وزیر اعظم میاں نواز شریف نے ''"A Girl in the River: The Price of Forgiveness" نامی دستاویزی فلم کا پریمیئر اپنی کابینہ کے ارکان، سفیروں، میڈیا کے بڑے ناموں اور اپنی بیٹی مریم نواز اور بیٹے حسین نواز کے ہمراہ پی ایم ہائوس میں دیکھا۔ اس دستاویزی فلم کی پروڈیوسر شرمین عبید چنائے بھی وہاں موجود تھیں۔ اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ شرمین پاکستان کی بیٹی ہے۔ عورتوں کے حقوق کے لئے جدوجہد ہمیشہ مشکل رہی ہے لیکن عورتوں پر جبر کا کسی بھی صورت میں جواز نہیں ہو سکتا۔ عورتوں کو حقوق دلوانا حکومت کی ترجیح ہے اور ناموس کے نام پر قتل کے خلاف حکومت انتظامی اقدامات کرے گی۔ شرمین عبید چنائے کے چہرے پہ خوشی اور مسکان ظاہرکر رہی تھی کہ وہ اپنے پیشہ ورانہ سفر میں کافی آگے جا چکی ہیں اور اب ان کا شمار اپنے شعبے کے چوٹی کے افراد میں ہوتا ہے۔ ان کی فلم کو نہ صرف وزیر اعظم کی سپورٹ حاصل ہوئی بلکہ میاں صاحب نے یہ وعدہ بھی کیا کہ وہ ناموس کے نام پر ہونے والے قتل کے خلاف قانون بھی منظور کروائیںگے۔ ہم امید رکھتے ہیں کہ شرمین اس فلم کے لئے ایک اور آسکر ایوارڈ حاصل کر پائیں گی۔
شرمین عبید کے پیشہ ورانہ سفر پر ہم کافی عرصے سے نظر رکھے ہوئے ہیں۔ 2003ء میں انہوں نے اپنی پہلی دستاویزی فلم بنائی تھی۔ اس وقت وہ سٹین فورڈ یونیورسٹی میں صحافت کے شعبے کی طالبہ تھیں اور انہوں نے طالبان کے موضوع پر Reinventing the Taliban کے نام سے دستاویزی فلم تیار کی تھی۔ یہ کام نیویارک ٹائمز کی جانب سے انہیں دیا گیا تھا۔ وہ دستاویزی فلم چوّن منٹ کے دورانیے کی تھی جس میں پاکستان کے اندر اسلام کے نام پر بنیاد پرستی کے پریشان کن عروج کو بڑے ہی منفرد انداز میں ذاتی پہلو سے سامنے لایا گیا تھا۔ یہ وقت وہ تھا جب دنیا طالبان نامی خطرے سے پہلے پہل آگاہ ہو رہی تھی۔ آج کل تو گھر گھر اس کا چرچا ہے۔ شرمین اس لحاظ سے بھی داد کی مستحق ہے کہ پچیس سال کی کم عمر میں اور ایک طالبہ کے طو ر پر اس نے اپنے عملے سمیت پاکستان کے سرحدی خطے کے خطرناک ترین علاقوں کا سفر کرنے کی ہمت کی اور حوصلہ دکھایا؛ حالانکہ اسے شدید خطرات سے آگاہ بھی کر دیا گیا تھا۔ ہمیں علم نہیں کہ پاکستان میں وہ دستاویزی فلم دکھائی گئی تھی یا نہیں لیکن ہم اس وقت چونکہ امریکہ میں مقیم تھے اس لئے ہم نے وہ دیکھ لی تھی۔ اس دستاویزی فلم میں ہم نے شرمین کو ایم ایم اے(متحدہ مجلس عمل) کی قیادت کا انٹرویو کرتے دیکھا۔ اس وقت صوبہ سرحد میں ایم ایم اے کی حکومت تھی اور خیبر پختونخوا (اس وقت صوبہ سرحد) میں ان کی حکومت تھی۔ وہیں شرمین نے اس بنیاد پرست تحریک کے حامیوں، جن میں قائدین اور کارکنان سبھی شامل تھے، ملاقاتیں کیں۔ ایم ایم اے کے عوامی جلسے سے لے کر، جس میں بے شمار لوگ شریک تھے، ایک بڑی اسلحہ مارکیٹ تک کی جھلکیاں اس فلم میں دکھائی گئی تھیں، جن سے طالبان کے مماثل تحریک کے ارتقاء کی عکاسی ایک منفرد انداز میں ہو رہی تھی۔ ایم ایم اے کے لیڈر کھلم کھلا اپنے مقاصد کا اظہار کر رہے تھے کہ کس طرح وہ طالبان کے نمونے پر ایک روایتی اسلامی معاشرہ تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ وہ عورتوں پر جبر، محدود شہری آزادیوں اور امریکہ مخالف پالیسیوں پہ کس قدر یقین رکھتے ہیں۔
فروری 2004ء میں ہم نے ایک ہم عصر انگریزی روزنامے میں شرمین چنائے کی اس دستاویزی فلم پر ایک تبصرہ لکھا تھا۔ ہماری حیرت یہ تھی کہ شرمین نے ایم ایم اے کے ان متعدد باریش لیڈروں سے یہ سوال کیوں نہیں کیا کہ اپنے اقتدار کے ان پندرہ مہینوں میں انہوں نے اُن بیس ملین ووٹروں میں سے کتنوں کے خواب پورے کئے جنہوں نے روٹی کپڑے مکان اور ملازمتوںکی فراہمی کے لئے ان کے وعدوں پر یقین کر کے سیاسی طور پر انہیں دوبارہ زندہ کر دیا تھا۔ ہمارا سوال یہ تھا کہ عورتوں کو جانور سمجھتے ہوئے انہیں بند کر کے، موسیقی پر پابندی لگا کر اور اشتہاروں سے لڑکیوں کے چہرے مٹا کر کیا چھ جماعتوں پر مشتمل ایم ایم اے کے مولویوں نے بلوچستان اور صوبہ سرحد کو کسی ایسی خوابوں کی سرزمین میں بدل دیا ہے جو اس قابل ہو کہ اس کی مثال کہیں اور بھی قائم کی جا سکے؟ اس سلسلے کو بالکل جاری نہیں رہنے دینا چاہئے۔ پشاور میں مقیم ایک مقامی سوشل ورکر (اے این پی کی سینیٹر) بشریٰ گوہر نے اس فلم میں شرمین چنائے کو بتایا کہ کسی کو ہمیں یہ سکھانے کی ضرورت نہیں کہ ہمیں اسلام پر کیسے عمل کرنا چاہئے۔ یہ ان کا کام ہی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اپنا سر کبھی نہیں ڈھانپوں گی۔ اسلام یہ نہیں کہتا کہ ایسا کرنا لازمی ہے۔ اگر ایم ایم اے والوں نے مجھے سر ڈھانپنے کا کہا تو میں مزاحمت کروں گی۔ ہماری شہری آزادیاں خطرے میں ہیں‘‘۔
بشریٰ گوہر نے اپنی باتیں بڑے بے باکانہ انداز میں کہی تھیں۔ یہ فلم امریکہ میں ڈسکوری ٹائمز چینل پر نشر ہوئی جسے لاکھوں افراد نے دیکھا۔ اس دستاویزی فلم میں بہترین بات لاہور کی ایک ماڈل نے کہی تھی۔ اس کہا کہنا تھا کہ شریعت کو عورتوں پر مرکوز کیا جا رہا ہے ۔ اسلام صرف عورتوں کے گرد نہیں گھومتا۔ اس کے برعکس ایم ایم اے کی ایک خاتون رکنِ اسمبلی رضیہ عزیز کی یہ رائے تھی کہ اسلا م عورتوں کے گرد ہی گھومتا ہے۔ اپنی جماعت کے ساتھ وفاداری میں وہ اس کا دفاع ایسے جوابات کے ساتھ کر رہی تھیں جن میں عجلت کا عنصر واضح تھا۔ تاہم جب مرد اور خواتین اراکین اسمبلی کے موازنے کی بات آئی تو انہیں یہ تسلیم کرنا پڑا کہ ان کا مردوں پہ کوئی اختیار ہی نہیں۔ بقول ان کے: ''مردوں کا رویہ ہمارے حوالے سے سنجیدہ ہوتا ہی نہیں۔ وہ خود کو برتر سمجھتے ہیں اور وہ برتر ہیں بھی کیونکہ اللہ نے ایسا ہی لکھا ہے۔ عورتیں زیادہ جذباتی ہوتی ہیں۔ ہمیں الگ اسمبلیوں اور الگ سپیکرز کی ضرورت ہے‘‘۔
اس فلم میں زیادہ تر شمال مغربی سرحدی صوبے میں جنونی حد تک طاری عصبیت کے ماحول کی تفصیل بتائی گئی۔ سڑکوں پہ ہر طرف مرد ہی مرد دکھائی دیتے ہیں اور انہی کے بیچ سرخ شلوار قمیص میں ملبوس اورہم رنگ مگر اپنے وجود کے لئے ناکافی دوپٹہ لئے شرمین عبید بھی چلتی پھرتی نظر آتی ہے۔ مرد اپنی خطرناک نظروں سے اسے گھورتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں لیکن ایسے ہی شوخ لباس میں وہ درہ آدم خیل میں اسلحے کا معائنہ کرتی ہے۔ اکثر پاکستانی خواتین کو یہ کچھ کرتے ہم عام طور پر نہیں دیکھ سکتے؛ تاہم شرمین نے طالبان کی ایجادِ نو کے طور پر ایم ایم اے کے اصلی چہرے کو بے نقاب کرنے کے لئے بہادری دکھائی۔ طالبان کی کھیپ در کھیپ تیار کرنے والے دارالعلو م حقانیہ کے سربراہ سمیع الحق کے ساتھ اس نے دو نشستوں میں ملاقات کی۔ دونوں کے درمیان ہونے والی بات چیت سب سے زیادہ دل چسپ تھی۔ شرمین نے سمیع الحق سے مخلوط طرزِ تعلیم، برقع کے فیشن اور خواتین کے کام کرنے پر پابندیوں سے متعلق ان کی رائے جاننے کے لئے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے تھے، لیکن مولانا صاحب ان سوالات سے کافی محظوظ ہوتے نظر آئے۔ شرمین نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ آج سے پانچ سال بعد اگر آپ عورتوں کے حوالے سے طالبان جیسے فتوے نافذ کرنے میں کامیاب رہے تو کیا میں پھر کام کر سکوں گی یا پھر آپ کا یوں انٹرویو کرنا میرے لئے ممکن ہوگا؟ مولانا نے بھی جواباً زیرِ لب مسکراتے ہوئے انہیں قدرے طنزیہ انداز میں کہا کہ ''آپ کو اپنی بڑی فکر ہے، لیکن پریشان نہ ہوں، اللہ نے آپ کو امریکہ میں جگہ دی ہوئی ہے‘‘۔ مولانا صاحب خود اکوڑہ خٹک کے اپنے مدرسے میں طالبان کی سرپرستی کرتے رہے ہیں لیکن ا مریکیوں کے حوالے سے کافی برانگیختگی کا اظہار فرما رہے تھے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ امریکی طالبان کو بدنا م کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا: ''یہ خالص پروپیگنڈا ہے جو اسلام کو مٹانے کے لئے کیا جا رہا ہے۔ سیکولرازم اور امریکہ ہمارے لئے قابلِ قبول نہیں۔ مذہب حکومت سے الگ نہیں۔ ترقی پسند اسلام بھی ناقابلِ قبول ہے‘‘۔ شرمین عبید چنائے کا کہنا تھا کہ اس دستاویزی فلم کی تیاری میں انہیں تدوین کی پوری آزادی دی گئی تھی۔ وہ اس بات کی تردید کرتی ہیں کہ ان کی فلم پاکستان مخالف ہے۔ وہ کہتی ہیں: ''میرے وطن میں کئی باتیں ایسی ہیں جو غلط ہیں اور مجھے ان کے بارے میں بولنا ہوگا کیونکہ اگر مجھ جیسے تعلیم یافتہ لوگوں نے چپ سادھے رکھی تواس میں ہمارے وطن کا ہی نقصان ہے‘‘۔
اس وقت صرف ایک ہی بات پر ہم نے تنقید کی تھی اور وہ یہ کہ اس فلم کی سکریننگ پاکستان میں کرنے کی بجائے شرمین عبید چنائے نے اس کے لئے بھارت کا رخ کیا تھا۔