بدقسمتی سے اقتدار کے حصول کی دوڑ میں ہارس ٹریڈنگ اور دولت کا بے انتہا استعمال ہمارے سیاسی نظام کا شرمناک جزو بن چکا ہے۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان چیخ چلاّ رہے ہیں کہ سینٹ کے 5 مارچ کو ہونے والے الیکشن میں خوب مال چل رہا ہے۔ ان کا دعویٰ ہے کہ خیبر پختونخوا میں ان کی برسر اقتدار جماعت اس گند میں آ لودہ نہیں ہوئی۔ خان صاحب نے یہ مطالبہ بھی داغا ہے کہ سینٹ کے انتخابات میں رائے شماری سیکرٹ بیلٹ کے بجائے شو آف ہینڈز کے ذریعے کھلے بندوں ہونی چاہیے تاکہ کوئی بھی شخص پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے چند کروڑ کی خاطر اپنا ضمیر نہ بیچ سکے۔ غالباً خان صاحب کے مطالبے پر صاد کہنے کے علاوہ اپنی ضرورت کے تحت وزیر اعظم نواز شریف نے اپنی صدارت میں ہونے والے کابینہ کے حالیہ اجلاس میں سینٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ روکنے کی خاطر آ ئینی ترمیم کے لیے دو کمیٹیاں تشکیل دی ہیں۔ میاں صاحب اپنی جماعت کی صفوں بالخصوص بلوچستان میں انتشار سے غالباً پریشان ہو گئے ہیں۔ عمران خان نے اس ارادے کا بھی اظہار کیا ہے کہ وہ سینٹ کے انتخابات براہ راست کرانے پر زور دیں گے۔ پی ٹی آ ئی کے سربراہ کے اعلان کردہ عزائم خوش کن ہیں لیکن ہمارے سیاسی نظام کا توآ وے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے اور اس سے پیدا ہونے والے گند کے چھینٹے بلاتخصیص تمام سیاسی جماعتوں کے دامن پر ہیں۔ سینٹ کو ہی لے لیجئے۔ یہ ایوان بالا کہلاتا ہے۔ اس کا مقصد ہی یہ ہے کہ فیڈریشن کے چاروں صوبے برابر ہیں اور نیز یہ کہ اس ایوان میں ایسے جوہر قابل لائے جائیں جو اپنی قابلیت کی بنیاد پر جمہوری اداروں کو تقویت بخش سکیں اور گورننس کی بہتری کی خاطر اپنا رول ادا کر سکیں۔ اس میں ٹیکنوکریٹس کی گنجائش بھی اسی لیے رکھی گئی ہے کہ بعض شخصیات براہ راست انتخابات لڑنے کا میلان نہیں رکھتیں، لیکن عملی طور پر سینٹ کو بھی بازیچۂ اطفال بنا دیا گیا ہے چونکہ اس کا الیکٹورل کالج قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ارکان پر مشتمل ہے اس لیے بعض ''معزز ارکان‘‘ نے اسے مزید مال بنانے کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ خان صاحب کا کہنا ہے کہ سینٹ کے ایک امیدوار نے شوکت خانم ہسپتال کے لیے پندرہ کروڑ روپے کا عطیہ دینے کی بولی لگائی ہے۔ یہ کو ئی حیران کن بات نہیں۔ یہ کھیل تو سالہا سال سے جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابق رہنما گلزار خان ہر مرتبہ بولی لگانے کے عادی رہے ہیں۔ انہوں نے دولت کے بل بوتے پر بڑی دیدہ دلیری کے ساتھ سینٹ کے ووٹ خریدنے کا ریکارڈ قائم کیا۔ اس مرتبہ ان کے دو صاحبزادے وقار خان اور عمار خان مصر کا بازار لگائے بیٹھے ہیں۔ لیکن یہ وبا اب خا صی عام ہے۔ بڑے بڑے بزنس ٹا ئیکون، کالے دھن کے مالک اور اجارہ دار اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہے ہیں اور جوں جوں الیکشن کی تاریخ قریب آ رہی ہے‘ ریٹ بھی بڑھتے جا رہے ہیں۔
پنجاب میں صورتحال نسبتاً نارمل ہے کیونکہ یہاں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی بناء پر حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو واک اوور مل رہا ہے۔ سندھ میں بھی برسر اقتدار جماعت پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے درمیان سینٹ کے انتخابات کے معاملے میں انڈرسٹینڈنگ کے نام پر مک مکا چل رہاہے۔ بلوچستان میں سینٹ کے ووٹوں کی کھلے عام نیلامی ہو رہی ہے۔ یہاں بلوچ سرداروں کے تسلط کی بناء پر انتخابات کا کیا نتیجہ نکلے گا یقین سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) بھی وہاں اس حمام میں ننگی ہے۔ سردار ثناء اللہ زہری برسر اقتدار اکثریتی جماعت کے صوبائی صدر ہیں۔ چند روز قبل وزیر اعظم میاں نواز شریف نے کو ئٹہ میں قیام کے دوران بھرپور کوشش کی کہ مسلم لیگ (ن) کے صوبائی اسمبلی کے ارکان سینٹ کے انتخابات کے دوران ادھر اُدھر نہ ہوں کیو نکہ ارکان اسمبلی میں اس بات پر خاصی ناراضی پائی جاتی ہے کہ پارٹی ٹکٹ صوبائی صدر نے اپنی منشا کے مطابق دے دیے ہیں۔ شنید ہے کہ یہاں ووٹوںکی بولی تین سے پانچ کروڑ روپے فی ووٹ لگی ہوئی ہے۔ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی دعوت پر مسلم لیگ (ن) کے 22 ارکان میں سے صرف دس ارکان ہی تشریف لائے۔ وزیر اعظم نے بلوچستان کے لیے خطیر ترقیاتی فنڈز کا اعلان بھی کیا لیکن پارٹی کے سینئر ارکان خدائے نور، نصیب اللہ بارزئی اور دیگر اہم رہنماؤں کو بھی نظرانداز کر دیا گیا۔ امیر افضل مندوخیل کو جو کہ پنجاب حکومت کے ایک ٹھیکیدار اور وہاں کے حکمرانوں کے منظور نظر صوبیدار مندوخیل کے صاحبزادے ہیں‘ میرٹ کے خلاف ٹکٹ سے نواز دیا گیا۔ نبی بخش زہری نے اپنے چھوٹے بھائی نصراللہ زہری اور برادر نسبتی شہباز درانی کو ٹیکنوکریٹ کی سیٹ پر ٹکٹ سے نوازا ہے۔ مبینہ طور پر وزیر خزانہ اسحق ڈار کی سفارشی کلثوم پروین کو بھی سینٹ کے ٹکٹ سے نوازا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا میں وزیر اعلیٰ پرویز خٹک کی سفارش پر عوامی جمہوری اتحا د کو سینٹ انتخابات سے پہلے پی ٹی آئی میں ضم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس مقصد کے لیے عمران خان نے جمہوری اتحاد کے سربراہ شہرام خان ترکئی کے‘ جو سینئر صوبائی وزیر بھی ہیں‘ والد لیا قت خان ترکئی کو سینٹ کے ٹکٹ کی پیشکش کی ہے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہے کہ پارٹی کے صوبائی صدر اور فنانسر اعظم خان سواتی ٹکٹ سے محروم رہ گئے ہیں۔ انھوں نے ایک پارٹی کے وفادار رکن کے طور پر دعویٰ کیا ہے کہ وہ رضاکارانہ طور پر ٹکٹ سے دستبردار ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود وہ سمجھتے ہیں کہ سینٹ کی سیٹ کے لیے وہ بہترین امیدوار تھے لیکن انھوں نے پارٹی کے وسیع تر مفاد میں یہ فیصلہ کیا؛ تاہم سواتی صاحب نے اس بات کی تصدیق کی کہ وزیر اعلیٰ پرویز خٹک سیٹ ایڈجسٹمنٹ کے نام پر اپوزیشن جماعتوں سے مفاہمت کر رہے ہیں۔ اگر ان کی کوششیں کامیاب نہ ہوئیں تو سمگلر اور منشیات کا دھندا کرنے والے سینٹ میں پہنچ جائیں گے۔ اسلام کا نام جپنے والی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کی سینٹ کی نشست کے لیے قرعہ فال جے یو آئی کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کے بھائی مولانا لطف الرحمن کے نام ہی نکلا ہے جبکہ سینیٹرگل نصیب کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) نے اپنے صوبائی صدر پیر صابر شاہ اور سینئر رکن امیر مقام کو نظرانداز کر کے ریٹائرڈ فوجی جرنیل لیفٹیننٹ جنرل صلاح الدین ترمذی کو ٹکٹ سے نواز دیا ہے۔ غالباً صابر شاہ کو غیر شعوری طور پر ''گو نواز گو‘‘ کا نعرہ لگانے کی سزا دی گئی ہے اور امیر مقام تو مسلم لیگ(ق) سے ہجرت کرکے مسلم لیگ (ن) میں آ ئے تھے۔ غالباً جنرل صاحب کو سینیٹر بنا کر کابینہ میں اہم عہدہ تفویض کرنے کا پروگرام ہے۔
فاٹا کے اکثر ارکان بھی سالہا سال سے اپنے ووٹ کی قیمت وصول کرتے چلے آ رہے ہیں اور اب بھی کوئی مختلف معاملہ نہیں ہے۔ شنید ہے کہ حکومت‘ فاٹا کو پاکستان کا الگ صوبہ بنانے یا خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے سلسلے میں بھی آ ئینی ترمیم لانے کے لیے کوشاں ہے بشرطیکہ اس ضمن میں سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے ہو سکے۔ لیکن حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے ہاتھوں نئے صوبے گلگت بلتستان میں جس انداز سے ہارس ٹریڈنگ کی گئی ہے اس نے واقعی اس الزام کو درست ثابت کر دیا ہے کہ سیاست اور اخلاقیات کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ خان صاحب اس سارے معاملے پر خاصے برہم ہیں لیکن دوسری طرف آزاد کشمیر پر قبضہ جمانے کے لیے ان کی جماعت نے جو ہتھکنڈے استعمال کیے ہیں‘ وہ دوسری سیاسی جماعتوں سے قطعاً مختلف نہیں ہیں۔ پی ٹی آ ئی میں بھی تو آ خر دیگر جماعتوں کے ''لوٹے‘‘ اقتدار کی چھاؤں تلے مزے لوٹنے کے لیے جوق در جوق شامل ہو رہے ہیں‘ اس لئے ان سے بھی بہتری کی توقع رکھنا عبث ہے۔ بیرسٹر سلطان محمود جو سالہا سال پیپلز پارٹی میں رہ چکے ہیں اور اس پلیٹ فارم کے حوالے سے آزاد کشمیر کی مخصوص سیاست میں ہاتھ رنگتے رہے ہیں، اب پی ٹی آ ئی میں شامل ہو کر پوتر ہو گئے ہیں۔ محترمہ شیری مزاری نے الیکشن کمیشن کو بھی تڑی لگا دی ہے کہ وہ الیکشن کمشنر سے ملاقات کے دوران معاملہ اٹھائیں گی۔ گویا کوئی بھی سیاسی جماعت ہو‘ بے اصولی کی سیاست سے مبرا نہیں، اسی لیے خان صاحب جب اصولوں کی دہا ئی دیتے ہیں تو یہی کہا جا سکتا ہے ع
دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بند قبا دیکھ