قابلِ فخر مائیں

ہمارے مرد قارئین کو ہماری ایک بات غور سے سننا چاہئے۔ اپنی مائوں میں ایک احساسِ تفاخر جگائیں، اس لئے نہیں کہ آپ ایک کامیاب زندگی گزار رہے ہیں، بلکہ اس لئے کہ آپ کی اس کامیاب زندگی کا سبب آپ کی ماں ہے۔ آپ کو کامیابی کی راہوں پہ گامزن کرنے کے لئے اس نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ بڑے پیار اور دُلار کے ساتھ اس نے آپ کو پروان چڑھایا، اس امید کے ساتھ کہ ایک دن حوصلے اور اعتماد کے ساتھ آپ بھی ایک اونچی اڑان اڑیں گے۔ کچھ ''کر سکنے‘‘ کی روح اسی نے آپ میں جگائی تاکہ جب ناکامیوں سے آپ کا سامنا ہو تو ان کے آگے ڈھیر ہونے کی بجائے آپ گرنے کے بعد اٹھ کر اپنے کپڑے جھاڑ کر دوبارہ بہادری کے ساتھ خطرات سے نبرد آزما ہو جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہر سال ہم مائوں کا دن مناتے ہیں۔ سو ہم اپنے قارئین سے، چاہے وہ کسی کے بیٹے ہیں یا بیٹیاں، استدعا کرنا چاہیں گے کہ وہ ہمیشہ کے لئے اپنی مائوں کے دل میں ان کے خاص ہونے کا احساس ڈال دیں۔ اس دفعہ مائوں کا عالمی دن یعنی مدرز ڈے آٹھ مئی بروز اتوار منایا جا رہا ہے۔ جائیں اور اپنی مائوں یا پھر نانیوں کو گلے لگائیں۔ وہی آپ کی زندگی کی حقیقی ہیروئنیں ہیں۔ ویسے‘ یہ بھی یاد رکھیں کہ مردوں کے رونے میں کوئی برائی نہیں۔ آنکھوں میں جب بھی آنسو آئیں تو انہیں بہانے سے جھجھکنا نہیں چاہئے۔ کیا مرد روتے ہیں؟ اس ضمن میں بارک اوباما کی مثال ملاحظہ کیجئے۔ 2008ء میں جب وہ صدارتی انتخاب لڑنے والے تھے تو انتخاب سے چند گھنٹے قبل ہی ان کی نانی کے انتقال کی خبر آ گئی۔ اس وقت وہ اپنی انتخابی مہم چلا رہے تھے۔ ان کی نانی کی وفات سرطان سے ہوئی تھی۔ اپنی انتخابی مہم کی تقریروں میں انہوں نے اس کا بھی ذکر کیا۔ تصویروں ان کے رخساروں پہ آنسو کے قطرے دیکھے جا سکتے ہیں۔ بارک اوباما نے اس وقت کو اپنی زندگی کا تلخ و شیریں لمحہ قرار دیا تھا۔ ان کے لہجے اور چہرے پہ ایک باوقار اداسی چھائی ہوئی تھی۔ ان کے سامنے کھڑا ہجوم ان کے جذبات کو سمجھ رہا تھا۔ وہاں کھڑے ہر مرد و زن کی پوری کوشش تھی کہ اوباما کی پوری طرح دل جوئی کی جائے۔ وہ لوگوں کو اپنی نانی میڈلین ڈنھیم کی زندگی کی داستان بتا رہے تھے۔ وہ بڑا ہی دردناک لمحہ تھا کیونکہ وہ عورت جس نے بارک اوباما کی پرورش کی تھی، وہ ان کی صدارت کے آغاز سے چند گھنٹے قبل اس دنیا سے کُوچ کر گئی۔ اوباما کہہ رہے تھے: ''کل (یعنی چار نومبر، 2008ء کو جو بھی ہو، اس مہم کے شاندار ہونے کی مجھے خوشی رہے گی جس کے لئے آپ سب نے اس قدر زبردست تیاری کی ہے۔ میری نانی ہمیں داغِ مفارقت دے گئی ہیں، دوران نیند ان کی حرکتِ قلب بند ہو گئی تھی۔ میری بہن ان کے ساتھ ہی تھی۔ سو مجھے خوشی بھی ہے لیکن ساتھ ہی غم کے آنسو بھی بہہ رہے ہیں۔ میں اس بارے میں زیادہ دیر بات نہیں کروں گا‘ کیونکہ اس وقت اس بارے میں بات کرنا میرے لئے مشکل ہو رہا ہے؛ تاہم، میں یہ ضرور چاہوں گا کہ ہر کسی کو ان کے بارے میں کوئی نہ کوئی بات ضرور معلوم ہو۔ وہ ایک بہت ہی منکسرالمزاج خاتون تھیں۔ وہ بڑی سادہ زبان میں بات کیا کرتی تھیں۔ وہ امریکہ بھر میں ہر طرف بکھرے لاکھوں کروڑوں خاموش گمنام ہیروز کی طرح تھیں‘ جو مشہور نہیں ہوتے، جن کے نام اخباروں میں نہیں چھپتے لیکن ہر روز، ہر دن وہ محنت کرتے ہیں، اپنے اہلِ خانہ کا خیال رکھتے ہیں۔ اپنے بچوں اور آگے پھر ان کے بچوں کے لئے قربانیاں دیتے چلے جاتے ہیں۔ انہیں لائم لائٹ میں آنے کی خواہش نہیں ہوتی۔ انہیں بس یہی فکر ہوتی ہے کہ ان کا ہر قدم درست رہے۔ اس ہجوم میں بھی کئی ایسے لوگ موجود ہوں گے، ایسے ماں باپ، نانا نانی، دادا دادی جنوں نے محنت کر کے، ملازمتیں کرکے قربانیاں دی ہیں۔ انہیں اطمینان بس اسی بات کا چاہئے ہوتا ہے کہ ان کے بچے اور یا پھر ان کے بھی بچے اس زندگی سے بہتر ایک زندگی گزار پا رہے ہیں جو خود انہوں نے گزاری۔ یہی اصلی امریکہ ہے، یہی وہ چیز ہے جس کے لئے ہم جدوجہد کر رہے ہیں۔ ہمارے مرد قارئین شاید اس کالم کے مندرجات کو دقیانوسی سمجھ کر نظر انداز کر دیں، لیکن یاد رکھیں کہ یہ دقیانوسی باتیں نہیں، ہم ذکر کر رہے ایک نو منتخب امریکی صدر کا اور اس ماحول کا جس میں اس نے پرورش پائی تھی۔ کیا آپ نہیں جاننا چاہیں گے کہ وہ کون سے عوامل تھے‘ جو اس سیاہ فام یتیم و یسیر بچے کو دنیا کا طاقت ور ترین آدمی بنانے کا محرک بنے؟ اس کی کامیابیوں کے پیچھے اصل ہاتھ اس کی سفید فام نانی کا تھا۔ اپنے نانا، نانی اور دادا، دادی کو ہم لوگ طاقِ نسیاں پہ چھوڑ دیتے ہیں‘ اور سمجھتے ہیں کہ یہی ان کا مقام ہے، خود ہم نئی اور پُرکشش چیزوں کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔ مائوں کے ساتھ بھی، خاص طور پر جب وہ بوڑھی ہو جائیں، یہی سلوک کیا جاتا ہے۔ انہیں بس ایک خاندانی یادگار کے طور پر ایک طرف محفوظ کر لیا جاتا ہے۔ کتنی کوتاہ بینی ہے! پاکستانی مردوں کو یہ بات تسلیم کرنے میں بڑی عار محسوس ہوتی ہے کہ اپنی زندگیوں میں انہوں نے جو کچھ بھی حاصل کیا ہے‘ اس کے پیچھے ان کی مائوں کی محنت اور قربانیاں تھیں۔ شاذ ہی ہمیں ایسا کوئی مرد دکھائی دیتا ہے جو بلندی پر پہنچا ہو اور پھر کسی مجمع کے سامنے اس نے اپنی ماں کے لئے کسی قسم کے تشکر کا اظہار کیا ہو۔ امریکی مرد اس حوالے سے مختلف رویہ رکھتے ہیں۔ اپنے بلند مقام کا سہرہ اپنی ماں کے سر باندھتے ہوئے ہمیشہ ان کی آنکھیں بھر آتی ہیں، وہ جذباتی ہو جاتے ہیں۔ پھر بھی افسوس کی بات یہ ہے کہ اوباما کی جیت کی خوشی وہ خاتون نظر انداز ہو گئی جو ستائش کی مستحق تھی۔ اپنے نواسے کے لئے امریکی صدارت پہ متمکن ہونا‘ اسی نے ممکن بنایا تھا۔ چاکروں کی طرح کام کر کے وہ اپنی اور اپنے ان دونوں نواسوں کی گزر بسر کا بندوست کرتی تھی‘ جسے ان کی ماں بچپن میں ہی چھوڑ گئی تھی۔ 'ہاف اینڈ ہاف‘ ایک کتاب ہے، اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو اندازہ ہو سکے گا کہ بچپن کے زمانے میں ایک سفید فام عورت کے سیاہ فام بچے کے طور پر اوباما نے کس قدر ذلتوں کا سامنا کیا ہو گا۔ ذرا تصور کیجئے کہ ہر بار جب اوباما کو ''ملاٹو‘‘ یعنی دو رگہ کہہ کر اس کی دل آزاری کی جاتی تو کس طرح ان کی یہ سفید فام نانی دروازے میں بانہیں پھیلائے انہیں اپنی آغوش میں لینے کے لئے منتظر کھڑی ہوتی تھی۔ ملاٹو یعنی دو رگہ ایسے آدمی کے لئے تحقیر کے لفظ کے طور پر استعمال ہوتا ہے جس کے والدین میں سے ایک سیاہ فام ہو اور دوسرا سفید فام۔ اوباما کی ماہ سفید فام تھی‘ اور باپ سیاہ فام! تصور کیجئے اس دور کا جب یہ مختصر سا گھرانہ ہوائی میں مقیم تھا۔ اوباما کی نانی کو اپنے پڑوسیوں سے ضرور تعصب کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ سفید فام لوگ سیاہ فام لوگوں کے ساتھ ملنا جلنا پسند نہیں کرتے ہیں۔ میڈلین اور ان کا شوہر‘ دونوں سفید فام تھے‘ لیکن ان کا نواسہ سیاہ فام تھا۔ فتح کے بعد شکاگو میں اوباما نے جو تقریر کی تھی‘ اس نے لوگوں میں کئی ایسے جذبات جگا دیئے تھے جو اس سے قبل ساکت و خوابیدہ پڑے تھے۔ اس آدمی میں کچھ ایسی بات تھی جس سے ان تارکینِ وطن کی ہمت، حوصلہ اور جدوجہد اجاگر ہو رہی تھی‘ جو اپنے وطن چھوڑ کر خوابوں کی تعبیر پانے امریکہ کا رخ کرتے ہیں۔ گزشتہ دنوں ہمارا بھی امریکہ میں ایک ایسے تارکِ وطن سے ای میل پہ رابطہ رہا جس کی داستان بہترین داستانوں میں سے ایک ہے۔ ہم نے انہیں لکھا: ''کئی لحاظ سے اوباما کی کامیابی ہمیں آپ کی طویل جدوجہد کی یاد دلاتی ہے۔ اس بات کی ہمیں بے حد خوشی ہے کہ آپ کے والدین پہلے سے اس کامیابی کا اندازہ کر چکے تھے‘ جس کی جانب آپ رواں دواں تھے؛ تاہم دکھ اس بات کا ہے کہ آپ کی والدہ کو زندگی نے مہلت نہیں دی اور وہ آ پ کو نسلی حد بندیوں کو پار کر کے بلند ترین سطح پہ پہنچتے ہوئے نہ دیکھ سکیں‘‘۔
یومِ مادر کے انتظار کی ضرورت نہیں، ابھی جا کر اپنی ماں اور نانی کو گلے لگائیں۔ وہ آپ کی زندگی کی ہیروئنیں ہیں۔ ویسے یہ بھی بتا دیں کہ مرد اگر رو لیں تو یہ کوئی بری بات نہیں، جائیں، آگے بڑھیں اور اگر آنکھوں میں آنسو آتے ہیں تو انہیں بہنے دیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں