ذہنی اور فکری سوچ میں تبدیلی لانے کی بات یک دم فیشن بن گئی ہے اور سوچوں میں تبدیلی لانے کی یہ بات گذشتہ برس جون میں پاک فوج کی جانب سے دہشت گردی کے خلاف آپریشن 'ضرب عضب ‘شروع کرنے کے ساتھ اور بالخصوص سانحہ آرمی پبلک سکول پشاور کے بعد زور پکڑ گئی ہے۔ اس ضمن میں وزیر اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف خاص طور پر سرگرم عمل ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام کے نام پر قتل و غارت اور کفر کے فتوے کسی صورت میں جائزنہیںاور نہ حکومت اس کی اجازت دے گی۔ میاں صاحب کے مطابق دہشت گردی ایک مائنڈ سیٹ کا نام ہے، جسے ہم سب نے مل کر ختم کرنا ہے لیکن اس کے لیے وقت چاہیے ہوگا کیونکہ جس طرح دہشت گردی راتوں رات نہیں آئی، اسی طرح اسے راتوں رات شکست نہیں دی جاسکتی اور اس کا قلع قمع کرنے کے لیے قوم کو مزیدقربانیاں دینا ہوں گی۔وزیراعلیٰ پنجاب کے جذبات بڑے نیک ہیں لیکن جس قوم سے وہ مزید قربانیاں مانگ رہے ہیں وہ تو پہلے ہی دہشت گردی، مہنگائی، بے روزگاری اور کرپشن کے ہاتھوں قربانی کا بکرا بنی ہوئی ہے۔ اس کے پاس نہ تو جان و مال کی سکیورٹی ہے اور نہ ہی ذریعۂ معاش کی۔ جب تک ہمارا حکمران طبقہ دہشت گردی کے مقابلے میں یکسوئی سے یک جہت اور اکٹھا نہیں ہوتا عوام سے قربانیاں مانگنے کا کیا جواز ہے؟ اس ضمن میں اولین ذمہ داری تو حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) پر عائد ہوتی ہے جوبانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کے فلسفے کی مالاتوجپتی ہے لیکن ان کے افکار پر صحیح معنوں میں عمل کرنے کے بارے میں نیمے دروں نیمے بروں کا رویہ رکھتی ہے۔ پاکستان کی بانی اس جماعت کے بعض زعما ء آج بھی بھانت بھانت کی بولیاں بول کر کنفیوژن میں مزید اضافہ کر رہے ہیں۔ مقام شکر ہے کہ بیانیہ بدلنے کا بیڑا خادم اعلیٰ نے اٹھا لیا ہے کیونکہ میاں نواز شریف تو ماورائی معاملات میں زیادہ مشغول نظر آتے ہیں۔
وفاق کی سطح پر دہشت گردی کے خاتمے کی دہائی تو بہت دی جاتی ہے لیکن عملی اقدامات ہنوز تشنہ ہیں۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ہی لے لیں، موصوف ماضی میں طالبان سے زیادہ طالبان پرست رہے ہیں۔ وہ تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے زبردست حامی تھے۔ جب مذاکرات کا عمل ایک قدم آگے دو قدم پیچھے کے مصداق سرک رہا تھا تو طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کو انھوں نے طالبان سے مذاکرات کے عمل پر ڈرون حملہ قرار دے دیا تھا۔ ایسے مرحلے پر جبکہ نیشنل ایکشن پلان کا بیس نکاتی ایجنڈا عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے تشنہ ہی ہے ،وہ قریباً دو ہفتے کا امریکہ اور برطانیہ کا ورکنگ وزٹ کر کے واپس آئے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خلاف امریکی صدر اوباما کی طرف سے بلائی گئی سمٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے پانچ نکاتی گلوبل ایجنڈا پیش کیا۔ اس پر مجھے پنجابی کا یہ محاورہ یاد آیا۔ ''اپنے نہ جوگی تے گوانڈ وِلان چلی‘‘۔ چاہیے تو یہ کہ پاکستان کو ایک جدید اسلامی جمہوری ریاست بنایا جائے جس میں اقلیتوں سمیت تمام شہریوں کو برابر کے حقوق حاصل ہوں اوریہاں جیواور جینے دو کی پالیسی کی عملی تصویر نظر آئے اور اس ضمن میں واضح ایجنڈا دیا جائے، لیکن اس سمت میں ابھی سفر کا آغاز ہی نہیں ہوا۔حالانکہ حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کو تو چاہیے کہ وہ بابائے قوم کے ارشادات کو مدنظر رکھتے ہوئے یکسو ہوکر سفر کا آغاز کردے اور اس سلسلے میں معذرت خواہانہ رویہ ترک کر دے۔ قائد اعظم کا 11 اگست کو دستور ساز اسمبلی سے خطاب ان کے لیے مشعل راہ بن سکتا ہے جس میں انھوں نے فرمایا تھا کہ پاکستان میں ہندئووں کو مندر وں میں جانے، سکھوں کو گوردواروں میں جانے اور مسلمانوں کو مساجدمیں جانے کی پوری آزادی ہے۔
اے این پی، ایم کیو ایم یا مذہبی جماعتوں سے اس سلسلے میں توقع رکھنا عبث ہے کہ وہ اس سفر میں مسلم لیگ کی ہمسفر ہوں گی۔ جہاں تک گریٹ خان کا تعلق ہے تو انھیں ابھی تک دہشت گردی سے زیادہ اس بات کی فکر ہے کہ مئی 2013 ء کے انتخابات کے نتیجے میں وہ وزیر اعظم کیوں نہیں بنے۔ اس بنا پر انھوں نے تین ماہ سے زیادہ عرصے تک اسلام آباد میں دھرنا دیئے رکھااوردہشت گردی کے خلاف ملکی بقا کی جنگ کے دوران یکجہتی کی فضا بنانے کے بجائے ملک کو ایک ہذیانی کیفیت سے دوچار کیے رکھا اورمیاںنواز شریف بھی اپنا اقتدار بچانے کی تدبیریں کرنے کے ساتھ ساتھ اقتدار کے مزے لوٹنے میں مصروف رہے۔ بالآخر16 دسمبر کے سانحہ پشاور کے باعث ہی دھرنا ختم ہوا۔ اب بھی اگرقومی جہت میں تھوڑی بہت تبدیلی آئی ہے تو اس کا سہرا جنرل راحیل شریف کے سر ہے۔ ان کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی اور ان کے پیش رو جنرل پرویز مشرف نے گڈ اور بیڈ طالبان کی تفریق کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے بالواسطہ طورپر جہادی کلچر کو فروغ دیا اور نام نہاد سیاسی حکومتیں بھی اس اہم معاملے پر سجدہ سہو ہی کرتی رہیں۔ اب جبکہ پاکستان میں نہ صرف فوج اور حکومت کی رائے تبدیل ہو چکی ہے بلکہ رائے عامہ بھی یہی چاہتی ہے کہ پاکستان کو دہشت گردی کے گرداب سے نکالا جائے اور بقائے باہمی کی پالیسیوں نیز اقلیتوں کے تحفظ کا سامان پیدا کیا جائے تو حکومت کو بھی دو ٹوک پالیسی اختیار کرنے میں لیت و لعل سے کام نہیں لینا چاہیے۔حکومت پنجاب کے پاس تو لاہور کی عین مرکزی شاہراہ پر ایوان کارکنان تحریک پاکستان اور نظریہ پاکستان کے نام سے ایک بہت بڑا کمپلیکس موجود ہے لیکن یہ بعض مخصوص مفادات کی بھینٹ چڑھا ہوا ہے۔بیانیہ بدلنے میں یہ ادارہ تھنک ٹینک کا کام دے سکتا ہے لیکن اپنی موجودہ ہیئت ترکیبی کے تحت تو ان تلوں میں تیل نہیں۔
یوم حمید نظامی کی تقریب میں صدارتی خطاب کرتے ہوئے وزیر اطلاعات و نشریات پرویز رشید ،جو ذاتی طور پر ایک روشن خیال شخصیت ہیں، نے بجا طور پر زور دیا کہ میڈیا کو قائد اعظم کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے ۔کاش پرویز رشید جیسے وزرا ء حکمران جماعت کاقبلہ درست کرنے میں ممد ومعاون ثابت ہو سکیں۔
حال ہی میں لاہور میںایک لٹریری فیسٹول منایا گیا، اس میں سکیورٹی خدشات کے باوجود پاکستان کے علاوہ بھارت اور دیگر ممالک سے لکھاریوں ، ادیبوں اور صحافیوں نے شرکت کی۔ اس کااہتمام مقامی بزنس ٹائیکون اقبال زیڈ احمد کے صاحبزادے فصیح اقبال احمد اور رضی الدین احمد کرتے ہیں۔اس میں شہریوں کی جوق در جوق شرکت سے اس امر کا اندازہ ہوا کہ اگر وطن عزیز کے سافٹ امیج کو اجاگر کیا جائے تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے۔ یہ بات کسی حد تک درست ہے کہ مذکورہ میلے میں شرکت کرنے والے زیادہ تر خواتین و حضرات لبرل طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور اس پروگرام کا تعلق بھی انگریزی زبان سے تھا ؛تاہم اگراگلے برس اسی میلے کو وسعت دے کر اس میں اردو لٹریچر کو بھی شامل کیا جائے تو یہ ایک مستحسن اقدام ہوگا ۔ لیکن اصل بات یہ ہے کہ محض حکومت پر انحصار کرنے کے بجائے نجی شعبے کو بھی اس کارخیر میں حصہ لینا چاہیے۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ سرکار سازگار ماحول ہی مہیا نہ کرے۔ ابھی تک اس سلسلے میں مسلم لیگ (ن) کی پالیسیاں جماعت اسلامی سے مختلف نہیں رہیں۔
حکومت پنجاب بھی ہر اس کام میں رکاوٹ بنتی ہے جس کاتعلق شہریوں کی نجی تفریح سے ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر بسنت کو ہی لے لیجیے۔ زندہ دلان لاہور نے اسے سالانہ جشن بنادیا تھا۔ اس کا تعلق کسی مذہبی تہوار سے نہیں تھا بلکہ یہ مخصوص لاہوری تقریب بن گئی تھی ۔اس میںشرکت کے لیے پاکستان اوردنیا بھرمیں بسنے والے پاکستانیوں کے علاوہ بھارت سے بھی مہمان آتے تھے۔ لیکن چوہدری پرویز الٰہی کے دور حکومت میں پنجاب حکومت نے اسے اس لیے بند کر دیاتھا کہ اس سے بجلی کا نظام درہم برہم ہوجاتاتھا اور بعض حادثات بھی ہو جاتے تھے۔ برادر یوسف صلاح الدین کے مطابق بسنت کا تہوار جنوبی ایشیا کا سب سے بڑا ثقافتی ایونٹ بن چکا تھا۔ ان کا خیال ہے کہ بعض پابندیوں کے تحت گڈی بازی کو صرف بسنت کے روز کے لیے بحال کر دینا فائدے مند ہوگا۔ ظاہر ہے کہ وطن عزیز کو محض دہشت گردوں کی آماجگاہ سمجھنے کے امیج سے باہر نکالنا ہوگا اور اس کے لیے کچھ پاپڑ تو بیلنے پڑیں گے۔