عباسی دور کے خلیفہ ہارون الرشید رعایا کے حالات سے باخبر رہنے کے لیے بھیس بدل کر رات کے اندھیرے میں بغداد کی گلیوں میں گھومتے تھے۔میاں نواز شریف کے ڈھنڈورچی تو یہی کہیں گے کہ میاں صاحب نے عباسی خلفا ء کی یا د تازہ کر دی لیکن فرق صاف ظاہر ہے۔ اتوار کے روز میاں صاحب تو پو رے پروٹوکول کے ساتھ دارالحکومت میں جی ٹین اور آبپا رہ کی مارکیٹوں میں وارد ہو ئے ۔انھوں نے دکانداروں ،سٹال والوں اور صارفین سے بھی اشیا ئے ضرورت کی قیمتوں کے بارے میں معلومات حا صل کیں اوراپنی معیت میں آنے والے مسلم لیگ (ن ) کے رکن قومی اسمبلی ڈاکٹر طارق فضل چوہدری کو ہدایت کی کہ ان کی شکایا ت دور کریں ۔اس کے باوجود جی ٹین ٹریڈر زویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر رانا قدیر کا کہنا تھا کہ اس دورے کی حیثیت ایک فوٹو سیشن سے زیا دہ نہیں تھی ،پھر بھی یہ بات غنیمت ہے کہ وزیر اعظم نے اپنی سالہا سال کی روٹین سے ہٹ کر ''ویک اینڈ‘‘ جا تی عمرہ کے بجائے اسلام آباد میں گزارا۔شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ اپنی والدہ محترمہ سے ملنے ہر ہفتے لاہو ر آتے ہیں لیکن ان دنوں ان کی والدہ علاج کے سلسلے میں لندن میں مقیم ہیں ۔اللہ تعالیٰ ان کو صحت دے(آمین)۔
بہر حال اس دورے سے جس کی حیثیت محض علامتی ہے ، قیمتیں گر سکتی ہیں اور نہ ہی گورننس کی ابتر صورتحال میں کو ئی بہتری آ سکتی ہے۔ویسے تو قیمتوں کا تعین مارکیٹ فورسز کے ذریعے ہی ہو تا ہے تاہم میاں صاحب کے دورے کے دوران یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام آ باد میں پرائس کنٹرول کمیٹیوں کاسرے سے کو ئی وجود ہی نہیں ہے۔ ٹریڈرز نے بجا طور پر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کی من مانی کا رروائیو ں کے خلاف بھی شکا یات کیں ۔میرے ذاتی علم میں ہے کہ سی ڈی اے کے اہلکا ر کمرشلا ئز یشن کے نام پر کھلم کھلا مک مکا کرتے ہیں ۔بعدازاں اسی روز میاں صاحب نے ایک اعلیٰ سطح کے میراتھن سیشن میں فیصلہ کیا کہ وزارتوں کی کارکردگی ،مانٹیرنگ اور ڈلیوری کا تعین کرنے کے لیے ایک خصوصی سیل تشکیل دیا جا ئے گا ۔اسی قسم کی مشق چند ماہ قبل بھی کی گئی جس دوران غالباً صرف دو وزارتوں کی کارکردگی کا آ ڈٹ کیا گیا تھا۔ اس کے بعد سوائے اس کے کہ صورتحال مزیدابتر ہو گئی کو ئی نتیجہ نہیں نکلا۔کا بینہ میں ردوبدل کا بہت شور تھا لیکن یہ امید بھی امیدِ موہوم ثابت ہو ئی۔اب میاں صاحب نے بعداز خرابی بسیار‘ سرادوبارہ پکڑا ہے۔پیر کے روز اس مانیٹرنگ سیل کی میٹنگ بھی ہو ئی تا ہم وزراء کی کارکردگی معلوم کر نے کے لیے کسی ایسے سیل کی قطعاً ضرورت نہیں ۔میاں صاحب کے اردگرد جو ہرقابل محترم اسحق ڈار ،خواجہ آصف ،چوہدری نثار علی خان ،شاہد خاقان عباسی ،خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال سالہا سال سے ان کی ٹیم میں شامل ہیں ۔جہاں میاں نواز شریف تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے ہیں‘ وہیں ان شخصیات کی اکثریت بھی تیسری مرتبہ وفاقی کا بینہ میں شامل ہو ئی ہے،تا ہم ایک بنیا دی فرق ضرور ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے علاوہ بعض مزید عزیزو اقارب بھی کچن کیبنٹ میں شامل ہو گئے ہیں اور ما شاء اللہ وزیر خزانہ اسحق ڈار اب میاں صاحب کے سمدھی بھی بن چکے ہیں اور عملی طور پرڈپٹی پرائم منسٹر ہیں۔ اس صورتحال میں جبکہ حکومت قریبی سیا ستدانوں ،اہل خا نہ اور بعض چہیتے بیورو کریٹس کے ذریعے چلا ئی جا رہی ہو‘ وہاں محض مانیٹرنگ سیل بنانے سے بہتری نہیں آ سکتی۔
الیکٹرانک میڈیا کا ایک مخصوص حصہ میاں صاحب کے خلاف پنجے جھاڑ کر ان پر کرپشن ،بڑے میگا پروجیکٹس میں کمیشن اور کک بیکس لینے کے بے سروپا الزامات عائد کر رہا ہے ۔اس ضمن میں میاں صاحب کے سابق دور میں احتساب بیورو کے سربراہ سیف الرحمن کانام بھی منظر عام پر لایا جا رہا ہے ۔سیف الرحمن اب قطر میں مقیم ہیں اور جس وقت وزیراعظم میاں نواز شریف نے چین کے تعاون سے لگنے والے پورٹ قاسم کے میگا پراجیکٹ کا بڑے تزک و احتشام سے افتتاح کیا تو اس موقع پر سیف الرحمن قطر کے شہزادے کے ساتھ کراچی تشریف لائے تھے۔میرے علم میں ہے کہ میاں برادران جلاوطنی کے دوران سیف الرحمن سے سخت نالاں تھے اورانھیں اس بات کا مکمل ادراک تھا کہ ان کا بیڑہ غرق کرنے میں ان کے اس دوست کے منتقم رویے کا خاصاہاتھ تھا۔ لہٰذا میں یہ یقین نہیں کر سکتا کہ اس پس منظر میں یہ شخص میاں صاحب یا ان کی فیملی کا پتی بھائی بن سکتا ہے ،لیکن ان کو اپنے ساتھ ایک سٹیج پر بٹھا نا''آبیل مجھے مار‘‘ کے مترادف ہے ۔اس پر مستزادیہ کہ وزیراعظم کے منظور نظر بیوروکریٹ ایڈیشنل سیکرٹری فواد حسن فواد اے آر وائی کے ایک پروگرام میں اس قسم کے الزامات کی بو چھا ڑ کا جواب دے رہے تھے لیکن ایک سرکاری ملازم کی اس قسم کے پروگراموں میں متناز عہ معاملات پر گفتگو بیو رو کریسی کی ساکھ مجروح کر سکتی ہے۔یہ کام تو میاں صاحب کے کسی سیاسی ترجمان یا مشیر کے کرنے کا تھا ۔ایک طرف تو میاں صاحب سینئر بیوروکریسی کی نا اہلی کی دہائی دے رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ بیوروکریسی کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی نا پسندیدہ روایت بھی ڈال رہے ہیں۔
جہاں تک وزراء کی کارکردگی یا عدم کارکردگی کا تعلق ہے تو بجلی کی بڑھتی ہو ئی لو ڈشیڈنگ ،گیس کی عدم دستیابی اور تیل کے حالیہ بحران کے باعث ''کارکردگی‘‘ اظہر من الشمس ہے ۔اگر وزیراعظم اور ان کے پیارے آبپارہ مارکیٹ کا دورہ کرنے کے علاوہ الیکٹرانک میڈیا میں ہو نے والی باتوںکو بغور سنیں،اخبارات میں شائع ہونیوالی تحریروں کا عمیق نظری سے مطالعہ کریں اور پارلیمنٹ میں باقاعدگی سے آ کر وہاں ہو نے والی کارروائی سننے کے علاوہ اس میںبھرپو ر حصہ لیں تو انھیں کسی مانیٹرنگ سیل کی ضرورت نہیںرہے گی۔قومی اسمبلی اور سینیٹ کی مختلف سٹینڈنگ کمیٹیوں کی کارروائی بھی ان کی آنکھیں کھولنے کے لیے کا فی ہو گی۔مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو یقینااس بات کا ادراک ہو گا کہ وہ اپنی مدت اقتدار کے نصف کو پہنچنے سے پہلے ہی ٹھس ہونے جا رہے ہیں۔ انہیں تو اب مڈٹرم تک پہنچنے سے پہلے پہلے اپنے طور اطوار کو بدلنے کا سنجیدگی سے ارادہ باندھ لینا چاہیے۔اس سلسلے میںنہ صرف کا بینہ میں ردوبدل بلکہ مختلف سرکاری ونیم سرکاری اور حکومت کے کنٹرول میں چلنے والے اداروں کے سربراہوں اور بورڈ زکو منظور نظر بلکہ نااہل لو گوں سے پاک کرنا بھی ضروری ہے ۔حسن کارکردگی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سینیٹ کے لئے مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کے لئے تقریباً160 امیدواروں کی بھاری تعداد کو وزیر اعظم ہاؤس میںہونے والے پارلیمانی بورڈ کے اجلاس میں بلایا گیا، انہیں ایک الگ کمرے میں انتظار کرانے کے بعد میاں صاحب سے مصافحہ کرا کے فارغ کر دیا گیا،بعد ازاں میڈیا میں یہ خبر چلوائی گئی کہ میاں صاحب نے حاضرین سے خطاب بھی کیا‘ حالانکہ وزیر اعظم جو مسلم لیگ ن کے صدر بھی ہیں ،چائے پیئے بغیر ہی رخصت ہو چکے تھے۔اگر میاں صاحب کے میڈیا مینیجروں کی کثیر تعداد نے انہیں ایسا کرنے کا مشورہ دیا ہے تو ان کے ساتھ اچھا نہیں کیا۔
شنید ہے کہ سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمن شامی کی دعوت پر وزیراعظم ہفتے کے روزایڈیٹروں ،کالم نگاروں اور میڈیا کے نمائندوں سے مل رہے ہیں۔ شامی صاحب نے یہ دعوت دے کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے کیونکہ میاں صاحب نے برسر اقتدارآنے کے بعد آج تک میڈیا سے با قاعدہ ملاقات کرنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی۔ یقینا اس موقع سے فائدہ اٹھا کر بعض عمومی سوالات کے علاوہ کچھ کام کی بات بھی ہو جائے گی ۔