ایک صحافی اور ایک جنرل

ایک مرحوم امریکی صحافی اور ایک ریٹائرڈ پاکستانی فوجی جنرل کی کہانی سناتی ہوں۔ آپ سوچ رہے ہوں کہ ان دونوں میں کیا مماثلت ہوسکتی ہے؟ یقینا پاکستان اور امریکہ دو مختلف دنیائیں ہیں لیکن آزادی ِ اظہار کے کچھ نہ کچھ پیمانے دونوں جگہ موجود اور مستعمل اور تنقید کی روایت بھی۔۔۔ کہیں کم ، کہیں زیادہ، لیکن اس کی ضرورت ہر جگہ اور ہر شکل میں موجود ہے۔ اگر حقائق بے نقاب نہ کیے جائیں تو افواہیں گھیر لیتی ہیں۔ یہ دوسری بات ہے کہ افواہوں کو حکمتِ عملی اور حقائق کا پردہ چاک کرنے کو ملک دشمنی گردانا جاتا ہے۔ 
جنرل (ر) سٹینلے میک کرسٹل افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر تھے۔ 2010ء میں ''رولنگ سٹون‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے آرٹیکل ''The Runaway General‘‘ میں وہ امریکی افواج کے کمانڈر انچیف ، صدراوباما کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ اس پر وائٹ ہائوس انتظامیہ نے غصے میں آکرجنرل سٹینلے کو برطرف کردیا۔ اب ہمارے ہاں بھی سابق ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل (ر) اطہر عباس نے بی بی سی کو دیے گئے انٹرویو میںکہاکہ جنرل کیانی کو خدشہ تھا۔۔۔''اُنہیں شمالی وزیرستان میں فوجی دستے بھیجنے پر مورد ِ الزام ٹھہرایا جائے گا۔ ان کے تذبذب کی وجہ سے آپریشن نہ ہوسکا اور بہت سا وقت اور قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں۔اس ملک، اس کے عوام ، حکومت اور مسلح افواج کوسابق آرمی چیف کے بروقت فیصلہ نہ کرنے کا خمیازہ بھگتنا پڑا۔‘‘
جنرل کیانی کے ملازمت سے سبکدوش ہونے کے آٹھ ماہ بعد انہی کے عہد کے فوجی ترجمان نے ان پر کھلم کھلا الزام لگادیا کہ وہ آپریشن کا فیصلہ نہ کرسکے۔ اطہر عباس نے نہ صرف بی بی سی کو انٹرویو دیا بلکہ ایک انگریزی اخبار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اور کچھ اور فوجی جنرلوں کو عتاب کا سامنا تھا کیونکہ وہ آرمی چیف پر زور دے رہے تھے کہ آپریشن ناگزیر ہے لیکن انہوں نے ہمارا مشورہ سننے سے انکار کردیا۔
جس نتیجے پر جنرل کیانی چھ سال میں نہیں پہنچ سکے، اُس پر ا ن کے جانشین جنرل راحیل شریف چھ ماہ میں ہی پہنچ گئے کہ دہشت گردی کے مسئلے کی اصل جڑ کیا ہے اور اسے کیسے ختم کرنا ہے۔ اسے کہتے ہیں قوت ِ فیصلہ کہ آپ اہم اور غیر اہم معاملات میں امتیاز کرنے کے قابل ہوں۔ 
جب پوچھا گیا کہ کیا سابق آرمی چیف کو اپنی سلامتی پر تحفظات تھے تو جنرل اطہر عباس نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ اُنہیں مذہبی حلقوںکی جانب سے شدید رد ِعمل کا اندیشہ تھا۔ وہ یہ بھی جانتے تھے کہ دہشت گرد اُنہیں بھی براہ ِراست نشانہ بنانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔ حالیہ تاریخ میں ایسی کوئی مثال نہیں ملتی کہ کسی سابق جنرل نے اپنے آرمی چیف پر بزدلی کا الزام لگایا ہو۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سابق ڈی جی کو اس لہجے میں اورا س حساس موضوع پر زبان کھولنے پر کس نے مجبور کیا؟امریکہ میں رہنے والے کچھ پاکستانیوں، جو ملکی حالات و واقعات پر نظر رکھتے ہیں، کا کہنا ہے کہ شاید جنرل اطہر عباس کوکسی کی طرف سے سبز جھنڈی دکھائی گئی ہے، ورنہ اپنے آرمی چیف کے خلاف اس طرح بات کرنے کی روایت موجود نہیں۔ میںنے ایک مرتبہ ڈی جی آئی ایس پی آر سے ان کے راولپنڈی آفس میں انٹرویو کیا تھا ، لیکن جنرل اطہر عباس بہت ہی پیشہ ور سپاہی ثابت ہوئے اور انہوں نے میرے بہت سے سوالات کو ٹالتے ہوئے کہا کہ بہتر ہے کہ میں یہ باتیں ریٹائرڈ فوجی افسران سے پوچھ لوں کیونکہ ان پر اب زبان کھولنے کی کوئی پابندی نہیں۔ تاہم میرے چہرے پر مایوسی کے سائے گہرے ہوتے دیکھ کر انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ مجھے ''Welfare Schemes‘‘ کے بارے میں کچھ مواد بھیجیں گے۔ جنرل صاحب نے وعدہ پورا کردیا اور اسی شام، جب تاریکی نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈال لیے تو میرے گھر کے سامنے ایک فوجی وین آکر رکی ۔ اس میں ایک فوجی جوان نکلا اور اُس نے کاغذات کا ایک بھاری بھرکم پلندا میرے ہاتھ میں تھمایا اور تیزی سے واپس چلا گیا۔ جب میں نے ان کی ورق گردانی کی تو وہ ان سکیموں کے بارے میں تھے جو فوج ریٹائرڈ افسران اور سویلینز کی فلاح کے لیے شروع کررہی تھی۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں تھی جو میں پوچھنے گئی تھی اور نہ ہی ان سے لگتا تھا کہ یہ فوج کے کسی ترجمان کی طرف سے آئے ہیں۔ بہرحال جنرل صاحب نے ''وعدہ ‘‘ پورا کردیا تھا، ان کا شکریہ۔ بہت سے اور صحافی حضرات بھی اس بات کے گواہ ہیں کہ اطہر عباس معاملات کو گول مول کرنے کے کس قدر ماہر تھے۔ وہ بہت سے سوالات پر نہایت مہارت سے غچہ دے جاتے۔ 
لیکن اب کیا ہوا ہے؟ بی بی سی اور اس انگریزی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے زبان پھسل گئی یا پھر کچھ اور بات تھی؟نواز شریف حکومت کی طرف سے صرف وزیر ِ داخلہ چوہدری نثار علی خان نے رد ِعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ افسران جو اہم فیصلوں میں شریک رہے ہیں، کو زبان کھولنے میں احتیاط کرنی چاہیے کیونکہ ملک و قوم کی بہتری اسی میں ہے۔ چوہدری نثار یقینا نصیحت کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے اور پھر یہ تو بہت ہی خاص موقع تھا۔ 
رولنگ سٹون کے صحافی مائیکل ہیسٹنگز (Michael Hastings) 33 سال کی عمر میں گزشتہ جون کو ایک کار حادثے میں ہلاک ہوگئے تھے۔ اس پر نیویارک ٹائمز کے ایک مبصر نے لکھا۔۔۔''صحافت ایک بہت ہی خاص شخص کی خدمات سے محروم ہوگئی ہے۔ وہ ایک ایسے صحافی تھے جو تنقید کرتے وقت اُس شخص کے عہدے سے مرغوب نہیںہوتے تھے ۔‘‘اردو قارئین مائیکل ہسٹنگز کی جرأت و بے باکی سے زیادہ واقف نہیں ہوں گے ۔ بہرحال ان کی ہلاکت کے بعد ان کا ایک ناول ''The Last Magazine‘‘ شائع ہوا ہے۔ اس میں انہوں نے عراق کی جنگ میں ہونے والی حماقتوں اور زیادتیوں کا اس طرح پول کھولا ہے کہ بہت سے لبرل اور بائیں بازو کے صحافی بھی اسے رشک کی نظروں سے دیکھتے ہیں۔ اپنے جنرلوں پراس تنقید کے سامنے جنرل اطہر عباس کا بیان پھولوں کا ہار دکھائی دیتا ہے۔ اس لیے پاکستانی صحافی حضرات ، جو اطہر عباس کی ''سرزنش ‘‘ کررہے ہیں، سے گزارش ہے کہ تنقید سے بہتر ی آتی ہے۔ ہاں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اطہر عباس کوئی صحافی نہیں بلکہ فوجی افسرتھے اور فوجی افسران اس طرح زبان نہیں کھولتے۔ 
دراصل دنیا کے ہمارے حصے میں پردہ پوشی کی روایت بہت گہری ہے۔ چونکہ حقائق کاعلم نہیںہوتا، اس لیے افواہیںزور پکڑ لیتی ہیں۔ ہم آج بھی دہشت گردوں کے بارے میں سچ بولنے کے لیے تیار نہیں ہیں کہ انہیں کس کی پشت پناہی حاصل رہی ہے؟ جن مدرسوں میں ان کی ذہنیت پروان چڑھی ہے، اُنہیں چلانے، چندہ دینے والے اور قائم کرنے والے کون ہیں؟اس جنگ کو عوام سے جتنا چھپا کررکھیں گے، اس کا اتنا ہی نقصان ہوگا۔ گزشتہ ایک دہائی سے عوام کی ایک بڑی تعداد کو یہ باور کرایا گیا کہ دہشت گردی ڈرون حملوں کی وجہ سے ہے۔ پھر یہ کہ خود کش حملہ آور یہود وہنود ہیںاور کوئی مسلمان دوسرے مسلمان کو ہلاک نہیں کرسکتا۔ مساجد میں ہونے والے دھماکوں پر عمران خان کا بیان ہوا کرتا تھا کہ یہ کسی مسلمان یا پھر کسی انسان کا کام ہوہی نہیں سکتا۔ اب کیا ہورہا ہے؟ میرا خیال ہے کہ ہمیں اس الجھن سے نکلنے کے لیے لاتعداد ''اطہر عباس‘‘ درکار ہیں تاکہ قوم کو پتہ تو چل سکے کہ اس کے ساتھ اپنے اور بیگانے کیا کرتے رہے ہیں۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں