میں نے اُس سے یہ کہا

بے نظیر بھٹو جب دوسری بار وزیر اعظم بنیں تو امریکہ میں اس وقت کے پاکستانی سفیر جمشید مارکر اپنے عہدے سے مستعفی ہونا چاہتے تھے۔ وہ کہتے ہیں، جب محترمہ سرکاری دورے پہ واشنگٹن آئیں تو ہمارے خصوصی اجلاسوں میں، جہاں ہم پاکستان کے قومی مفادات پر بات کرتے تھے، محترمہ کے ساتھ ان کے لابسٹ مارک سیگل اور دوست پیٹر گالبریتھ بھی موجود ہوتے تھے۔ جمشید مارکر کہتے ہیں، انہیں یہ بات قطعاً پسند نہیں تھی کیونکہ ان دونوں کی ان اجلاسوں میں موجودگی کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا۔ تاہم ان کی جانب سے اس ضمن میں کئے گئے تمام تر احتجاج کو یکسر نظر انداز کر دیا گیا۔ پانچ سال سے بھی زائد عرصہ پہلے ہم نے جمشید مارکر سے ایک انٹرویو لیا تھا۔ وہ باتھ آئی لینڈکراچی میں مقیم تھے۔ اس انٹرویو کے دوران بھی انہوں نے ایسی بہت سی باتیں ہمیں بتائیں۔ ہمیں امید ہے کہ اپنی نئی کتاب میں وہ ان سب باتوں کا ذکر ضرور کریں گے۔ تاریخ حکمرانوںکی شخصیت اور ان کے طرزِ حکمرانی کی داستان ہوتی ہے اور پاکستانی تاریخ کے بارے میں اس شخص سے بہتر اور کون لکھ سکتا ہے جو اس ملک کے دو صدور، سات وزرائے اعظم، تین فوجی سربراہوں اور متعدد وزرائے خارجہ کی خدمت کر چکا ہو۔حال ہی میں مارک سیگل جنرل مشرف کے خلا ف گویا ہوئے، اس سے پہلے کئی بار ان سے کہا گیا لیکن وہ ان کے خلاف بیان دینے سے معذرت کرتے رہے۔ آج وہ ان سب باتوں سے پردہ اٹھا رہے ہیں جو بے نظیر بھٹو نے انہیں بتائی تھیں۔ یہ کہ کس طرح جنرل مشرف نے انہیں دھمکیاں دی تھیں اورانہیں پاکستان لوٹنے کے نتائج سے متنبہ کیا تھا۔ باخبر افراد کہہ رہے ہیں کہ یہ سب کچھ بتانے کے لئے مارک سیگل نے یہ وقت اس لئے چنا ہے کہ اس میں ان کا ایک مقصد پوشیدہ ہے۔ ہمارے ایک مہربان نے جو اسلام آباد میں اعلیٰ ترین سطح کی شخصیات کے کافی قریب رہے ہیں، ہمیں ای میل کی جس میں وہ لکھتے ہیں، اس وقت کا چنائو در اصل (کسی سے) توجہ ہٹانے کا ایک حربہ ہے۔ مارک سیگل سے بیان دلوانے کا یہ شاندار آئیڈیا یقیناً آصف زرداری کا ہے۔ پلان ان کا یہ ہے کہ دبئی میں بیٹھے پی پی پی کے اس قائد سے فوج کی توجہ ہٹا دی جائے۔ زرداری صاحب کو شاید یہ خوف لاحق ہے کہ احتساب کا پھندہ ان کے گرد تنگ کیا جا رہا ہے۔ تجزیہ نگاری کے شوقین ایک اور صاحب کا کہنا ہے کہ فوج کے بڑوں کو شرمندہ کرنے کا یہ اچھا طریقہ ہے کہ انہی کے ایک ایسے ساتھی پر الزامات لگا دیے جائیں جوکبھی ان کا سربراہ بھی رہا ہے۔ 
مارک سیگل بے نظیر بھٹو کے قریبی ساتھی رہے ہیں۔ اپنی وزارت عظمیٰ کے دونوں ادوار میں محترمہ واشنگٹن میں لابنگ کے لئے انہیں باقاعدہ تنخواہ دیتی تھیں۔ اب یہ صاحب محترمہ کے قتل میں جنرل مشرف کے ملوث ہونے کی جانب کھلم کھلا اشارہ کر رہے ہیں۔ یہ نہایت سنگین الزام ہے۔ تجزیہ نگاری کے وہی شوقین صاحب کہتے ہیں، ہماری اس مملکتِ خداداد میں سب کچھ ممکن ہے، یہاں کرپٹ افراد لوگوں سے من چاہی گواہیاں لینے کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیتے ہیں۔ محترمہ جب سرکاری دورے پر واشنگٹن جاتی تھیں تو ان اجلاسوں میںمارک سیگل کا کوئی کام نہیں ہونا چاہئے تھا، جہاںکلاسیفائیڈ معلومات پر بات چیت ہوتی تھی۔ وہ سرکاری راز تھے جو ہر ایک کے سننے کے لئے نہیں ہوتے، اور کسی امریکی لابسٹ کے سننے کے لئے تو قطعی طور پر نہیں! بے نظیر کے لابسٹ کے طور پر جو تگڑی تنخواہ مارک سیگل وصول کرتے تھے، اس کی ادائیگی بھی پاکستانی حکومت کی جانب سے ہوتی تھی، اسی لئے جمشید مارکر کی پریشانی اور برانگیختگی بالکل جائز تھی اور وہ اسی وجہ سے ہی اپنا عہدہ چھوڑنے پر مجبور ہوئے ۔ کیوں نہ ایمبیسڈر ہیرالڈوموناز کو بھی بیان دینے کے لئے طلب کر لیا جائے؟ یہ وہی صاحب ہیں جو بے نظیر بھٹو کے قتل کے حقائق جاننے کے لئے آصف زرداری کے تقاضے پر بننے والے اقوامِ متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ تھے۔ جناب موناز نے اپنے دو''ماہر‘‘ ساتھیوں کی مدد سے ایک ضخیم رپورٹ مرتب کی تھی جس کا عنوان تھا: United Nations Commission of Inquiry into the facts and circumstances of the assassination of former Pakistani Prime Minister Mohtarma Benazir Bhutto. 
یہ رپورٹ اس قتل کے ذمہ داروں اور قاتلوں کی نشاندہی کرنے میں ناکام رہی تھی۔ البتہ اس کے اختتامی حصے میں وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے سر الزام دھرا گیا تھا کیونکہ ''محترمہ کے لئے کئے گئے حفاظتی انتظامات خطرناک حد تک ناکافی اور ناقص تھے‘‘۔ اقوامِ متحدہ کی اس رپورٹ پر پاکستانی حکومت کے لاکھوں کروڑوں روپے خرچ ہوئے لیکن اس میں کئی اہم سوالات بے جواب چھوڑ دیے گئے۔ اس وقت کے خارجہ سیکرٹری ریاض محمد خان اپنی ملازمت سے بھی اسی وجہ سے برخاست ہوئے کہ انہوںنے صدرِ مملکت کو پُر زور مشورہ دیا تھا کہ اقوامِ متحدہ سے اس ضمن میں مدد لینا بے سود ثابت ہوگا۔سو، مارک سیگل کو اگر گواہی کے لئے طلب کیا گیا ہے تو موناز کوبھی طلب کرنے میں کیا قباحت ہے؟ ہم نہیں جانتے کہ پاکستان میں کتنے لوگ ان کا Getting Away with Murder: Benazir Bhutto's Assassination and the Politics of Pakistan نامی مسٹری تھرلر پڑھے چکے ہیں۔ خود ہم نے بھی اسے تاحال نہیں پڑھا۔ تاہم یہاں ہم دو ایسے افراد کی رائے نقل کرنا چاہیں گے جو یہ کتاب پڑھ چکے ہیں۔ ایک نے لکھا ہے: ''یہ کافی دل چسپ کتاب ہے۔ آئی ایس آئی اور مقامی پولیس، جیسے اعلیٰ سطح کے پاکستانی حکام اورشدت پسند اسلام پرست گروہوں سمیت کئی ایک جہات کی جانب اشارے کئے گئے ہیں۔ تبصرے بھی اچھے ہیں لیکن آخر میں جو مبہم نتائج اخذ کئے گئے ہیں وہ کافی مایوس کن ہیں‘‘۔ دوسرے کی رائے یہ ہے: ''اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب میں تحقیق عمد ہ کی گئی ہے۔ میں نے یہ کتاب یہ جاننے کے لئے خریدی تھی کہ بے نظیر بھٹو کو قتل کس نے کیا تاہم مجھے یہ دیکھ کرکافی حد تک مایوسی ہوئی کہ یہ کمیشن بھی محترمہ کے قاتلوں کی شناخت نہیں کر سکا‘‘۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں