2017ء میں جینے کا فن

کامیابی کی شاہراہ آگے جا کے دو شاخوں میں منقسم ہو جاتی ہے۔ ایک شاخ کسبی صلاحیتوں کی ہوتی ہے اور دوسری وہبی صلاحیتوں کی! پچھلی کئی صدیوں سے اس شاہراہ پہ سفر کرنے والے مرد و زن اسی تگ و دو میں رہے ہیں کہ ان دونوں راستوںکو کھولنے کا خفیہ منتر کسی طور جان لیں تاکہ مواقع سے بھرپور ایک دنیا میں ان کا داخلہ ممکن ہو سکے۔ ان میں سے چند ایک کو شاید کامیابی مل بھی جاتی ہے لیکن اکثریت ایسوں کی ہوتی ہے جو بیچ میں ہی رستہ کھو دیتے ہیں۔ ہاورڈ بزنس ریویو کے مطابق فارچون 500 نامی سالانہ فہرست میں شامل کمپنیوں کو ایسی ہی صلاحیتوں کے حامل افراد کی تلاش رہتی ہے جن کی بدولت انہیں نئے نئے کاروباروں کے قیام کے مواقع مل جاتے ہیں۔ امریکی میڈیا اور MIT اور سٹینفورڈ جیسی یورنیورسٹیاں بھی انہی صلاحیتوںکے استعمال و نکھار پہ مرکوز رہتی ہیں؛ تاہم جدت کا پہلو یہ سب ہی فراموش کر دیتے ہیں۔ آخر ان سب کے پاس کمی کس چیز کی ہے؟ کامیابی کے اصولوں کے بار ے میں ان سب کی برسوں پرانی تفہیم کو برائن گریزر نامی ایک فلم پروڈیوسر چیلنج کر چکے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ وہ مذکورہ بالا راہیں اپنے ''پُرتجسس مکالموں‘‘ کے ذریعے کھول سکتے ہیں۔ اپنے ظاہری حلیے اور عمر کے لحاظ سے وہ ہو سکتا ہے کہ ایک عجیب سے شخص دکھائی دیتے ہوں لیکن فلم پروڈیوسر وہ کوئی معمولی نہیں۔ 1986ء میں انہوں نے رون ہوورڈ کے ساتھ مل کر Imagine Entertainment کے نام سے ایک فلم اور ٹی وی پروڈکشن کمپنی بنائی تھی۔ رون ہوورڈ خود بھی ایک ایسے ڈائریکٹر ہیں جن کی ہدایت کے تحت بننے والی فلمیں گزشتہ تین دہائیوں میں ایوارڈز کے ساتھ ساتھ باکس آفس پہ بھی تیرہ بلین ڈالر کی کمائی کر چکی ہیں۔ برائن گریزر نے کسبی اور وہبی صلاحیتوں کے نظریے کو اپنے نئے فارمولے کے ساتھ کچھ یوں جوڑا ہے کہ ایک بچے کے لئے بھی اس کا سمجھنا اب ممکن ہے۔ برائن گریزر نے کامیابی کی ان راہوں سے پردہ A Curious Mind, The Secret to a Bigger Life نامی اپنی کتاب میں اٹھایا ہے۔ کتاب پڑھتے ہوئے قاری کو معلوم ہوتا ہے کہ تجسس کے حوالے سے اس مایہ ناز فلم پروڈیوسر کا رویہ در حقیقت کیا ہے؟ وہ لکھتے ہیں کہ ''تجسس سے توانائی حاصل ہوتی ہے، ہر چیز کی اندرونی گہرائی کی آگاہی ملتی ہے۔ مجھے شو بزنس پسند ہے، مجھے کہانیاں سنانا پسند ہے لیکن فلموں کا شوق پالنے سے بہت پہلے ہی مجھے متجسس ہونا پسند تھا‘‘۔ اس سے ہر چیز کے ممکن ہونے کا احساس ہوتا ہے جو خوشی اور کامیابی کی کلید ہے۔ برائن گریزر کو تجسس پالنے کی ہمت ان کی نانی نے دی تھی۔ وہ ان کے تجسس کو ہمیشہ سراہتی تھیں۔ وہ انہیں بتاتی تھیں کہ سوال پوچھنا ایک اچھی بات ہے۔ انہیں زیادہ سوچنا چاہئے۔ برائن گریزر بچپن میں ڈیزلیگزیا میں مبتلا تھے۔ پڑھنے لکھنے میں انہیں دشواری پیش آتی تھی؛ تاہم وہ اس بات کا سہرہ اپنی نانی کے سر باندھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ ان کی ہمت بڑھاتی تھیں اور انہیں بتاتی رہتی تھیں کہ اپنی شخصیت کی تعریف کا تعین کرنے کی اجازت انہیں نظام کو نہیں دینی چاہئے کیونکہ ''ایک متجسس فرد‘‘ کے طور پر ان کی شخصیت کا تعین پہلے ہی سے ہو چکا ہے۔ برائن گریزر نے اپنی کتاب کا انتساب اپنی نانی کے نام کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی نانی نے ان کے پوچھے گئے ہر سوال کو قدر کی نگاہ سے دیکھا اور انہیں یہ سکھایا کہ وہ خود کو ایک متجسس فرد سمجھیں۔ یہ ایک ایسا تحفہ تھا جو زندگی کے ہر لمحے میں ان کے کام آیا ہے۔ یہ بات تمام نانیوں اور دادیوں کے لئے قابلِ غور ہے۔ یہ ایک ایسا تحفہ ہے جس پہ خرچ تو کچھ نہیں آتا لیکن پھر بھی انمول ہے۔ اپنے پوتے پوتیوں، نواسے نواسیوں کو سوال پوچھنے کی، متجسس ہونے کی ہمت دیجئے! پچھلے پینتیس سالوں میں برائن گریزر لوگوں کو ایک گھنٹے کی ''پُر تجسس گفتگو‘‘ کے لئے آمادہ کرنے کی ان تھک کوشش کرتے رہے ہیں۔ جن لوگوں سے انہوں نے بات چیت کی ہے وہ تمام فلم اور ٹی وی کی دنیا سے باہر کے ہیں۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹروں سے لے کر سائنسدان، ماہر فلکیات و تعلیم کارل سیگن، باکسر محمد علی، ایپل کے بانی اسٹیو جابز، اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو، امریکی صدر بارک اوباما، سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن، پولیو ویکسین کے موجد جونس ساک، مارگریٹ تھیچر، فیدل کاسترو، پاپ آرٹسٹ اینڈی وارہل، سائنس فکشن کے ماہر آئزک ایسموف، ہائیڈروجن بم کے خالق ایڈورڈ ٹیلر اور سن دو ہزار گیارہ میں دنیا کے امیر ترین شخص کارلوس سلم جیسے نام اس فہرست میں شامل ہیں۔ ان لوگوں کے ساتھ ''پُرتجسس گفتگو‘‘ کرکے برائن گریزر نے کیا حاصل کرنا چاہا ہے؟ وہ کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ گہرا احساس ان میں جذباتی تجسس کا ہے۔ وہ یہ سمجھنا چاہتے ہیں کہ وہ کون سی چیز ہے جو لوگوں کو متحرک رکھتی ہے اور یہ کہ کیا ان لوگوں کی شخصیت اور رویے کو ان کے کام، ان کو درپیش چیلنجوں اور ان کی کارکردگی و کامیابی ک ساتھ مربوط کیا جا سکتا ہے؟ اس کے لئے طریقہ ان کا یہی ہے کہ سوال پہ سوال اور پھر مزید سوال پوچھے جائیں۔ برائن گریزر کی تجسس کی حس انہیں لوگوں سے سوال پوچھنے پہ اکسائے رکھتی ہے۔ وہ خود اپنے ہی نقطہ نظر کے خلاف سوال کرکے سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مختلف شعبوں میں لوگ کس قسم کی شخصیت اور مہارت کے ساتھ کارکردگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹروں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ انہیں اپنے ''منطقہء راحت‘‘ سے باہر نکل کر بیماریوں اور ان کے علاج کے بارے میں نئے نئے طریقوں کے حوالے سے آگہی حاصل کرنا چاہئے۔ لوگ یقینا یہی چاہتے ہیں کہ ان کا ڈاکٹر دنیا کو ان کی نظر سے دیکھے، لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ان کا ڈاکٹر ان کی علامات کو بہتر طور سے سمجھے تاکہ انہیں بہتر محسوس کرنے کے لئے جس چیز کی ضرورت ہو وہی انہیں مہیا کر سکے۔ یہ بات ان کی بڑے پتے کی ہے کیونکہ عموماً لوگ جب اسپیشلسٹ سے رجوع کرتے ہیں تو وہ معمول کے معائنے کے بعد بغیر کوئی سوال پوچھے محض نسخہ لکھ کے ان کے ہاتھ میں تھما دیتا ہے۔ مریض کی بات سننے کی زحمت کوئی نہیں کرتا۔ عموماً ہر جگہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ اس معمول کو بدلنے کے لئے مریضوں کی حیثیت میں یہ ہمارا کام ہے کہ ہم مسلسل سوال پوچھتے جائیں۔ ہمارے بعض طبی مسائل اسی طرح سوال پوچھنے پہ حل ہو سکتے ہیں۔ شادی شدہ جوڑوں کے بارے میں وہ کہتے ہیں کہ عموماً میاں بیوی روزانہ کے معمول کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اسی لئے امریکہ میں ہر دو میں سے ایک جوڑے کی طلاق ہو جاتی ہے۔ برائن گریزر کہتے ہیں کہ مانوسیت تجسس کی دشمن ہے۔ جب میاں بیوی ایک دوسرے کو جاننے کے بارے، ایک دوسرے کی روزمرہ کی زندگی کے بارے میں اور اس ضمن میں کئے گئے سوالوں کے جوابات جاننے کے بارے میں متجسس نہیں رہتے تو رفتہ رفتہ ایک دوسرے سے اکتا کر لاتعلق ہو جاتے ہیں۔ تین سال قبل خود گریزر کی بھی طلاق ہوئی تھی اور اس سال انہوں نے دوسری شادی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شادی کو کوئی مفت کی چیز مت سمجھیں۔ ہمیں ہر روز خود کو یاد دلانا چاہئے کہ گو کہ میں اس شخص کے ساتھ ہوں لیکن اس کے آج کے بارے میں مجھے کچھ معلوم نہیں اور اس وقت تک معلوم نہیں ہو سکے گا‘ جب تک میں پوچھ نہ لوں۔ کام پہ اپنے ارد گرد کے لوگوں، ساتھیوں، مالکان، دوستوں، جیون ساتھیوں اور بچوں کے ساتھ ربط رکھنا ہماری روزمرہ زندگی کا ایک اور اہم جزو ہے۔ یہ ربط اخلاص، احساس اور اعتبار چاہتا ہے۔ کام پہ منیجرز عموماً اپنے ماتحتوں سے سختی سے بات کرتے ہیں اور اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ زیادہ مؤثر ہو سکیں۔ برائن گریزر کہتے ہیں کہ جن لوگوں کے ساتھ آپ کام کرتے ہیں انہیں سمجھنا ضروری ہوتا ہے۔ اگر تو باس ہی صرف بات کر رہا ہے تو پھر وہ اپنے ماتحتوں کو سمجھ نہیں پا رہا اور جب وہ اپنے ماتحتوں کو سمجھ نہیں رہا تو پھر وہ انہیں سمجھا بھی نہیں سکتا۔ برائن گریزر کے مطابق ایک بہتر کارکردگی پہ مرکوز تعلق کے لئے باس اور ماتحتوں کو ایک دوسرے سے سوال پوچھنے چاہئیں۔ بقول ان کے یہ تجسس انتظام چلانے کا ایک ایساحربہ ہے جسے آج تک سمجھا نہیں گیا؛ تاہم یہ تجسس مبنی بر اخلاص ہونا چاہئے۔ انسان فطرتاً مداخلت کرنا پسند کرتا ہے۔ عموماً لوگوں کا تجسس ایسی باتوں کے متعلق ہوتا ہے کہ گھر آپ نے کتنے کا خریدا؟ آپ کی تنخواہ کتنی ہے؟ کس کا کس کے ساتھ افیئر چل رہا ہے؟ ہماری انا دراصل ہمیں یہ جاننے کے لئے مجبور کرتی ہے کہ کہیں دوسرے ہم سے بہتر تو نہیں؛ تاہم برائن گریزر کا تجسس عام لوگوں سے ذرا اوپر کے درجے پہ ہے۔ بقول ان کے '' بے معنی تجسس سے زیادہ بے فائدہ اور کوئی چیز نہیں‘‘!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں