کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے۔ حال ہی میںاسلام آباد میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی خارجہ سیکرٹریوں کی سطح پر تجدید ملاقات اس لحاظ سے خاصی کامیاب رہی کہ اس کے ذریعے دو طرفہ تعلقات میں جمود، جو پاکستان کا نہیں بلکہ بھارتی زعما کا پیدا کردہ تھا‘ بالآخر ٹوٹ گیا۔گزشتہ برس جولائی میں انتہا پسند بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے اس وقت مذاکرات کا عمل یک طرفہ طور پر معطل کر دیا تھاجب نئی دہلی میں پاکستان کے ہائی کمشنر عبدالباسط نے حریت کانفرنس کے لیڈروں سے ملاقات کی تھی اور سیکرٹری سطح پر اگست میں طے شدہ مذاکرات بھی بھارت نے یکطرفہ طور پر منسوخ کر دیئے۔پاکستان ہمیشہ حریت پسند کشمیری لیڈر شپ سے رابطے میں رہا ہے اور گزشتہ دہائیوں میںجو بھی پاکستانی حکمران بھارت یاترا کیلئے گیا اس نے بھارت کی رضا مندی سے حریت پسند لیڈروں سے ملاقات ضرورکی لیکن میاں نواز شریف نے اچانک اس روایت کواس وقت توڑا جب وہ گزشتہ برس مئی میں نریندر مودی کی بطور وزیر اعظم تقریب حلف برداری میں شرکت کیلئے نئی دہلی تشریف لے گئے تھے۔اس وقت غالباً میاں صاحب نریندر مودی پر کچھ زیادہ ہی ریشہ خطمی ہونے کے موڈ میںتھے۔شاید ان کا خیال تھا کہ اٹل بہاری واجپائی کی طرح نریندر مودی بھی کانگریس کے برعکس پاکستان سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لیے کوشاں ہوں گے اور'اعلان لاہور ‘جو پرویز مشرف کی ریشہ دوانیوں اور کارگل ایڈونچر کی وجہ سے ٹوٹا تھا اب دوبارہ رواں دواں ہو جائے گا۔اس دورے میں میاں صاحب نے کشمیر کا ذکر کرنا بھی گوارا نہ کیا اور ساڑھیوں کے تبادلے کے بعد جب وہ پاکستان واپس آئے تو انہیں فوج کی ناراضی مول لینے کے علاوہ میڈیا کی طرف سے بھی شدید نکتہ چینی کا سامنا کرنا پڑا۔
مودی اور ان کی ٹیم کے اہم ارکان جن میں ان کے قومی سلامتی کے مشیر اجیت دوول اور اس وقت کے وزیر دفاع ارون جیٹلے نمایاں تھے، نے پاکستان میں میاں نواز شریف سمیت ان لوگوں کی طبیعت صاف کر دی جو بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کے لیے ہمیشہ مضطرب نظر آتے ہیں۔ اس تناظر میں نریندرمودی کے حال ہی میں متعین کردہ سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکرکا سارک یاترا کے ذریعے پاکستان یاترا کا جوا زبنانا خاصا معنی خیز تھا لیکن جو لوگ بھارتی سیاست کے مدوجزر پر گہری نظر رکھتے ہیں انہیں اس اچانک قلابازی پر کوئی تعجب نہیں ہوا۔ تاریخی طور پرکانگریس کے ادوار کے برعکس بھارتیہ جنتا پارٹی اور اس کی حلیف جماعتوں کے ادوار میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں بہتری ہی آئی ہے۔مرار جی ڈیسائی(1977-79ء) بھارت کے پہلے غیر کانگریسی وزیر اعظم تھے۔ مرار جی ڈیسائی وہ واحد بھارتی شہری ہیں جنہیں حکومت پاکستان نے نشان پاکستان عطا کیا تھا۔ضیاالحق کے اس دور میں بھی پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں بہتری آئی۔ ان کی کابینہ کے رکن اٹل بہاری واجپائی بطوروزیر خارجہ پاکستان آئے تھے۔اسی طرح فروری 1999ء میں واجپائی وزیر اعظم کی حیثیت سے بس میں سواری کر تے ہوئے لاہور پہنچے۔نریندر مودی کچھ اور طرح کی شخصیت ہیں۔ یقینا ان کے ہاتھ گجرات میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلمانوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ بھارت کو ایک اقتصادی سپر پاور بنانے کا جنون اُن کے سر پر سوار ہے۔ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کو کانگریس کے برعکس غیرجانبداری کے فلسفے کا ڈھونگ رچانے کا جنون ہے اور نہ ہی امریکہ سے پینگیں بڑھانے پر کوئی حجاب۔ مودی جسے پہلے امریکہ ویزا دینے سے انکار کر چکا تھا،گزشتہ برس ستمبر میں صدر اوباما نے ان کی خوب آؤ بھگت کی اور امریکی صدر جنوری میں بھارت کے 'یوم جمہوریہ‘ کی تقریب میں شرکت کرنے نئی دہلی آئے تو ان کیلئے ریڈ کارپٹ بچھا دیا گیا۔پاکستان سے تجدید تعلقات میں امریکہ کا بالواسطہ کردار واضح ہے،اس کے علاوہ بھارت کے اندرونی حالات (بالخصوص بی جے پی کو نئی دہلی میں حالیہ انتخابات میں عام آدمی پارٹی کے ہاتھوں شرمناک شکست سے دو چار ہونا پڑا اور مقبوضہ کشمیر میں تمام پاپڑ بیلنے کے باوجود مودی کی جماعت کو مخلوط حکومت میں جونیئر پارٹنر بننے پر ہی اکتفا کرنا پڑا) نے بھی مودی کو اپنی پاکستان مخالف پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور کر دیا ہے۔
سیکرٹریز کی سطح پر مذاکرات میں حسب توقع کوئی ڈرامائی نتائج نہیں نکلے۔توقعات کے عین مطابق پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے مسئلہ کشمیر،سرکریک،سیاچن،پانی کے علاوہ سمجھوتہ ایکسپریس،بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کی بھارتی پشت پناہی کے معاملات اٹھائے جبکہ بھارت نے حافظ سعید،ممبئی حملوں کے کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچانے اور نام نہاد کراس بارڈر ٹیررازم کے معاملات کو چھیڑا۔لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر ہونے والی کشیدگی کے خاتمے کیلئے دونوں حکومتوں کے درمیان اتفاق رائے ہو گیا اور اس ضمن میں رینجرز اور بارڈر سکیورٹی فورسز کے درمیان اور ڈی جی ایم اوز کے درمیان رابطوں پر بھی اتفاق کیاگیا۔ تجارتی روابط بڑھانے اور ثقافتی و مذہبی بنیادوں پر آمدورفت تیز کرنے پر بھی بات چیت ہوئی۔
پاکستان میں میاں صاحب کی حکومت گزشتہ برس کے مقابلے میں نسبتاً مستحکم ہے اور فوج کے ساتھ تال میل بھی اچھا ہے۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری کو بھارتی لیڈر شپ پر واضح کرنا پڑا کہ پاکستان کے عوام مسئلہ کشمیر سے قلبی لگاؤ رکھتے ہیں لہٰذا پاکستان اس سے صرف نظر نہیں کر سکتا۔بھارتی سیکرٹری خارجہ سبرامنیم جے شنکرنے میاں نواز شریف سے ملاقات میں نریندر مودی کا خط بھی دیا لیکن میاں صاحب کو بعد از خرابی بسیار ہی سہی یہ احساس ہو گیا ہے کہ بھارت سے پینگیں بڑھانے کیلئے نہ صرف فوج کے تحفظات کو دور کرنا ہو گا بلکہ اسے ساتھ لے کر بھی چلنا ہو گا۔ حالیہ چند ماہ میں پاکستان کی خطے میں صورتحال بہتر ہوئی ہے اور وہ پہلے کی طرح خود کو یکہ و تنہا محسوس نہیں کر رہا۔جب سے اشرف غنی نے افغانستان میں منصب اقتدار سنبھالا ہے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں سردمہری بلکہ مخا صمت کم ہوگئی ہے،اس ضمن میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا بھی کلیدی کردار ہے جو اپنے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیانی کے برعکس فلسفیانہ موشگافیوں میں الجھنے کے بجائے سیدھے اور دو ٹوک انداز سے آگے بڑھتے ہیں۔ بھارت سے تعلقات میں بہتری بھی ایک مثبت پیش رفت ہے۔ برادر اسلامی ملک ایران سے بھی تعلقات میںخاصی بہتری آرہی ہے ۔ میاں برادران کے حالیہ دورہ سعودی عرب کے حوالے سے قیاس آرائیاں کی جا رہی ہیں کہ شاید سعودی عرب ،امریکہ اور ایران کے درمیان نیو کلیئر معاہدے پر حتمی مذاکرات سے خائف ہے اور وہ پاکستان کو کسی ایران مخالف سنی الائنس میں شامل کرنا چاہتا ہے، یقیناً ایسا نہیں ہوگا کیونکہ وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ہے اور وہ اس سلسلے میں ہونے والی اندرونی جنگ 'ضرب عضب‘ کو اس کے منطقی انجام تک پہنچانا چاہتا ہے۔ اس بنا پر پاکستانی قوم یا فوج ایسے جھمیلوں میں پڑنے کی متحمل نہیں ہو سکتی۔ ہمیں اپنے وسیع تر قومی مفاد میں ایسے قضیوں میں ہرگز نہیں پڑنا چاہیے۔