوسرے ملک منتقل کر دیا گیا۔ کیا یہ کہانی یہاں ختم ہوجاتی ہے؟ہر گز نہیں۔سندھ 
کی سرزمین پر شازیہ خالد کے داد ا نے اُسے کاروکاری قرار دے دیا کیونکہ وہ ریپ ہو کر قبیلے کے لیے بدنامی کا باعث بنی تھی۔ اس کے برعکس مختاراں مائی کا کیس مختلف تھا۔ وہ پاکستان میں ہی رہی اور خود پر ہونے والے ستم کے خلاف قانونی جنگ لڑی۔ میڈیا کی وجہ سے وہ راتوں رات ویسی ہی شہرت پاگئی جیسی آج ملالہ کو ملی ہے۔ اُسے امریکہ آنے کی دعوت دی گئی ۔ وہاں اس نے خود پر ہونے والے ظلم اور پاکستانی معاشرے میں عورتوں پر توڑنے جانے مظالم پر بے دھڑک باتیں کیں۔ اس پر عالمی میڈیا نے اسے بے حد پزیرائی دی۔ اسے مغربی ممالک کی تنظیموں کی طرف سے بہت سے عطیات وصول ہوئے۔ اس رقم سے اُس نے ''مختاراں مائی سوشل ویلفیئر آرگنائزیشن ‘‘ قائم کی۔ تاہم ستم یہ کہ جب آمنہ بی بی مختاراں مائی کی تنظیم کے پا س مدد کے لیے گئی تو اُسے خالی ہاتھ لوٹنا پڑا۔ اس پر مختاراں مائی کا کہنا ہے کہ اُن کی تنظیم اُسے رہائش فراہم کرسکتی تھی لیکن آمنہ چاہتی تھی کہ وہ آبروریزی کرنے والے مجرموں کو گرفتار کرنے میں اس کی مدد کرے اور یہ بات ان کی تنظیم کی پہنچ سے باہر تھی۔ اس پر آمنہ نے خود پر پٹرول چھڑکا اور آگ لگالی۔اس کے بعد حکومت کی آنکھیں کھلیں۔ پھر وزیر ِ اعلیٰ بھاگے بھاگے وہاں پہنچے اور اُس کے اہلِ خانہ کو پانچ لاکھ روپے پیش کیے ، لیکن اس رقم ، یا کسی بھی رقم ،سے آمنہ واپس اس دنیا میں نہیں آسکتی۔
اگر آمنہ بی بی مختاراں مائی جیسے مضبوط اعصاب کی مالک ہوتی تو وہ بھی اپنا کیس عالمی میڈیا کے سامنے پیش کرسکتی تھی۔ پھر شاید اُسے انصاف مل جاتا۔ بات یہ ہے کہ جب تک میڈیا کسی جرم کو کوریج نہ دے ، حکومت کو علم نہیں ہوتا اور جب تک حکومت، اور وہ بھی وزیر ِ اعظم یا کم از کم وزیر ِاعلیٰ بذات ِخود نوٹس نہ لیں، پولیس کارروائی کرنا حرام سمجھتی ہے۔ اب بھلا ریت کے صحرا میں پانی کے چند قطرے کس طرح ہریالی لا سکتے ہیں؟اس لیے ہم جس طرح کی گورننس کے عادی ہوچکے ہیں یا جس طریقے سے ہمیں انصاف ملتا ہے ، اس کے لیے ٹی وی کوریج ضروری ہے۔ دوسرا مشکل آپشن ریاستی نظم و نسق کو درست کرنا ہے کہ ارباب اختیار ایسا نظام وضع کریں کہ ہر کسی کو اس کی دہلیز پر انصاف مل سکے، لیکن اس طرح پھر حکمرانوں کی تشہیر نہیںہوتی اور نہ ہی ان کی خدا ترسی کے گن گائے جاتے ہیں ، چنانچہ ایسا نظام گیا بھاڑ میں... 
یہ کم درجے کے انسانوں کے معاملات ایسے ہی چلنے ہیں، اس لیے واپس اعلیٰ درجے کے مور جس کی ہلاکت پر پولیس کی دوڑیں لگ گئیں، کی بات کرلیں۔ کوئی عجب نہیں کہ آئندہ بلّوں کو اپنے دانتوں اور پنجوں کا لائسنس حاصل کرنا پڑے کیونکہ اب قانون سازی لازمی ہوگی۔ لیکن قانون کا عام انسانوں سے کیا کاکام ؟ کچھ سال پہلے ایک اور عورت انصاف کے لیے مرگئی۔وہ شمائلہ تھی اور وہ فہیم کی بیوہ تھی۔ فہیم وہ شخص تھا جسے لاہور میں ریمنڈ ڈیوس نے گولی مار کر ہلاک کردیا تھا۔ امریکی حکومت نے مقتول کے ورثا کو خون بہا کے طور پر 1.4 ملین ڈالر ادا کیے اور اُس کے کچھ رشتے داروںکو امریکی شہریت بھی مل گئی۔ اس پر تمام اہل ِ خانہ خوش تھے سوائے شمائلہ کے ، کیونکہ اس کا کہنا تھا کہ اُسے رقم نہیں، انصاف چاہیے۔ جب انصاف کی قیمت لگ جائے اور انسان ، اور وہ بھی ایک بیوہ کیا کرسکتی ہے۔ چنانچہ اُس نے زہر کھا کر خود کشی کرلی۔ 
آر سی ڈی روڈ پر ہونے والے حادثے میں درجنوں افراد جل کر راکھ ہوگئے کیونکہ ان میں ڈیزل سمگل ہورہا تھا اور اسے آگ لگ گئی۔ کیا حادثے سے پہلے کسی کوعلم نہ تھا کہ بسوں کی چھتوں پر جو ڈرم رکھے ہوتے ہیں ان میں سمگل شدہ تیل ہوتا ہے؟ ساغر صدیقی نے اسی لیے کہاتھا ؎ 
معبدوں کے چراغ گل کر دو
قلبِ انسان میں اندھیرا ہے 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں