آپ جو کچھ چاہتے ہیں، اس کے لیے رشوت دینے کی ضرورت ہے ورنہ محنت اور اچھی نیت کودنیا کے ہمارے حصے میں پھل نہیں لگتا۔ پاکستان میںکئی سالوں سے مروج اس اصول کے مطابق اگر آپ کسی افسر کی مٹھی گرم نہیںکرتے تو آپ کا کام نہیںہوگا۔ ایک پاکستانی نژاد امریکی کو پیش آنے والے حالات ایک مثال ہے‘ جو سمجھاتی ہے کہ پاکستان میں کام کرنا ایک اذیت کو دعوت دینے کے مترادف ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ انسان کسی گناہ کا مرتکب ہوتے ہوئے مصیبت میں پھنس گیا ہے۔ اس بات کی وضاحت میںایک پاکستانی نژاد امریکی کو پیش آنے والا ایک واقعہ بیان کرتی ہوں۔
ارشد جمیل ایک پیشہ ور ماہر ہیں جو نیویارک میں کام کرتے ہیں۔ خرابی ِقسمت ملاحظہ ہو کہ اُن کے دل میں وطن کی محبت جاگی اور وہ ہر سال پاکستان جاکر یونیورسٹی کے طلبہ کے ساتھ رضاکارانہ طور پر اپنا تجربہ شیئر کرتے اور اُنہیں مہارتیں سکھاتے۔ انہوں نے ایچ ای سی پاکستان (ہائر ایجوکیشن کمیشن) کے لیے امریکہ میںرہتے ہوئے کچھ مواصلاتی ورک بھی کیا۔ اپنی حب الوطنی کا مظاہرہ کرنے کے لیے وہ بڑے جوش و خروش سے پاکستان آئے تھے؛ تاہم پاکستان کے گزشتہ دورے نے ان کی تمام غلط فہمی دور کردی۔ وہ اب بھی آتے ہیں لیکن بہت کچھ سوچ سمجھ کر اور خود کو کسی بھی صورت ِ حال سے نمٹنے کے لیے تیار کرتے ہوئے۔ ''یہ عشق نہیں آساں‘‘ ۔۔۔ یہ بات تو کسی اور عشق کے لیے کہی گئی ہے لیکن دنیا کے ہمارے حصے میں وطن سے محبت بھی اس سولی پر چڑھنے کا نام ہے۔
مسٹر اور مسز جمیل لاہور اترے تو امیگریشن حکام نے ان کے سمندر پار پاکستانیوں کو فراہم کردہ قومی شناختی کارڈ (NICOP) کو دیکھتے ہوئے پاسپورٹ پر مہر لگا دی۔ مسٹر ارشد نے اسلام آباد اور فیصل آباد میں بہت ہی مصروف دن گزارے اور توانائی اور پانی کے مسائل پر اپنی تحقیق اور تجربے کو آگے بڑھانے کی کوشش کی۔ اس ضمن میں انہوں نے صنعت کاروں اور طلبہ سے رابطہ کرتے ہوئے انہیں جان بچانے والی اشیاکے بارے میں آگاہی دی۔ ان کا کہنا تھا۔۔۔''میںیہ نہیںکہتا کہ میں اپنے ملک پر کوئی احسان کررہا ہوں، بلکہ میں تو احسان اتارنے کی ایک ادنیٰ سی کوشش میں ہوں۔ پاکستان کو اس کے ماہرین، جو دنیا کے مختلف ممالک میں فرائض سرانجام دے رہے ہیں، کی خدمات کی ضرورت ہے۔‘‘یہ یقینابہت ہی نیک جذبات ہیں اور ان کی قدر کی جانی چاہیے۔
وطن کی خدمت کرنے کے بعد جب وہ واپس جانے لگے تو ٹکٹنگ ایجنٹ نے ان کے پاسپورٹ پر نگاہ ڈالی اور کہا کہ وہ جہاز پر سوار نہیںہوسکتے کیونکہ ان کے شناختی کارڈ کی تاریخ ایکسپائر ہوچکی ہے۔مسٹر ارشد کے کارڈ کی مدت گزرے پانچ دن ہوچکے تھے۔ انہوں نے ایجنٹ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ نئے بنائے جانے والے قانون کے تحت ساٹھ سال سے زائد افراد کا NICOP لائف ٹائم تصور ہوتا ہے اور ان کی اس وقت عمر 74 سال ہے۔ اس لیے ایکسپائری کا کوئی ایشو نہیں ۔ تاہم ایجنٹ نے ان کی آنکھوں میں غور سے اور خاصے معنی خیز انداز میں دیکھتے ہوئے نفی میں سرہلایا۔ اس طرز ِ بصارت کوعام پاکستانی اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ کاغذات میں کس چیز کی کمی ہے اور وہ اس کمی کوپورا کرنے کی کوشش کرتے ہیں، تاہم امریکہ پلٹ ، قانون کے مطابق کام کرنے والا شخص اس ذکاوتِ فکری سے محروم نکلا، چنانچہ ایجنٹ نے کاغذات تہہ کیے اور ان کے حوالے کردیے۔ اس نے ساٹھ سال عمر کی توجیہ سننے سے بھی انکار کردیا اور دیگر مسافروںکی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس کے بعد ایک مرتبہ پھر ان کو مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ وہ جہاز میں سوار نہیںسکتے، اس لیے اپنا اور اس کا وقت ضائع نہ کریں۔ جب ارشد نے زیادہ اصرار کیا تو اُنہیں بتایا کہ وہ امیگریشن والے عملے سے بات کرلے۔
یہ تجویز کسی کو بھوکے بھیڑیوںکے آگے ڈالنے کے مترادف تھی۔بہرحال انہوں نے ان کے کائونٹر پر جاکر بھی یہی رام کہانی سنائی کہ قانون یہ کہتا ہے۔ جواب ملا کہ ان کی حرکت غیر قانونی ہے، اس لیے انہیں جیل کی ہوا کھانا پڑے گی۔ انہیں مشورہ دیا گیا کہ وہ اپنے ویزے پر نیا NICOP حاصل کریں۔ اس وقت انہیں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے پانچ دن کی تاخیر نے اُنہیں ایک بہت بڑا مجرم بنادیا ہے۔ ان کی فلائٹ نکل چکی تھی۔ ائیرپورٹ پر ہر طرف سے جواب ملنے کے بعد اس معمر جوڑے نے ٹیکسی لی اور آدھی رات کو ارشد جمیل کے بھائی کے گھر کے دروازے پر دستک دی۔ وہاں رات گزاری اور دن کے وقت نادرا کے ایک قریبی دفتر میں گئے۔ وہاں نادرا افسران نے ان کی بات کی تائید کی اور ساٹھ سال سے زائد عمر والے افراد کے حوالے سے بنائے جانے والے قانون کی تصدیق کا خط دے دیا۔ جب وہ آنے لگے تو روک کر بتایا گیا کہ یہ قانون تو موجود ہے لیکن آپ کے لیے نہیں ہے۔ آپ کو نیا NICOP لینا پڑے گا ۔ یہ دس دن میںملے گا اور اس کی فیس بارہ ہزار روپے ہے۔ اس سے جلدی کارڈ ملنے کی کوئی صورت نہیں تھی۔ تاہم اُنہیں ایک راہ دکھائی گئی کہ نئے کارڈ کے لیے ملنے والی رسید پر بھی سفر کرنے کے مجاز ہیں لیکن اس کے لیے اُنہیں اضافی چھ ہزار روپے ادا کرنا ہوں گے اور ایک اور دفتر میںجانا ہوگا۔
ان کی ابتلا ابھی ختم نہیںہوئی تھی۔ اب اُنہیں اس رسید پر ایف آئی اے سے بھی مہرلگوانی تھی۔ اس کا مطلب مزید سکہ رائج الوقت کی ادائیگی۔۔۔ یہی کچھ دس ہزار روپے۔ اب ایف آئی اے کو ریکارڈ چاہیے تھا، اس کی فراہمی بھی آسان نہ تھی۔۔۔ کبھی جیل گئے ہو یا نہیں؟ کسی ملک نے داخلے سے انکار کیا ہو؟ ملازمت کا ریکارڈ، گزشتہ پانچ سال کے دوران اختیار کیے جانے والے سفروں کا ریکارڈ، تعلیم، والدین، شادی۔۔۔ ۔ وغیرہ۔بہرحال بہت کچھ دے دلاکر وہ معمر جوڑا جہاز پر بیٹھا اور یوں محسوس کررہا تھا کہ جیسے جیل سے رہاہوکر آزاد فضائوں میں سانس لے رہے ہوں۔ اس تمام چکر میں وہ قیمتی وقت کے علاوہ 250,000 روپے بھی کھوچکے تھے۔ جہاز پر سوار ہوتے ہوئے انہوں نے اس سرزمین پر نگاہ ڈالی، شاید آخری مرتبہ، اور آہ بھرتے ہوئے کہا کہ ساٹھ سال بعد بھی یہ سرزمین رشوت اور لاقانونیت کی اسیر ہے اوراس کی رہائی کی کوئی صورت دکھائی نہیںدیتی۔
تاہم مسٹر ارشد جمیل نے ہمت نہیں ہاری۔ اس کے بعد بھی پاکستان آتے ہیں اور لوگوںکو مستفید کرتے ہیں، لیکن اب وہ بہت محتاط ہوگئے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ لوگوں کا پاکستان پر سے نہیں، سرکاری افسران پر سے اعتماد اٹھ چکا ہے۔ یہ ایک خطرناک پیش رفت ہے کیونکہ اس کا انجام وطن سے بیزاری کی صورت میںنکلے گا۔ اب یہ بات حکومت کے سمجھنے کی ہے کہ اگر اداروں سے بدعنوانی ختم نہ کی گئی تو عوام میں بددلی پھیلے گی۔ اگر دہشت گردوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا گیا کہ وہ جی بھر کے پاکستانیوں کو ہلاک کرلیں تو معاشرے کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ بدعنوانی اور دہشت گردی سے ریاستیںختم نہیںہوجاتیں لیکن عوام میں پھیلنے والی مایوسی ملک کو کمزور کردیتی ہے۔ شاید دہشت گردبھی یہی چاہتے ہیں، لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت اور اس کے ادارے ان کے ساتھ تعاون پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟