وزیر ِاعظم کی دو محاذوں پر جنگ

وزیراعظمنواز شریف نے اپنے مشیروںاور وزراء کے ساتھ مشاورت کے بعد آپریشن ضربِ عضب شروع کردیا۔ سولہ سال پہلے بھی کچھ مشیروںکے کہنے اور تمام ممالک کی مخالفت کے باوجود میاں صاحب نے28 مئی 1998ء کو ایٹمی دھماکے کیے تھے۔ آج پھر ان مشیروں کو سرجوڑ کر بیٹھنے اور صورتِ حال کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کیونکہ ملک کا مستقبل خطرے میں ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کوئی نادیدہ دشمن ہر آن ہمارے گرد اپنا گھیرا تنگ کرتا جارہا ہے۔ 
تیسری مدت کے لیے وزارت ِ اعظمی سنبھالنے والے کو حوصلہ ، قوت ِ ارادی اور عزم کی ضرورت ہے۔ سولہ سال پہلے میاں صاحب یہ ثابت کرچکے ہیں کہ وہ دبائو برداشت کرنے کی سکت رکھتے ہیں۔ آج ایک مرتبہ پھر اُسی حوصلے کی ضرورت ہے جس کا مظاہرہ اُنھوںنے امریکی صدر کی طرف سے ایٹمی دھماکے نہ کرنے کی ''ہدایت ‘‘ کومسترد کرتے ہوئے کیا تھا۔ ضروری ہے کہ مسلم لیگ نواز اپنی صفوں میں اتحاد رکھے اور میاں صاحب بھی وزراء سے مشاورت کو غیر ضروری کارروائی نہ سمجھیں۔ درحقیقت یہ مسئلہ صرف ان کی حکومت تک ہی محدود نہیں بلکہ کوئی بھی لغرش، اٹھایا گیا کوئی غلط قدم، کیا گیا کوئی غلط فیصلہ ملک اور اس کے موجودہ آئینی ڈھانچے کے لیے انتہائی نقصان دہ ہوگا۔ نواز شریف کی گزشتہ حکومت میں طارق فاطمی فارن آفس میں تھے جبکہ سرتاج عزیز وزیر ِ خارجہ تھے۔ اُس وقت مسٹر عزیز چاہتے تھے کہ نواز شریف ''سی ٹی بی ٹی ‘‘(ایٹمی ٹیسٹ نہ کرنے کا معاہدہ) پر دستخط کردیں جبکہ طارق فاطمی اس کے خلاف تھے۔ بعد کے حالات نے بتایا کہ مسٹر فاطمی کی رائے درست تھی۔ کچھ سال قبل ایک باخبر پاکستانی نژاد امریکی نے مجھے بتایا کہ پاکستان کا اب تک کیا گیا بہتر ین فیصلہ ایٹمی دھماکے کرنا تھا ۔ اگر اُس وقت ریاست اس کی جرات نہ کرپاتی تو آنے والے دنوں میں ایسا کرنا ناممکن ہوجاتا اور بر ِ صغیر میں طاقت کا توازن ہمیشہ کے لیے بگڑ جاتا۔ 
اس وقت وزیر ِ اعظم پاکستان کے سامنے دو محاذ ہیں اور ان دونوں پر ہی فتح اور شکست (شکست کا آپشن نہیںہے)نے ملک کے مستقبل کا تعین کرنا ہے۔ ایک تو دہشت گردوںکے خلاف شروع کیا گیا آپریشن ضرب ِعضب ، تو دوسرا معیشت۔ میاں صاحب کے لیے بہتر ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں ، جن کا حکم دے دیا گیا، کو دفاعی اداروں کی حکمتِ عملی پر چھوڑ دیں اور اپنی پوری توجہ دوسرے دشمن ، بیمار معیشت پر مرکوز کردیں۔ اس بیماری کاو اضح چہرہ لوڈ شیڈنگ ہے۔ ملک کے حالات کو دیکھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میاں صاحب کے سیاسی مخالف ان کے گرد گھیرا تنگ کرتے جارہے ہیں اور ان کے پاس لوڈ شیڈنگ ایک اہم ''ہتھیار ‘‘ ہوگا۔ مخالف کے ہاتھ ایسا ہتھیار تھمانا یقینا دانائی نہیں۔ 
امریکہ میں بہت سے لوگ سوال اٹھاتے ہیں کہ پاکستان اپنی جوہری مہارت سے بجلی کیوںپیدا نہیںکرسکتاتو میں اُنہیں جواب دیتی ہوں کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ پرامن جوہری مقاصد کے لیے تعاون نہیںکرتا۔ امریکہ ، جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کرکے بھی ناکام ہے، کو احساس کرنا چاہیے تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے سراٹھانے کی ایک بڑی وجہ بیمار معیشت بھی ہے۔ اگر معاشرہ خوشحال ہوگا تو یقیناخودکش حملے جنم نہیں لیں گے۔ اس لیے پاکستان کی توانائی کی ضروریات پوری کرنا بھی اسی زمرے میں آتا ہے۔ دراصل پاکستانی افسران امریکہ سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ ان کے ساتھ بھی ویسا ہی پرامن جوہری معاہدہ کیا جائے جیسا اس نے بھارت کے ساتھ کیا ہے۔ تاہم اس امریکی خاتون ، جس سے میں بات کررہی تھی، نے یہ کہہ کر مجھے خاموش کرا دیا کہ صرف امریکہ پر انحصارکرناپاکستان کی عادت بن چکی ہے۔ وہ کہیں اور ''قسمت آزمائی ‘‘ کیوں نہیںکرتا۔ 
گزشتہ سال جب نواز شریف حلف اٹھانے والے تھے تو ان کا ایک بیان سامنے آیا تھا۔۔۔'' کتنی افسوس ناک بات ہے کہ ایک ملک جس کے پاس جوہری ہتھیار ہوںلیکن اس میں روزانہ بیس گھنٹے لوڈشیڈنگ ہورہی ہو‘ اس صورت میں ملک کیسے ترقی کرسکتا ہے؟‘‘ پندرہ سال پہلے بھی انھوں نے ایسی ہی بات کہی تھی۔ کیا گزرتے ہوئے ماہ وسال کا پاکستانی حالات پر کوئی اثر نہیںہوتا؟ آج ہمارے پاس بم ہے لیکن بجلی نہیں ، سکیورٹی ادارے ہیں لیکن سکیورٹی نہیں اور انتخابات ہورہے ہیں لیکن (کچھ کہتے ہیں) جمہوریت نہیں۔ چھوٹے میاں صاحب کا کہنا ہے کہ ملک میں ہونے والی لوڈشیڈنگ کا سوچ سوچ کر اُنہیں راتوں کو نیند نہیں آتی۔ اس پر تبصرہ نہ ہی کرنا بہترہے۔ تاہم ایک بات ہے کہ وہ پنجاب کی حد تک چین کی مدد سے کچھ منصوبے شروع کررہے ہیں۔ شنید ہے کہ نواز شریف نے گزشتہ دورے کے موقع پر چین سے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی میں مدد کی درخواست کی تھی۔ اس پر چین کا کیا جواب تھا، اس کی کسی کو بھنک تک نہ ملی۔ بہرحال ہم یہ بات کہتے نہیں تھکتے کہ چین ہمارا آزمودہ دوست ہے۔ ایسا بھی ہوتا کہ بعض معاہدوں کو دنیا کی نظروںسے بچانے کی ضرورت ہوتی ہے، ہو سکتا ہے کہ یہاں بھی کچھ ایساہی معاملہ درپیش ہو۔ بہرحال ہمیں کچھ عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔ اگر نواز حکومت ایسا کرنے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو یہ اس کی بہت بڑی سیاسی کامیابی ہوگی۔۔۔ شاید ایٹمی دھماکوں سے بھی زیادہ۔ ہو سکتا ہے کہ مخالفین بھی اس بات سے آگاہ ہوں اوریہی وجہ ہے کہ گھیرا تنگ ہورہا ہے ۔ 
یہ بات بہت اہم ہے کہ عالمی پریس پاکستان میں ہونے والی لوڈ شیڈنگ کو بہت اچھال رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ ہمارا مسئلہ شروع سے ہی رہی ہے ، لیکن اب یہ یکایک عالمی پریس کی نظر میں کیوںآئی ہے؟ اس میں نیویارک ٹائمز کے ڈیکلن والش پیش پیش ہیں۔ ان کے ایک حالیہ مضمون کی ہیڈلائن یوں تھی۔۔۔'' پاکستان بلب روشن کرنے سے بھی قاصر ہے۔‘‘وہ لکھتے ہیں۔۔۔''نواز حکومت سے پہلے نگران حکومت نے سرکاری افسران کو حکم دیا تھا کہ وہ اے سی بند کردیں اور جرابیں پہننے سے گریز کریں کیونکہ ان سے گرمی زیادہ لگتی ہے۔‘‘مسٹر والش نے سارے مضمون میں اسی طرح کا طنزیہ لہجہ اپنایا ہے۔ امریکہ میںرہنے والے ایک فکر مند پاکستان کے لیے جرابوں والی کہانی توہین آمیز ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ مغربی میڈیا کو راتوں رات ہماری لوڈ شیڈنگ کی اتنی فکر کیوں ستانے لگی ہے۔ کینیڈا کا اخبار ''گلوب اینڈ میل ‘‘ لکھتا ہے۔۔۔'' ایک سو اسی ملین نفوس پر مشتمل ملک میں بجلی کا بحران اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ یہ ملک غلط سمت میںجارہا ہے۔ ملک میں یہ مسئلہ اتنا شدید ہے کہ صرف یہی حکومت کے زوال کا بن سکتا ہے۔‘‘ اس میںکوئی شک نہیں کہ سیاسی حکومت کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ لوڈ شیڈنگ ہے۔ اس کے لیے سرمایہ کاری چاہیے، اور سرمایہ کاری کے لیے پرامن ماحول۔ اب فوج دہشت گردوں کے خلاف کارروائی تو کررہی ہے لیکن ملک میں بپا ہونے والے فساد کا کیا بنے گا۔ 
عوام پریشان ہیں جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ اس مسئلے پر سیاست نہ کی جائے۔ تاہم اگر آنے وا لے حالات پر نظر ڈالی جائے تو لگتا ہے کہ اس مسئلے پر سیاسی جماعتوں کی طرف سے سیاست کرنا ہی بہتر تھا۔ اب سب کی نظر ایک شخص پر ہے۔۔۔ جس نے پاکستان کے لیے ایٹمی دھماکے کیے اور جو پاکستان کے لیے پرامن جوہری قوت حاصل کرسکتا ہے۔ اسے ناکام بنانا کس کے مفاد میں ہے ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں