ہم اسلام آباد میں تعینات تمام سفیروں کو سلام پیش کرتے ہیں جو اپنے پرسکون ممالک کو چھوڑ کرہمارے ملک میں اپنے ریاستی فرائض کی انجام دہی کے لیے تشریف لائے۔ہماری دعائیں خصوصی طور پر نلتر حادثے میں ہلاک اور زخمی ہونے والے معزز مہمانوں کے ساتھ ہیں۔ واقعات کی سامنے آنے والی تفصیل کے مطابق وہ مئی کی ایک گرم صبح کو راولپنڈی کے نور خان ایئرپورٹ سے تین ہیلی کاپٹروں پر سوا ر ہوکرگلگت بلتستان کی خوبصور ت وادی ، نلتر، کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس سفر کا انتظام دفتر ِخارجہ نے پاک فوج کے تعاون سے کیا تھا تا کہ غیر ملکی مہمانوں کو دکھایا جاسکے کہ پاکستان کو فطرت نے کتنی خوبصورتی سے نوازا ہے۔وزیر ِا عظم نواز شریف نلتر وادی میں چیئرلفٹ کے ایک منصوبے کا افتتاح کرنے کاارادہ رکھتے تھے۔ ان معزز سفیروں نے اسی پروگرام میں شرکت کے لیے جانا تھا۔ واقعات کے مطابق جس ہیلی کاپٹر میں ناروے اور فلپائن کے سفیر اور ملائیشیا اور انڈونیشا کے سفیروں کی بیگمات سوار تھیں، لینڈ ہوتے ہوئے کریش ہوگیا اور اس کے نتیجے میں یہ افراد ہلاک جبکہ پولینڈ اور ہالینڈ کے سفیر زخمی ہوگئے۔ پاک فوج کے ترجمان،ڈی جی آئی ایس پی آر، عاصم باجوہ نے دہشت گردی کو خارج ازمکان قرار دیتے ہوئے حادثے کو خالصتاً فنی خرابی کا نتیجہ قرار دیا۔ یہ ایک انتہائی افسوس ناک واقعہ ہے اور امید کی جانی چاہیے کہ عالمی برادری پاکستان کے ساتھ تعاون کرے گی اور اس کے نتیجے میں ہمارے ملک میں سفیروں اور سیاحوں کی آمد متاثر نہیں ہوگی۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں دنیا کے بہترین تفریحی مقامات موجود ہیں۔ درحقیقت فطرت اپنی تمام تر خوبصورتی کے ساتھ یہاں جلوہ گر ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کا کھوج لگاتے ہوئے غیر ملکی سیاحو ں کی آمد کو یقینی بنایا جائے۔ پاکستان میں سیاحت کی صنعت سے رقم کمانے کے امکانات موجود ہیں، بس ان علاقوں میں سیاحت کو بہتر خطوط پر منظم کرنے کی ضرورت ہے۔ دنیاکے بہت سے ممالک معمولی مقامات کے ساتھ کچھ سہولیات فراہم کرتے ہوئے سیاحت کے میدان میںہم سے کہیں زیادہ رقم کماتے ہیں۔
اکیس سال پہلے راولپنڈی کے چکلالہ ایئرپورٹ کے ایک وی آئی پی کمرے میںپانچ سفارت کار جمع تھے۔ اُنھو ں نے پاک فضائیہ کے C-130 ہرکولیس پر سوار ہوکر افغانستان کے صوبے ، ہرات جانا تھا۔ اس سے پہلے1988ء میں جنرل ضیاالحق کے ساتھ امریکی سفیر، مسٹر رافیل، بہاولپور کے نزدیک ہونے والے ہوائی حادثے میں ہلاک ہوچکے تھے۔ تاہم مذکورہ پانچوں سفارت کار کسی فکر و وہم کو دل میں جگہ دینے کے قائل نہ تھے۔ وہ انیس اکتوبر 1994ء کو علی الصبح C-130 میں سوار ہوئے۔ مسافروں میں امریکی سفارت کار، جان منجو (John Monjo) کے علاوہ سپین، جاپان، فرانس، جرمنی اور چین کے سفارت کار شامل تھے۔ وہ سب گورنر ہرات ، اسماعیل خان کی دعوت پر جنگ سے متاثرہ افغانستان کا ایک روزہ دورہ کررہے تھے ۔ اس دورے کا اہتمام بے نظیر بھٹو کے وزیر ِ داخلہ نصیر اﷲ بابر نے کیا تھا۔ میڈیا سے تعلق رکھنے والی واحد عورت میں تھی۔ ایک دن پہلے میں نے نصیر اﷲ بابر سے بہت دوٹوک انداز میں بات کی تھی کہ میں بھی ان کے ساتھ جانا چاہتی ہوں۔ میں نے ان کی تسلی کے لیے وعدہ کیا کہ میں سر سے پائوں تک پورا جسم ڈھانپنے کے لیے ایسی موٹی چادر اوڑھوں گی جس میں صرف آنکھوں کے لیے ہی دو سوراخ ہوں گے کیونکہ افغان اس طائفے میںکسی لبرل عورت کی موجودگی پسند نہیں کریں گے۔میں جانتی تھی کہ ''افغان ‘‘ سے مراد گورنر ہرات خود تھے۔
جنرل بابر اور دفتر ِخارجہ نے چھ عالمی طاقتوں اور انتہائی بااثر ممالک کے سفارت کاروں کا انتخاب کیا تھا۔ اس دورے کا مقصد جنگ زدہ ملک کے لیے Aid-to-Afghanistan کی مد میں ایک بلین ڈالر تک فنڈز حاصل کرنا تھا تاکہ اس کی تعمیر ِ نو ممکن بنائی جاسکے۔ ہم ہرات ایئرپورٹ پر اترے تو اندازہ کریں کہ کس شخصیت نے ہمارا استقبال کیا؟ یہ آئی ایس آئی کے کرنل امام تھے۔ ہو سکتا ہے کہ کچھ قارئین کو کرنل امام یاد ہوں۔ اُن کا اصل نام سلطان امیر تارڑ تھا۔ وہ اُس وقت ہرات میں کونسل جنرل تھے۔ مجھے ابھی تک وہ لنچ یاد ہے جو ہرات کے گورنر نے ہمیں دیا۔ اس کا اہتمام ایک پہاڑی چوٹی پر کیا گیا تھا۔ اردگرد بہت ہی خوبصورت پہاڑیاں اور وادیاں تھیں۔ غیر ملکی سفارت کاروں کو وہ جگہ بہت بھائی اور اُنھوں نے افغان مہمان نوازی کو بہت پسند کیا ۔ میں بھی بہت لطف اندوز ہورہی تھی لیکن لنچ کا سار ا مزہ اُس وقت کرکرا ہوجاتا جب ہر دو منٹ بعد کرنل امام بھاگتے ہوئے میری طرف آتے کہ میرے سر سے چادر سرک گئی ہے اور میرے بال گورنر صاحب کے لیے ''قابل ِ قبول ‘‘ نہیں ہوں گے۔میں ماحول سے لطف اندوز ہورہی تھی اور کرنل صاحب کی تشفی کے لیے چادر کو سرپر مزید کھنچ لیتی، لیکن کمبخت چادرتھی کہ بار بار کھسک رہی تھی۔ اُن دنوں حجاب کا رواج نہ تھا۔دنیا کے اس حصے میں گزوں طویل چادر ہی روایت نبھاتی تھی۔ کرنل امام ایک پُرلطف انسان تھے اور اُن کی موجودگی نے حاضرین کو بہت محظوظ کیا۔ وہ اور جنرل بابر دوست دکھائی دیتے تھے۔۔۔ اور آنے والے دنوں میں ان دونوں پر طالبان کو تخلیق کرنے کا الزام لگنے والا تھا۔ بہرحال طالبان کی تخلیق کی ایک طرح سے میں بھی گواہ تھی۔ ہمارا C-130 قندھار کی طرف پرواز کرگیا۔ وہاں سفارت کاروں کو ایک لیبارٹری میں لے جایا گیا جس میں تجرباتی طور پر مختلف پودے اور فصلیں اُگائی گئی تھیں۔ کوشش کی جارہی تھی کہ افغان کسان افیون کی بجائے یہ نفع بخش فصلیں کاشت کریں۔ مغربی سفارت کاروں نے بطور ِخاص اس منصوبے میںبہت دلچسپی لی کیونکہ افیون سے تیار ہونے والی ہیروئن کی آخری منزل ان کے ملک ہی ہوتے تھے۔ اُنھوں نے وعدہ کیا کہ اس پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے رقم فراہم کی جائے گی تاکہ افغان سرزمین سے پوست کا خاتمہ ہوسکے۔ جب ہم قندھار ایئرپورٹ واپس آئے تو شام کے سائے ڈھل رہے تھے۔ ہمیں اندھیرا گہرا ہونے سے پہلے ہی پرواز کرنی تھی کیونکہ ایئرپورٹ پر کوئی لائٹ نہیں تھی۔ اچانک سینکڑوں جنگجو قبائلی کہیں سے نکل آئے اور ہمیں گھیر لیا۔ اُن کے پاس راکٹ لانچر اور کلاشنکوف رائفلیں تھیں۔ ایک لمحے کے لیے تو میں خوف سے کانپ اٹھی اور کوشش کرنے لگی کہ چارد ہر گزنہ سرکے۔ تاہم جنرل بابر کو ان سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہوا۔ وہ مسکرائے اور ان کے لیڈران کے ساتھ مصافحہ کیا اور ان سے پشتو میں بات کی۔ ہم وہاں سے پرواز کرآئے۔ ایک ماہ بعد لفظ طالبان سے قندھار اور دیگر علاقوں کی فضا مرتعش ہونے لگی۔ بہت جلد وہ وقت آنے والا تھا جب اُنھوں نے انسانیت کا مستقبل اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کرنی تھی۔میں ان کے ابتدائی خدوخال دیکھ رہی تھی اور جنرل صاحب اُنہیں مسکراکر الوداع کہہ رہے تھے۔