آج کل تو پاکستان کے امریکی ناقدین کو اعتراض ہمارے جوہری بم پہ ہے جس کے بارے میں وہ چاہتے ہیں کہ ہم اس سے دست بردار ہو جائیں‘ لیکن ابھی کچھ عرصہ پہلے تک ان کی انگلیاں پاکستان میں آبادی کی کثرت کے اشاریوں کی جانب اٹھا کرتی تھیں اور اس حوالے سے پاکستان کو مؤثر اقدامات کرنے کی ہدایات بھی دی جاتی تھیں۔ دوسر ی طرف ہمارے وزیرِ دفاع صاحب ہیں جنہیں بولنے کا شوق تو بڑا ہے لیکن بعد میں انہیں اپنی باتوں ہی کی بدولت پریشان ہونا پڑتا ہے۔ ایک جعلی خبر پہ انہوں نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی جو دی‘ اس کے بعد عالمی خبروں میں ان کے بڑے چرچے ہونے لگے ہیں۔ اس خبر میں کہا یہ گیا تھا کہ اسرائیلی وزیرِ دفاع نے پاکستان کے خلاف جوہری ہتھیارو ں کے استعمال کا عندیہ ظاہر کیا ہے۔ ہمارے وزیر دفاع نے فی الفور اپنے ٹویٹر اکائونٹ پہ یہ کہہ ڈالا کہ شام میں داعش کے خلاف پاکستان کی تلویث کے شبے میں اسرائیلی وزیر دفاع نے جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی دی ہے تو کیا وہ بھول رہے ہیں کہ خود پاکستان بھی ایک جوہری ریاست ہے؟ اس جعلی خبر میں اسرائیل کے وزیر دفاع کا نام تک غلط دیا گیا تھا اور اس بیان کو ایک سابق وزیر موسیٰ موشے یالون سے منسوب کیا گیا تھا۔ اگر وزیر صاحب یہ نام ہی گوگل کر لیتے تو انہیں معلوم ہو جاتا کہ یہ خبر جعلی ہے۔ اسرائیلی وزارتِ دفاع نے بھی ٹویٹر اکائونٹ سے اس خبر کو جعلی بتایا۔
اس کے بعد بھی انہوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا۔ اس ہفتے انہو ں نے پھر ایک پیش گوئی کی ہے۔ دنیا نیوز کے ساتھ گفتگو میں انہوں نے کہا کہ پاناما دستاویزات کا یہ معاملہ جلد ہی حل ہو جائے گا کیونکہ مخالفین اصل میں مسئلہ حل نہیں کرنا چاہتے بلکہ انہیں صرف میڈیا کی توجہ درکار ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا اشارہ عمران خان کی جانب تھا جو کرپشن کے خلاف ''ترکشِ ما را خدنگ آخریں‘‘ ہیں۔
مخدوم جاوید ہاشمی کو بھی نجانے کیا ہو گیا ہے کہ وہ ہر تھوڑے عرصے بعد عمران خان کے خلاف الزامات کا ایک نیا پلندہ لے کر آ جاتے ہیں۔ اس دفعہ تو انہوں نے نہایت سنگین الزامات عائد کئے ہیں۔ ایک زمانہ تھا کہ مخدوم صاحب کی سبھی بڑی عزت کیا کرتے تھے اور انہیں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا۔ کیا اب انہیں توجہ پانے کی اس قدر خواہش ہو گئی ہے کہ اس کے لئے عمران خان پہ الزامات کے گولے برسانا ہی انہیں واحد طریقہ نظر آتا ہے۔ مخدوم صاحب عمران خان کے سارے راز ایک ہی بار میں کیوں طشت از بام نہیں کر دیتے؟ ان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ اس عمر میں ''سکینڈل گری‘‘ کرتے پھر رہے ہیں۔ عمران خان کے جنون میں مبتلا ہونے کی بجائے انہیں چاہئے کہ اپنے فارغ وقت کے لئے کوئی بہتر مصرف تلاش کر لیں۔ اگر تو انہیں سیاست کی یاد ستا رہی ہے تو انہیں نون لیگ میں واپس شمولیت اختیار کر لینی چاہئے۔ میاں نواز شریف شاید ان کی واپسی کا خیر مقدم کریں، یہ الگ بات کہ ماروی میمن مخدوم صاحب کے بیان پہ انہیں لتاڑ چکی ہیں۔
خیر واپس آتے ہیں آبادی کے مسئلے کی جانب جس کی طرف ہمارے قائدین کی توجہ رتی بھر بھی باقی نہیں رہی۔ ہمارے گزشتہ اور موجودہ لیڈران کو فکر ہی نہیں ہوئی کہ ہماری آبادی سرعت کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہے اور کرہء ارض پہ کثیر آبادی والے ممالک میں ہمارا نمبر اوپر جاتا جا رہا ہے۔ جارج بش جب امریکی صدر تھے تو انہیں فکر اس بات کی تھی کہ مدرسے میں پڑھنے والے بچوں کے ذہنوں میں امریکہ مخالفت کے بیج بوئے جا رہے ہیں۔ پاکستانی آبادی میں اضافہ امریکہ کا مسئلہ نہیں تھا۔ مسئلہ یہ ان کا صرف اس وقت بنا جب ہم نے اوقیانوس کے پار دہشت گردی کی برآمد کا آغاز کیا۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ اچھے وقتوں میں ہم لوگ پاکستان میں گیارہ جولائی کا دن عالمی یومِ آبادی کے طور پر منایا کرتے تھے۔ ہر سال اس ضمن میں محض نمائشی تقریبات کا انعقاد کیا جاتا تھا اور ہمارے لیڈروں کے پاس اس بارے میں بولنے کے لئے ذخیرہء الفاظ ختم ہوتا جا رہا تھا۔ ہم میں سے کون واقعتاً یہ سمجھتا تھا کہ مشرف اور ان کے وزیر اعظم جمالی صاحب آبادی پہ قابو پانے کے لئے ایک لائحہء عمل مرتب کرنے میں سنجیدہ تھے؟ یومِ آبادی پہ محض لفظیات کی فضول خرچی کے سوا اور کچھ نہیں ہوا کرتا تھا۔ مشرف دور میں امریکہ سے اسلام آباد اپنے گھر والوں سے ملنے آئے ایک شخص نے اپنے مشاہدے کا ذکر ہم سے کیا کہ تین برس بعد وطن واپس لوٹنے پہ اسے ہر طرف مدرسے، مسجدیں اور ٹریفک‘ ہی دکھائی دے رہی ہے۔ ''ایسا لگتا ہے کہ کچھ کام نہیں کر رہا۔ نہ لوگ کام کر رہے ہیں اور نہ ہی نظام۔ ہر طرف لوگوں کا ایک سیلاب ہے‘‘۔
ہمارے یہاں آبادیات کے شعبے میں عطیہ عنایت اللہ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ مختلف ادوار کی حکومتوں کے ساتھ وہ آبادیات سے متعلق معاملات میں برسرِ پیکار رہیں اور اکثر اوقات فتح انہی کو حاصل ہوتی آئی ہے۔ ہم کئی ایسے لوگوں کو جانتے ہیں (جن کا نام ہم نہیں لے سکتے) جن کی یہ کوشش رہی تھی کہ عطیہ عنایت اللہ کی تنظیم پاکستان فیملی پلاننگ ایسوسی ایشن کو سرکاری محکمہء بہبودِ آبادی کے ساتھ کوئی شراکتی کردار حاصل نہ ہو سکے۔ پچھلے چند عشروں کے دوران عطیہ عنایت اللہ نے اس موضوع پہ از خود کئی ایک میڈیا ایونٹس کا انتظام کیا ہے۔ بچوں میں وقفے اور مائوں کی صحت کے بارے میں انہوں نے خصوصی طور پر آگہی پھیلانے کے لئے مصنفین کی خدمات حاصل کرکے نشر و اشاعت کے شعبے میں اس ضمن میں کافی کام کیا ہے۔ ہمیں یاد ہے کہ ایک بار ہم نے سیالکوٹ کے ایک مقامی ہسپتال میں کم عمر مائوں سے ملاقات کی تھی۔ اس دن کی یاد آج بھی ہمارے دل میں ایک چُبھن پیدا کر دیتی ہے۔ پھولوں کی طرح نازک ان لڑکیوں پہ بے شمار بچوں کا بار تھا۔ انہیں مزید بچے نہیں چاہئیں تھے اس لئے وہ اپنی مرضی سے آپریشن کے لئے آئی ہوئی تھیں تاکہ آئندہ کے لئے ان چاہے حمل سے انہیں چھٹکارا حاصل ہو جائے۔ ان کی گودوں میں شیر خوار بچے تھے اور باقی بچے ان کے پیروں سے، کپڑوں سے چمٹے ہوئے تھے۔ یہ سب غربت زدہ لڑکیاں ڈری سہمی دکھائی دے رہی تھیں۔ ان کی نگاہیں خالی تھیں لیکن آپریشن کے لئے سبھی تیار تھیں۔ سارے عمل کے اختتام پہ ان کے چہرے پہ پھیلا اطمینان دیدنی تھا۔ عطیہ عنایت اللہ نے ہمیں بتایا کہ ''ہم اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ یہ سارا عمل کسی تکلیف کے بغیر انجام تک پہنچے اور سرجری سے پہلے اور سرجری کے بعد لڑکیوں کو پوری طرح سے آرام پہنچایا جائے۔ ہم ان کا پورا خیال رکھتے ہیں‘‘۔ سرکاری محکمہء بہبودِ آبادی کی فراہم کردہ فیملی پلاننگ کی سہولیات کے مقابل عطیہ عنایت اللہ کی تنظیم اس قسم کی سرجری میں سو فیصد کامیابی کا تناسب رکھتی ہے۔ یہ تنظیم انہوں نے تنِ تنہا بنائی تھی لیکن آج کل وہ اس کی سربراہ نہیں ہیں۔ اس تنظیم کا نام اب بدل کر رہنما رکھ دیا گیا ہے اور مہتاب اکبر راشدی اس کی سربراہ ہیں۔