مشہور کتاب ''The Book of Awakening.‘‘ کے مصنف مارک نیپو (Mark Nepo) کا کہنا ہے۔۔۔ ''بعض اوقات میرا سفر تکلیف دہ حد تک تیز ہوتا ہے۔ چیزیں ساکت ہوتی ہیں لیکن وہ برق رفتاری سے میری طرف آتی ہوئی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔
کئی سال پہلے ہمارے ایک عمدہ ترین سفارت کار کو، جو بہت زیادہ سموکنگ کرتے تھے، فارن سیکرٹری کا مطلوبہ عہدہ مل گیا۔ جب میں ان کا انٹرویو کرنے اسلام آباد دفتر پہنچی تو اُنھوںنے مجھے بہت ہی دل خوش کن لہجے میں بتایا کہ وہ فارن آفس کو کس طرح چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ جب انٹرویو تمام ہونے والا تھا تو انھوںنے بقراطی لہجے میںذہن پر زور ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔''مجھے صرف ایک تاسف ہے کہ میرے پاس نہ سوچنے کا وقت ہوتا ہے اور نہ ہی سننے کا۔‘‘اور ان کی یہ بات منکسر المزاجی کا اظہار نہ تھی، انٹرویو سے اس حقیقت کی غمازی ہورہی تھی۔
جب وقت گزرتا گیا تو ان کی الجھنیں بڑھتی گئیں اور اس کے نتیجے میں ان کا مزاج بھی برہم رہنے لگا۔ کسی بریفنگ کے دوران اگر کوئی صحافی کوئی ایسا سوال کربیٹھتا تو جن کا وہ جواب دینے کے موڈ میں نہ ہوں تو اس صحافی کو تقریباً ڈانٹ پڑجاتی۔ اس کا مطلب کہ وہ سیکرٹری صاحب بدل رہے تھے، وہ ذہنی طور پر پریشان تھے اور پریشانی کو سگریٹ کے کش لگاتے ہوئے دور کرنے کی کوشش کرتے لیکن بے سود۔ اگر مارک نیپو نے اپنی ایک کتاب۔۔۔ ''بات سننے کے سات ہزار طریقے‘‘ دوعشرے پہلے لکھی ہوتی تو شاید ہمارے سیکرٹری صاحب اس کا مطالعہ کرلیتے اور ان کا کیریئر اس طرح ختم نہ ہوتا جس طرح ہمارے اکثر سرکاری افسران دھواں اُڑاتے ہوئے رخصت ہو لیتے ہیں اور اس کے بعد شام کے وقت مین بلیوارڈ یا کسی پارک میں چہل قدمی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
مارک نیپو کو پچیس سال پہلے عجیب کینسر ہوا تھا، لیکن وہ بچ گئے۔ موت کے منہ سے بچنے کے بعد اُنھوںنے خود کو تبدیل کیا اور وہ اپنے دور کے اہم ترین روحانی عالم بن گئے۔ ایک ماہر کہانی نویس کی طرح،وہ اپنی کتاب میں اپنے زندگی کے تجربات کو افسانوی انداز میں بیان کرتے ہیں۔وہ کیلی فورنیا کے ایک فوٹو گرافر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ اس کی زندگی کودو سانسوںنے تبدیل کردیا۔۔۔ ایک اس کی پیدا ہونے والی بچی کی پہلی سانس اور دوسری اس کی والدہ کی اس دنیا میں آخری سانس۔ مارک نیپو لکھتے ہیں۔۔۔''جب اس کی بچی نے دنیا میں پہلی سانس لی، اُسے ایسا محسوس ہوا کہ دنیا زند گی سے بھر گئی ہے۔ اس کے طول و عرض میں حیات بخش روح نے ٹھکانا کرلیا ہے۔ والدہ کی وفات سے اُسے ایسے لگا جیسے ان کی روح اس زندگی کے جال سے آزاد ہوگئی ہے‘‘ اس فوٹو گرافر کے تجربے سے سبق سیکھتے ہوئے ہم یہ بات جان سکتے ہیں کہ اس دنیا میں ہر سانس ہمیں کسی الجھن سے بچاتے ہوئے ہمارے اندر روحانی بیداری پیدا کرسکتا ہے۔ اگر ایسا نہ ہو تو ہر سانس کے ساتھ ہم کسی نہ کسی مصیبت کا شکار ہوتے رہتے ہیں۔ غالباً سلطان باہوؒ نے اس لیے فرمایا تھا۔۔۔''جو دم غافل، سو دم کافر‘‘۔ ہمارا اس دنیا کے ساتھ تعلق سانسوںکی ڈوری سے بندھا ہوا ہے، اس لیے اس تعلق کا فہم ضروری ہے۔
مارک نیپو نے اپنی اس کتاب میں زندگی کا بہت پیچیدہ فلسفہ بیان کیا ہے۔ صاحب ِ نظر افراد کواس کا مطالعہ ضرور کرنا چاہیے؛ تاہم ہماری زیادہ تر توجہ کا ارتکاز ''روٹی‘‘ پر رہتا ہے ، بلکہ ہماری تمام کاوشوںکا حاصل بھی اسی کا حصول رہتا ہے۔ زندگی اور اس کی فہم ہمارے تفکر کا حصہ نہیں۔ اس کی وجہ سے ہم ان بہت سی الجھنوں، پریشانیوں اور مصائب کا شکار ہوتے رہتے ہیں جن سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا۔ مصنف بتاتا ہے کہ بیماری کے دوران جب اس کی قوت ِ سماعت کمزور ہوگئی تو اس نے غور سے سننے اور سمجھنے کی عادت اپنالی۔اس کے بعد اس نے زندگی بھر، صحت یاب ہونے کے بعد بھی، یہ معمول جاری رکھا کہ وہ بات کو غور سے سنتا۔ اس کا کہنا ہے کہ ہزاروں فرشتے ہماری زندگی میں آتے ہیں اور وہ ہمیں اپنا گیت سناتے ہیں۔ بعض اوقات وہ بظاہر نقصان دہ عوامل کی صورت میں ہوتے ہیں اور ہم ان کی وجہ سے پریشان ہوجاتے ہیں، تاہم جب وقت آگے بڑھتا ہے تو کچھ دیر بعد ہمیں احساس ہوتا ہے کہ وہ چیز ، جو ہمارے لیے اُس وقت تکلیف دہ دکھائی دیتی تھی، وہ تو دراصل رحمت کا فرشتہ تھی۔ وہ اپنے قارئین کو ہدایت کرتاہے کہ جب بھی ہمیں غیر یقینی صورت ِ حال سے واسطہ پڑے تو ہمیں پریشان نہیں ہونا چاہیے۔ اس کا کہنا ہے کہ ہمارے سامنے درست یا غلط راستے نہیں ہوتے۔۔۔ یہ ہم ہیں جنھوںنے کسی راستے پر درست یا غلط انداز میں چلناہوتاہے۔
مذکورہ کتاب نیویارک ٹائمز کی بیسٹ سیلرز میں شامل رہی ہے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ امریکی اور یورپی افراد ایسی کتابوں میں بہت دلچسپی لیتے ہیںجو زندگی گزارنے کے بہتر طریقوںکی طرف راہنمائی کرتی ہیں۔ ہمارے ملک میں کیسی کتابیںپڑھی جاتی ہیں؟ غلط سوال! کیا ہمارے ملک میں کتابیں پڑھی جاتی ہیں؟ خیر اس بات کو چھوڑیں، مارک نیپو اپنی کتاب میں چیری کے درخت کی علامت استعمال کرتا ہے۔ وہ بتاتا ہے کہ کبھی وہ نیویارک ریاست کی ایک وادی میں رہتا تھا۔ اس کے گھر کے نزدیک ایک چیری کادرخت تھا۔ اس پر ہر سال مئی کے آغاز میں پھول لگتے تھے۔ اس پر سب درختوں سے پہلے پھول کھلتے اور سب سے پہلے جھڑ جاتے۔کیااس میں ہمارے لیے ایک سبق نہیں کہ جو چیز جلد ملے گی، وہ جلد چھن جائے گی۔ درخت اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے، پھول اور پتے بدلتے رہتے ہیں، موسم آتے جاتے رہتے ہیں۔ اس پر نامور گلوکار محمد رفیع کے گیت کا بول یاد آرہا ہے۔۔۔''یہ زندگی کے میلے، دنیا میں کم نہ ہوں گے، افسوس ہم نہ ہوںگے‘‘۔
اس زندگی میں تمام انسان اور جاندار اشیا کا آپس میں کوئی نہ کوئی تعلق ضرور بنتا ہے۔ بعض اوقات ''خاک ِ چمن وا نمود ، راز ِ دلِ کائنات‘‘(اقبال)۔۔۔ چمن کی مٹی کائنات کے دل کے راز کا انکشاف کردیتی ہے۔ نیپو ایک باہمت انسان ہے۔ ان کہنا ہے کہ کالج میں جب ان سے پوچھا جاتا کہ وہ زندگی میں کون سے مضمون کا انتخاب کرنا پسند کریںگے تو وہ جواب دیتا۔۔۔''زندگی‘‘۔ اس کے دوست اُسے دیوانہ سمجھتے۔ اس کاکہنا ہے کہ زندگی کسی دیوانے کی سنائی ہوئی کہانی نہیں۔ اس میں دکھائی دینے والی کنفیوژن بھی بے سروپا نہیں ہوتی۔ اس کے بنیادی پیمانے تبدیل نہیںہوتے، اس لیے انسان کو یہ حماقت نہیں کرنی چاہیے کہ وہ ایسے راستے کا انتخاب کرلے جس کا وہ منصوبہ بنانے کے قابل ہی نہ ہو۔ ہم پاکستانیوںکو یہ جان کر شاید حیرت ہوگی کہ مارک نیپو نے مرزا غالب کا بھی اپنی کتاب ِ زندگی میں حوالہ دیا ہے۔ یعنی اس دانشور مصنف کے نزدیک غالب زندگی کی حقیقت کو سمجھتے تھے۔ مرزا کا یہ شعر آپ نے یقینا سنا ہوگا۔۔۔
ہے غیبِ غیب، جس کو سمجھتے ہیں ہم شہود
ہیں خواب میں ہنوز جو جاگے ہیں خواب میں
کیا ہم اس گہرے خواب سے بیدار ہونے کے لیے تیار ہیں؟تاہم مرزا کے شعرکے مطابق مسئلہ یہ ہے کہ جو خود کو جاگتا ہوا سمجھتے ہیں، دراصل وہ بھی کسی خواب میںکھوئے ہوتے ہیں۔