فرانسیسی کہاوت جس کا مفہوم انگریزی میں کچھ یوںہے۔ "The more things change, the more they stay the same"۔ گویا کہ محض سطح پر تبدیلی آنے سے بنیادی حقیقتیں نہیں بدل جاتیں۔ کچھ یہی حال پاکستان کا ہے۔ہمارے بیرونی اور اندرونی طور پر حالات تغیر پذیر ہیں لیکن ہماری چال وہی بے ڈھنگی ہے۔ بظاہر وطن عزیزمیں جمہوریت اور جمہوری اداروں کا احیا ہو چکا ہے، پارلیمنٹ کی بالادستی کی خوب دہائی دی جاتی ہے، میڈیا بھی بظاہر بہت آزاد ہے لیکن اس کے باوجود حقائق عوام سے مخفی رکھے جاتے ہیں۔یمن میں حوثی باغیوں کی شورش سے پیدا ہونے والے حالات میں پاکستان بھی باقاعدہ ایک فریق بن گیا ہے۔سعودی عرب کی قیادت میں دس ممالک پر مشتمل ایک مخلوط فوج تشکیل دی گئی ہے جو یمن میں باغیوں کی یلغار کو روکے گی۔ پاکستان کے سوا یہ تمام کے تمام ممالک عرب لیگ کے رکن ہیں۔ ان میںمصر، اردن، عراق، سوڈان، متحدہ عرب امارات اور قطر نمایاں ہیں۔
آج اپوزیشن کے بھرپور مطالبے پراسلام آباد میں پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس ہو رہا ہے۔ کہا یہ جا رہا ہے کہ اس اجلاس میں سعودی عرب کی مدد کے لیے پاکستانی فوج بھیجنے کے سوال پر غور کیا جائے گا لیکن باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ فوجی اور سول حکام کے درمیان یہ طے پاچکا ہے کہ فوج بھیجی جائے گی؛ تاہم یہ بات ا بھی صیغۂ راز میں ہے کہ ہمارے پائلٹ حوثیوں پر بمباری کریں گے یا ہماری فوج شمالی وزیرستان کی طرز پر یمن میں کوئی آپریشن کرے گی۔وزیراعظم میاں نواز شریف صاحب کا کہنا ہے کہ اگرسعودی عرب کی سا لمیت پر کوئی آنچ آئی توہم سعودی بھائیوں کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے۔میاں صاحب کے جذبات بڑے نیک ہیں لیکن اس قسم کے بنیادی فیصلے کرنے سے پہلے قوم کے سامنے تمام حقائق تو رکھنے چاہئیں۔ محض گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے لیے پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلاناچہ معنی دارد ۔
چند روز قبل وزیر دفا ع خواجہ محمد آصف کی قیادت میں ایک وفد جس میںقومی سلامتی کے مشیر سرتاج عزیز اورخارجہ امور کے بارے میں وزیر اعظم کے معاون خصوصی طارق فاطمی بھی شامل تھے، سعودی عرب کا دورہ لگا آیا ہے۔ انھوں نے کیا رپورٹ پیش کی‘ کسی کو معلوم نہیں۔ عوام نے تو الیکٹرانک میڈیا پر میاں نواز شریف کی صدارت میں ہونے والے ایک اعلیٰ سطح کے اجلاس کی جھلک دیکھی ہے جس میں خواجہ آصف، سرتاج عزیز ، آرمی چیف جنرل راحیل شریف، ائیرچیف سہیل امان اور نیول چیف ایڈمرل محمد ذکاء اللہ بھی شریک تھے۔ آج کے اجلاس میں حکومت کو جو بھی مینڈیٹ چاہیے ہوگاوہ مل جائے گا‘ کیونکہ زرداری صاحب بھی حال ہی میں ایک نام نہاد اے پی سی میںجس میںعوامی نیشنل پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام (ف)شامل تھیں، فوجیں بھیجنے کے معاملے پر اتفاق کر چکے ہیں۔ عمران خان بھی جو پہلے پاکستانی فوج کو سعودی عرب بھیجنے کے معاملے پر آگ بگولہ ہو رہے تھے اب صحیح جگہ سے ''اشارہ‘‘ ملنے پر رام ہو چکے ہیں۔لہٰذا حکومت کو پارلیمنٹ میں اپنے اس فیصلے پر جو وہ پہلے ہی کر چکی ہے‘ انگوٹھا لگوانے میں کوئی مشکل پیش نہیں آنی چاہیے۔
میاں صاحب نے جمعہ کو اپنے دورہ کے موقع پر ترکی میں فرمایا ہے کہ پاکستان اور ترکی سعودی عرب کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کاش وہ اپنے ترک میز بانوں سے یہ بھی پوچھ لیتے کہ انھوں نے اپنی فوج سعودی عرب بھیجنے پر ہامی کیوں نہیں بھری؟ یہاں دانستہ طور پر یہ تاثر بھی دیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ مسلمانوں کے لیے مقدس ترین شہروں حرمین الشریفین کو کوئی خطرہ ہے لہٰذا ان کی حفاظت تمام مسلمانوں پر واجب ہے لیکن حقیقت حال تھوڑی سی مختلف ہے۔ سعودی رہنماؤں کو تو اس بات کا قلق ہے کہ حوثی قبائل ایران کے زیر اثر ہیں اوراگر ان کا عدن پر قبضہ ہوگیا تو وہ ان کے پچھواڑے میں بیٹھ جائیں گے لہٰذا انھیں وہاں سے نکالنا ضروری ہے۔ ان قبائل کی یلغار سے فی الحال تو سعودی بادشاہت کو کوئی خطرہ نظر نہیں آرہا۔ وہ تو یمن کے صدرعبدالرب منصور ہادی کو فارغ کر کے صدارتی محل پر قابض ہوئے تھے بعدازاں وہ پسپا بھی ہوگئے۔ یہ عجیب ستم ظریفی ہوگی کہ پاک فوج پاکستان میں تو القاعدہ کے خلاف سینہ سپر ہے لیکن یمن میں وہ اُس کے شانہ بشانہ لڑے گی اس لیے پاکستان کوتو چاہیے کہ بجائے کسی فوج کشی میں شریک بننے کے، معاملے کے سفارتی حل میںممد و معاون ثابت ہو۔ شنید ہے کہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف سوئٹزرلینڈ میں امریکہ اور چھ مغربی ممالک کے ساتھ کامیابی سے جوہری معاہدہ کرنے کے بعد اب اسلام آباد آرہے ہیں۔ ایران پہلے ہی پاکستان کی یکطرفہ اور اس کے بارے میں سرد مہرانہ پالیسیوں کی بنا پر نالاں ہے اور اس تازہ بحران کے حوالے سے بھی اپنا احتجاج ریکارڈ کراچکا ہے۔ ایران ہمارا برادراسلامی ملک ہونے کے ساتھ ساتھ ہمارا ہمسایہ بھی ہے۔ مزید برآں پاکستانی فوج اس وقت دہشت گردی کی سرکوبی کے لیے ''ضرب عضب‘‘ میں مصروف ہے۔ ابھی تحریک طالبان پاکستان اور اس کے حواری گروپ جو ملک بھر میں پھیلے ہوئے ہیں‘ ان کی سرکوبی کا عمل شروع ہونا باقی ہے۔ بڑے تزک و احتشام اور اتفاق رائے سے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد ابھی قریباً نہ ہونے کے برابر ہے۔ بھارت کے ساتھ ہمارے معاملات طے نہیں ہوپائے اور نریندرمودی کی جارحانہ بیٹنگ کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔نیٹو اپنی فوجیں افغانستان سے نکال رہا ہے۔ اس کے بعد جو صورتحال پیدا ہوگی اس میں بھی پاکستانی فوج اور انٹیلی جنس اداروں کا کلیدی رول ہوگا۔ ان تمام تر قباحتوں کے باوجود لگتا ہے کہ میاں صاحب سعودی عرب کی عملی مدد کرنے کے لیے بے تاب ہیں اور اس ضمن میں انھیں فوج کی بھی بھرپور حمایت حاصل ہے۔
قیام پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز کو ہمارے حکمرانوںنے مختلف قسم کے امریکہ نوازدفاعی معاہدوں میں پھنسایا۔ پچاس کی دہائی میں پاکستان سیٹو اور سینٹو میں شامل ہوا۔ 1979ء میں سوویت یونین کی افغانستان پر فوج کشی کے بعد ضیاء الحق نے امریکہ سے خوب ڈالر وصول کیے اور مجاہدین کو مال بھی دیا اور جدید امریکی اسلحہ بھی لیکن اس آڑ میں ہمارے فوجی حکمرانوں نے اپنی جیبیں بھی ڈالروں سے بھر لیں جس سے وہ آج تک مستفید ہو رہے ہیں۔ نائن الیون کے بعد جنرل پرویز مشرف بھی اپنے اقتدار کو دوام دینے اور امریکی ڈالر اینٹھنے کی خاطر امریکی الٹی میٹم کے سامنے سر تسلیم خم کر بیٹھے لیکن اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ یہ اربوں ڈالر پاکستانی عوام کی کوئی حالت نہ سنوار سکے۔ حکمران طبقہ امیرسے امیر تر ہوتا چلا گیا لیکن عوام کے حصے میں غربت، بے روزگاری،محرومی، بدامنی اور دہشت گردی ہی آئی۔ پاکستان آج جس دہشتگردی کا شکار ہے اس کے تانے 1979 ء کے بعد پاکستان کی افغان پالیسی سے ملتے ہیں جس کے نتیجے میں پاکستان میں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر نے جنم لیا اور ایک جہادی کلچر کی بنیادرکھی گئی جو ہماری جڑوں میں بیٹھ گیا۔ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج کو احساس ہو گیا تھا کہ اب پانی سر سے گزر تا جا رہا ہے لہٰذا پاک فوج کو ہی ماضی میں جرنیلوں کے بوئے ہوئے کانٹوں کو چننا پڑ رہا ہے۔ اس صورتحال میں شایدیہ سوچ پروان چڑھ رہی ہے کہ پیٹروڈالرز سے ہماری اقتصادی صورتحال بہتر ہوجائے گی اور فوج کو بھی وسائل میسر آجائیں گے لیکن ماضی کی طرح یہ بہت مہنگا سودا ہوگا۔ ہمیں اپنی جملہ کوتاہیوں، کمزوریوں کا جائزہ لے کر ان پالیسیوں کو معروضی حالات کے مطابق وضع کرنا ہوگا۔