واشنگٹن تا ڈیووس

اتوار کے روز پاکستان میں یومِ کشمیر عمومی جوش و جذبے کے ساتھ منایا جائے گا، لیکن واشنگٹن میں امریکی قانون سازوں اور حکومت کو کشمیریوںکی حالتِ زار کی ذرا بھی پروا نہیں۔ ٹرمپ انتظامیہ نے اقوامِ متحدہ میں امریکی سفیر کے طور پر نمرتا ''نکی‘‘ ہیلی کا تقرر کیا ہے۔ اس خاتون کی عمر اس وقت پینتالیس برس ہے۔ اس کے والدین بھارت سے نقل مکانی کرکے امریکہ میں آباد ہوئے تھے۔ اقوامِ متحدہ میں اپنی پہلی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے نِکی نے دو باتیں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان کی ہیں۔ ایک یہ کہ جو ممالک اس وقت امریکہ کی حمایت نہیں کر رہے، انہیں ردعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ دوسری بات جو انہوں نے انتباہ کے طور پر کہی اور جس میں بدشگونی کا عنصر زیادہ نمایاں نظر آتا ہے‘ یہ ہے کہ نئی امریکی انتظامیہ اس امر کے لئے تیار ہے کہ وہ اقوامِ متحدہ پہ غور کرے اور یہاں پہ جو چیزیں کارگر ثابت ہو رہی ہیں انہیں مزید بہتر بنایا جائے‘ جو کام نہیں کر رہیں، انہیں درست کیا جائے اور جو جو چیزیں فرسودہ ہو چکی ہیں اور اب غیر ضروری ہیں، انہیں ختم کر دیا جائے۔ نجانے فرسودہ اور غیر ضروری سے نکی صاحبہ کی مراد کیا ہے؟ کیا وہ انیس سو اڑتالیس کی اس قرارداد کو بھی اسی زمرے میں شمار کر رہی ہیں جس کے تحت بھارتی زیرِ قبضہ کشمیر میںکشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے لئے استصوابِ رائے کی بات کی گئی ہے؟ اقوامِ متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی آفیشل ویب سائٹ پہ یہ قرارداد اب بھی موجود ہے۔ اس کی منظوری کو انہتر برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ نِکی صاحبہ کے جنم لینے سے بھی قبل یہ منظور ہوئی تھی لیکن اس پہ عمل درآمد کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ اب تو بال ڈونلڈ ٹرمپ کے کورٹ میں ہے کیونکہ موصوف نے میاں نواز شریف کے ساتھ اپنی اس مشہور زمانہ ٹیلی فونک گفتگو میں یہ وعدہ کیا تھا اہم اور دیرینہ مسائل کے حل کے لئے وہ ہر وہ کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں جو نواز شریف چاہیں گے۔ پاکستان کو چاہئے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کے یہ الفاظ پتھر پہ کھدوا کے محفو ظ کر لے اور پھر ان سے اس وعدے کو پورا کرنے کا تقاضا بھی ہمیں کرنا چاہئے؛ تاہم ہمیں یقین ہے کہ ایسا کچھ ہو گا نہیں۔ کیوں؟ اس کیوں کا جواب قارئین کو ذیل کی سطور میں ملے گا۔ امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے ساتھ کیپٹل ہل میں نکی ہیلی کی توثیقی مجلس دن بھر جاری رہی تھی۔ کیا اس دوران کسی نے ان سے جنوبی ایشیا میں جنگ کے دہانے پہ پہنچی دونوں جوہری طاقتوںکے بارے میں کوئی سوال کرنے کی زحمت کی تھی؟ وہاں گیارہ ری پبلکن اور دس ڈیموکریٹ سینٹرز موجود تھے۔ اس مجلس کی پوری کارروائی ہم نے بیٹھ کر دیکھی۔ کسی ایک سینیٹر نے بھی اس موضوع پہ کوئی سوال نہیں کیا‘ حالانکہ عالمی امن کے حوالے سے اس کی اہمیت کسی طور نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ نکی ہیلی کے والدین نسلاً بھارتی ہیں اور اپنے بھارتی حلیے سمیت اس توثیقی مجلس میں بھی موجو د تھے۔ اس مجلس کی طویل کارروائی انتہائی بے رنگ، بے رونق اور اکتا دینے والی تھی اور صرف اسرائیل پہ ہی مرکوز رہی۔ ملیحہ لودھی 2014ء سے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب ہیں۔ شاید وہ کسی بھی پاکستان دوست امریکی سینیٹر کو کشمیر کے بارے میں بریف کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ ملیحہ لودھی دو بار امریکہ میں پاکستان کی سفیر رہ چکی ہیں۔ ایک بار محترمہ بے نظیر بھٹو اور دوسری بار پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں، لہٰذا ان سینیٹروں کے ساتھ اگر ان کے گہرے روابط نہیں تو کم از کم جان پہچان تو ضرور ہونی چاہئے۔ پچھلے تئیس برسوں کے دوران انہوں نے جو تعلقات بنائے ہوں گے ان کا کوئی فائدہ تو انہیں ہو سکتا تھا۔ ان کے علاوہ غلطی کا بار واشنگٹن میں ہمارے سفیر اور ان کے اہلکاروں کے سر بھی جاتا ہے۔ کشمیر کاز کے لئے ان کی لابنگ ابتر معیار کی ہے۔ جن سینیٹروں نے نکی ہیلی سے سوالات کئے ان میں بعض کو وہ کشمیر کے معاملے سے آگاہ کر سکتے تھے۔ یہ بات بڑی حیران کن ہے کہ اس مجلس میں کشمیر کے موضوع پہ مرکوز پاک بھارت تعلقات کو کماحقہ توجہ نہیں دی گئی۔ ستارہ جرأت پانے والے ایئر کموڈور (ر) سجاد حیدر Flight of the Falcon: Demolishing Myths of Indo Pak Wars 1965-1971 نامی بیسٹ سیلر کتاب کے مصنف ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ حکمران اشرافیہ کے لئے کشمیریوں کے حقوق کی حیثیت کبھی ایک نصف درجے کی سنجیدہ ترجیح کی بھی نہیں رہی۔ یہ لوگ سرزمینِ کشمیر کے ترانے گانا ہی بس جانتے ہیں‘ باقی جو بھی ہے وہ صرف نیم خواندہ حکمرانوں کی باتوں سے پیدا ہونے والے کنفیوژن کا انبار ہے جو خارجہ دفتر اور نام نہاد سفارتکاروں کو ان کے وجود کا بودا جواز مہیا کر رہا ہے۔ ان کا مقصد قوم اور کشمیریوں کو دھوکہ دینا ہے اور اسی کے لئے یہ لوگ نعروں، بے تکی تقریروں اور مذہب پرستوں کا سہارا لیتے ہیں تاکہ یومِ کشمیر پہ کچھ رونق دکھائی جائے۔ سجاد حیدر صاحب پینسٹھ کی جنگ کے ہیرو ہیں۔ گزشتہ اور موجودہ سفارتکاروں پہ وہ کڑی نکتہ چینی کرتے ہیں کہ یہ لوگ صرف ذاتی مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے محض چکنی چپڑی باتیں کرنا جانتے ہیں، کسنجر یا البرائٹ کی مانند حقیقتاً تدبر سے کام لینا یہ نہیں جانتے۔ اب بات ہو جائے کچھ ڈیووس کی بھی، جہاں پاکستان کی پہلے سے گرتی ہوئی ساکھ کچھ اور بھی نیچے گر گئی۔ پچھلے دنوں سوئٹزرلینڈ کے اس علاقے میں عالمی اقتصادی کونسل کا سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں ہمارے وزیر اعظم کو بُری طرح نظر انداز کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ پاناما دستاویزات کے انکشافات کی بدولت اس چار روزہ اجلاس میں انہیں تقریر کرنے کی اجازت نہیں ملی۔ ان کی جگہ جس ہستی کو وہاں بڑی اہمیت دی گئی اور جنہیں بڑے غور سے سنا بھی گیا وہ ہمارے سابق فوجی سربراہ جنرل راحیل شریف تھے۔ ہمیں یہ ساری معلومات اکرام سہگل نے دی ہیں جو بذاتِ خود وہاں موجود تھے۔ اکرام سہگل سابق آرمی آفیسر اور دفاعی تجزیہ نگار ہیں۔ وہ عالمی اقتصادی فورم کے فائونڈیشن ممبر ہیں۔ سابق آرمی چیف نے اس چار روزہ اجلاس کی تین رسمی نشستوں سے خطاب کیا‘ اور اکرام سہگل کہتے ہیں کہ انہوں نے پاکستان کا مقدمہ بڑے پُرزور طریقے سے پیش کیا ہے۔ انہوں نے پاکستان کی ایک مثبت تصویر اس اجلاس کے شرکا کے سامنے پیش کی۔ اس کے علاوہ پاکستان کے اندر اور باہر فوج اور ملک کے خلاف جو شر انگیز پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے اس کا بھی بھرپورجواب دیا۔ اکرام سہگل کہتے ہیں کہ جنرل راحیل شریف کا پیش کردہ بیانیہ معتبر بھی تھا اور قائل کن بھی۔ اکرام سہگل نے ایک اور ذیلی تقریب سے خطاب کرنے کی دعوت میاں صاحب کو دی تھی جو انہوں نے قبول نہیں کی۔ میاں صاحب کی آئی ٹی کی وزیر انوشے رحمان کو بھی اکرام سہگل نے ایک عشائیے سے خطاب کی دعوت دی تھی جو انہوں نے قبول کی اور انہوں نے آ کر خطاب بھی کیا ۔ ایک ہم عصر انگریزی روزنامے نے اپنے انیس جنوری کے اداریے میں جنرل راحیل شریف کی جانب سے پاکستان کے اس بھرپور دفاع کو سراہتے ہوئے متنبہ بھی کیا تھا کہ ایک پختہ ریاستی حیثیت کی بنیادیں کسی طور ہاتھ سے جانے نہیں دی جا سکتی ہیں اور موجودہ منظر نامے پہ فقط فوجی محرکات ہی متحرک نہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں