ایک دہکدئہ اولمپک کی بازدید

1976ء کے مونٹریال اولمپکس میں پاکستان نے پہلی بار فیلڈ ہاکی ایک مصنوعی گھاس سے تیار شدہ میدان میں کھیلی تھی جسے ہم آج ایسٹرو ٹرف کہتے ہیں۔ اس کھیل میں ہم سونے کا تمغہ نہیں جیت پائے تھے لیکن کانسی کا تمغہ ہمیں مل گیا تھا۔ کوئی تیس برس پہلے ہم ایک بار پھر اسی سٹیڈیم گئے جہاں کینیڈا نے موسمِ گرما کے ان اولمپکس کی میزبانی کی تھی۔ اس روز بارش تھی اور تیز ہوا بھی چل رہی تھی‘ اور وہ سٹیڈیم ویرانی کا منظر پیش کر رہا تھا۔ بڑھی ہوئی گھاس اور جگہ جگہ اگی جڑی بوٹیوں نے وہاں ہمارا خیر مقدم کیا تھا۔ ہمارے ذہن میں ماضی کی کئی ایک یادیں تازہ ہو گئی تھیں۔ ہمیں روم (1960ئ) میکسیکو (1968ئ) اور لاس اینجلس (1984ئ) کے اولمپکس کی یاد آئی جب پاکستانی ہاکی کا ایک سنہری دور چل رہا تھا۔ فتح و کامرانی کی وہ کہانیاں ہمیں یاد آنے لگی تھیں‘ جو ہم نے اے آئی ایس دارا کی زبانی سنی تھیں۔ دارا صاحب طویل ترین عرصے تک ہماری ہاکی ٹیم کے منیجر رہے اور وہ خود بھی ایک گولڈ میڈلسٹ تھے۔ ان کے گولڈ میڈل کی داستان ہم آگے چل کر آپ کو سنائیں گے۔ مونٹریال کے اس اولمپکس سٹیڈیم میں بارش کی بوندیں پھر سے برسنے لگی تھیں اور ہم تصور کے پردے پہ ہرے بلیزرز میں ملبوس پاکستانی وفد کی آمد کا منظر دیکھ رہے تھے۔ وفد کے قائد نے جناح کیپ سر پہ رکھی ہوئی تھی اور ایک احساسِ فخر کے ساتھ قومی پرچم بھی تھاما ہوا تھا۔ ہمیں اپنے کانوں میں علی دارا کی آواز سنائی دینے لگی ''میرے لڑکوں پہ رات دس بجے کے بعد کرفیو نافذ ہو جاتا تھا‘‘۔ ہر بار جب پاکستانی ہاکی ٹیم اولمپکس میں شریک ہوتی تو علی دارا سونے کا 
تمغہ جیتنے کے لئے ''اپنے لڑکوں‘‘ سے خوب محنت کرواتے۔ 1976ء میں جب وہ مونٹریال اولمپکس سے لوٹے تو کسی قدر مایوس تھے کہ ان کی ٹیم سونے کا تمغہ جیت نہیں پائی‘ پھر وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ ''کوئی بات نہیں، اگلا موقع انسان کو ہمیشہ میسر ہوتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا تھا: ''میرے لڑکوں کو مصنوعی گھاس پہ کھیلنے کی عادت نہیں‘ اس کے باوجود وہ جیت کی لگن کے ساتھ کھیلے اور جیت بھی گئے۔‘‘ وہ ہماری کم سنی کا دور تھا اس لئے کھیل کی تکنیکی گہرائیوں سے ہمیں کوئی دل چسپی نہیں تھی۔ ہمیں ان چند ''آزاد رو‘‘ کھلاڑیوں کے بارے میں کہانیاں سننا زیادہ پسند ہوا کرتا تھا جنہیں اپنی حرکتوں کی بدولت منیجر کی جانب سے ''نظر بندی‘‘ کی سزا بھگتنا پڑتی تھی۔ علی دارا کہتے تھے کہ ''ایک دو لڑکے ہوتے ہیں ایسے جنہیں ہلّہ گلّہ کرنا پسند ہوتا ہے۔ یہی لڑکے دس بجے کے کرفیو کی خلاف ورزی بھی کرتے تھے؛ تاہم، انہیں سخت سزا دینے کی بجائے میں ہمیشہ انہیں نرمی سے سمجھانے کو ترجیح دیتا تھا اور میری کوشش ہوتی تھی کہ وہ خود بہتر طور پر معاملے کو سمجھ لیں۔ یہ نسخہ دس میں سے آٹھ بار کارگر ہی ثابت ہوا ہے۔‘‘ مونٹریال کے اس سیٹیڈیم کو اپنی گول دائروی ساخت کی بدولت "The Big O" کہا جاتا تھا۔ اس کی چھت کی تعمیر پہ شہر کو 1.48 بلین ڈالر کی لاگت اٹھانا پڑی تھی اور اس رقم کی واپسی میں تیس برس کا عرصہ لگا۔ کینیڈا میں کھیلوں کے ایک شائق کا کہنا تھا کہ اولمپکس تو ہر بار ہی سحر انگیز ہوتا ہے لیکن ہمارے یہاں منعقد ہونے والے اولمپکس میںکمانچی بھی تھے، باکسنگ میں سپنکس برادران تھے اور شوگر رے لیونارڈ بھی۔ یہ سب جدید اولمپکس کے عظیم الشان ہیروز ہیں۔ رومانیہ کی نوجوان جمناسٹ نادیہ کمانچی پاکستانیوں کو بھی اچھی طرح سے یاد ہے۔ مانٹریال اولمپکس کا وہ ایک روشن ستارہ تھی۔پورا دس سکور کر کے اس نے ایک تاریخ رقم کی تھی۔ دہکدئہ اولمپک یعنی اولمپک ویلج بھی ایک اور قابلِ دید مقام ہے۔ انیس منزلوں کی دو بلند و بالا عمارتوں میں ارد گرد کے ٹیرسوں میں گھرے نو سو اسی اپارٹمنٹس ہیں۔ یہ لگژری اپارٹمنٹس اب کرائے پہ دیے گئے ہیں۔ علی دارا کہتے تھے کہ یہاں قیام کے دوران ہر رات اس امر کو یقینی بنانے کے لئے لڑکوں کی حاضری لی جاتی تھی کہ وہ ''کرفیو‘‘ کے وقت تک اپنے کمروں میں جا چکے ہوں۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہماری ہاکی ٹیم کس طرح نظم و ضبط، ٹیم سپرٹ اور قواعد کی پاسداری کرکے عروج کو پہنچی تھی۔ دارا صاحب کا پورا نام علی اقتدار شاہ دارا تھا۔1936ء کے برلن اولمپکس میں انہوں نے غیر منقسم ہندوستان کی نمائندگی کی تھی۔ وہ ہاکی ٹیم کے کپتان تھے۔ ان کی قیادت میں اس ٹیم نے جرمنی کو ایک کے مقابلے میں آٹھ گول کی برتری سے شکست دے کر سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ جرمنی کے نازی حکمران 
ایڈولف ہٹلر نے بھی وی آئی پی سٹینڈ میں بیٹھ کر یہ میچ دیکھا تھا۔ آج اسی برس بعد بھی دارا خاندان کے مکان کے لونگ روم میں وہ پرانی تصویر آویزاں دیکھی جا سکتی ہے جس میںعلی دارا ہٹلر سے سونے کا تمغہ وصول کر رہے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہٹلر کو بذاتِ خود کھیلوں کا کوئی زیادہ شوق نہیں تھا اور اسی لئے 1936ء کے اولمپکس کی جرمنی میں میزبانی کرنے میں بھی انہیں کوئی زیادہ دل چسپی نہیں تھی؛ تاہم ان کے پروپیگنڈا کے وزیر جوزف گوئبلز نے انہیں قائل کر دیا تھا کہ اولمپکس کو جرمنی اور جرمنی سے باہر نازی مقاصد کی ترویج کے موقع کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ جرمن یہودیوں کی تطہیر کا سلسلہ ہٹلر نے ان اولمپکس سے انہیں باہر رکھ کر شروع کیا تھا۔ ان کی نسل کشی اور باقاعدہ ایک نظام کے تحت ان پہ ظلم و تشدد کا عمل جاری تھا۔ نتیجتاً ساٹھ لاکھ کے قریب یہودی گیس چیمبروں کی نذر ہو گئے تھے۔ فاسٹ فارورڈ کرکے سن دو ہزار سولہ کے ریو اولمپکس کی طرف آتے ہیں۔ ایک ہم عصر انگریزی روزنامے کے سپورٹس رائٹر انور زبیری نے حال ہی میں 'Pakistan owes its Olympic glory to hockey teams' کے عنوان کے تحت ایک کالم لکھا ہے۔ اسے پڑھ کر محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں ہاکی کس قدر افسوسناک طریقے سے زوال پذیر ہوئی ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ پاکستان کھیلوں کی تاریخ کے تاریک ترین وقت سے اس وقت گزرا جب اس کی قومی ہاکی ٹیم تاریخ میں پہلی بار اولمپکس کے لئے کوالیفائی کرنے میں ناکام رہی۔ یعنی ہماری ہاکی ٹیم ریو اولمپکس کے لئے کوالیفائی ہی نہیں کر سکی۔ انور زبیری نے اپنے تجزیے میں بڑی تفصیل کے ساتھ انیس سو چھپن سے لے کر انیس سو بانوے تک کے ان چھتیس برس کا 
جائزہ پیش کیا ہے جب پاکستان فتح کے سنگھاسن پہ براجمان ہوتا رہا تھا۔ اور اب ہماری ہاکی کا حال دیکھئے! گولڈ میڈلسٹ عبدالوحید خان کی اس یک فقری بات میں پوری سچائی سموئی ہوئی ہے کہ ''یہ ایک ناقابلِ یقین بات ہے، کوئی پاکستانی یقین نہیں کر سکتا کہ ہری قمیضوں والے اس قدر پاتال میں اتر جائیں گے اور ایک الگ طور کی تاریخ رقم کر دیں گے۔‘‘ بوسٹن کے اٹلانٹک میگزین کے گلوبل ایڈیٹر یوری فرائیڈمین لکھتے ہیں کہ ایک سو نوے ملین آبادی کے ساتھ پاکستان چھٹا بڑا ملک ہے۔ ''بغیر کسی میڈل کے برازیل سے رخصت ہونے والے بڑی آبادی کے ممالک میں پاکستان اول نمبر پہ ہے۔ اس سے بھی بُری بات یہ ہے کہ اس سال کے اولمپکس میں پاکستان کے کھلاڑیوں کا وفد بھی مختصر ترین تھا۔ اس وفد میں صرف سات ایتھلیٹس شامل تھے، جبکہ ساتھ جانے والے اہلکاروں کی تعداد اس سے دوگنا تھی۔ پاکستان چوبیس سالوں میں کوئی ایک اولمپک میڈل بھی نہیں جیت پایا ہے۔‘‘ امریکہ میں چرچے کے لحاظ سے ریو اولمپکس اور اگلے صدارتی انتخابات کی تیاریوں کے بیچ کانٹے کا مقابلہ رہا۔ ناگزیر طور پر ہم میں سے اکثر لوگ ہر روز ڈونالڈ ٹرمپ کی وطن پرستانہ اور زیادہ تر احمقانہ ٹویٹس بھی ملاحظہ کرتے رہے۔ کئی لوگ ان صاحب کو ایک اور ہٹلر قرار دیتے ہیں۔ ری پبلکن پارٹی کے اس صدارتی امیدوار نے ہمارے دماغ کی تمام تر آکسیجن ضبط کر رکھی ہے۔ اس کے باوجود سب سے زیادہ سونے کے تمغے جیتنے والے امریکی کھلاڑیوں کو دیکھنے کی بجائے ہم لوگ اس مسخرے کی بک بک پہ ہی توجہ مرکوز رکھے ہوئے تھے۔ ریان لوکٹی والا معاملہ البتہ استثنائی حیثیت کا حامل تھا۔ موصوف نے تیراکی میں سونے کا تمغہ جیتا لیکن دروغ گوئی کے بھی مرتکب ہوئے۔ اپنے دو ساتھی تیراکوں کے ساتھ یہ صاحب جشن منانے رات کو کسی کلب گئے، وہاںسے نشے میں چُور ہو کر نکلے اور ایک گیس سٹیشن پہنچے۔ وہاں لگے کیمروں میں انہیں ہنگامہ اور توڑ پھوڑ کرتے ہوئے دیکھا گیا، اس کے علاوہ انہیں سرعام بول کرتے ہوئے بھی پایا گیا۔ اگلی صبح انہوں نے ایک کہانی گھڑ کے سنائی کہ انہیں بزورِ بندوق روکا گیا تھا؛ تاہم برازیلین پولیس نے ان کا جھوٹ پکڑ لیا۔ انہیں ایک جج کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت کی گئی؛ تاہم ریان لوکٹی اپنے باقی دو ساتھیوں کو حالات کے رحم و کرم پہ بے آسرا چھوڑ کے خود ریو سے فرار ہو کر واپس امریکہ پہنچ گئے۔ اس واقعے سے امریکیوں کی بڑی سُبکی ہوئی۔ انہوں نے تمغے سب سے زیادہ جیتے لیکن اس واقعے نے ان کی خوشیاں ماند کر دی ہیں۔ یعنی ریو میں امریکیوں کی بہترین کارکردگی ریان لوکٹی کی دروغ گوئی سے داغدار ہو گئی۔ دوسری طرف پاکستان میں ہمارے گزشتہ اور موجودہ حکمرانوں نے ہماری ہاکی کے کھیل کے تابوت میں آخری کیلیں ٹھونکنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ریو میں پاکستانی ہاکی کے لئے گویا موت کی گھنٹی بج چکی ہے۔ نجانے اگلا اولمپکس یہ دیکھ بھی پائے گی یا نہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں