ملیر کراچی کے اب معطل شدہ ایس پی رائو انوار کے ایم کیو ایم کے گرفتار شدہ کارکنوں کے حوالے سے سنسنی خیز انکشافات کے بعد ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔ ایک نسبتاً جونیئر پولیس آفیسر کی جانب سے متحدہ قومی موومنٹ پر بھارت کی خفیہ ایجنسی 'را‘ کا ایجنٹ ہونے کا الزام ایک انتہائی سنگین معاملہ ہے۔ رائو انوار نے جمعرات کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران دو ملزمان طاہر ریحان عرف لمبا اور جاوید لنگڑا کے بھائی جنید کو میڈیا کے سامنے پیش کیا۔ پولیس کے مطابق ان ملزمان سے بڑی مقدار میں بھارتی اور روسی ساخت کا اسلحہ اور گولہ بارود بھی برآمد ہوا ہے۔ دوسری طرف حسب توقع ایم کیو ایم نے ان الزامات کی سختی سے تردید کرتے ہوئے الٹا الزام عائد کیا ہے کہ یہ ملزمان بہت پہلے گرفتار کیے گئے تھے اور متحدہ کو باقاعدہ منصوبے کے تحت بدنام کیا جا رہا ہے اور یہ منصوبہ بدھ کی شام وزیراعلیٰ ہائوس میں ہونے والے ایک اجلاس میں تشکیل دیا گیا جس میں آصف علی زرداری کے علاوہ ایک تیسری شخصیت بھی شریک تھی۔ ایم کیو ایم کے رہنما حیدر عباس رضوی کا کہنا تھا کہ اس تیسری شخصیت کے نام کا پتا لگا لیا جائے تو ساری کہانی طشت از بام ہو جائے گی۔ واضح رہے کہ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف بھی بدھ کو کراچی میں تھے اور غالباً حیدر عباس کا اشارہ انہی کی طرف تھا کہ وہ اس مبینہ اجلاس میں شریک تھے۔ حالانکہ حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ جنرل راحیل شریف وہاں کور ہیڈ کوارٹر زمیں کور کمانڈر اور ڈی جی رینجرز کے ساتھ کراچی آپریشن کے نتائج کے حوالے سے بریفنگ لے رہے تھے۔ وہ اپنے اس دورے کے دوران کسی سیاست دان سے نہیں ملے بلکہ اسی شام چھ بجے کراچی سے روانہ ہو کر آٹھ بجے اسلام آباد پہنچ گئے تھے۔ تاہم جنرل راحیل شریف نے کراچی کے اس دورے کے دوران صرف یہ کہنے پر اکتفا کیا کہ کراچی میں تمام مافیاز کا خاتمہ کیا جائے گا۔
حیدر عباس رضوی کی اس درفنطنی کے بعد الطاف حسین نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور انتہائی طیش کے عالم میں پاک فوج کو براہ راست رگید دیا۔ دھمکی آمیز انداز میں فرمایا کہ 'را‘ سے کہتا ہوں کہ ایک بار ہمارا ساتھ دے دو‘ نیز یہ کہ کارکن روزانہ ایک گھنٹے کی فوجی ٹریننگ کریں پھر دیکھا جائے کہ خون ظالم کا بہتا ہے یا مظلوم کا۔ اس قسم کی غیرذمہ دارانہ زبان کسی قومی سیاسی جماعت کے سربراہ کو زیب نہیں دیتی اور اس طرح لندن میں مقیم متحدہ کے سربراہ نے ناقدین کے اس پر لگنے والے الزامات کی تصدیق کردی ہے۔ الطاف حسین نے فوج کو براہ راست نشانہ بناتے ہوئے یہ تک کہہ دیا کہ وہ لوگ جو خود ہتھیار ڈال چکے ہیں پاکستان کے لیے قربانی دینے والوں کی حب الوطنی پر نکتہ چینی کرتے ہیں۔ اس ہرزہ سرائی پر فوج کی طرف سے شدید ردعمل کا اظہار کرنا ایک فطری عمل ہے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ نے اپنی مخصوص ٹویٹس کے ذریعے الطاف حسین کے فوج کے بارے میں ریمارکس کو غیر ضروری اور بیہودہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہیں برداشت نہیں کیا جائے گا اور اس ضمن میں قانونی چارہ جوئی کی جائے گی۔ تاہم ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کا اصرار ہے کہ الطاف حسین نے فوج کی قیادت پر کوئی تنقید نہیں کی بلکہ انہوں نے تو جنرل راحیل شریف کی انصاف کے حصول کے لیے کوششوں کو سراہا ہے۔ بعد از خرابی بسیار ایم کیو ایم کے سیماب پا سربراہ نے معذرت تو کر لی ہے لیکن جذباتیت پر مبنی ان کے متذکرہ بیان سے فضا مکدّر ہو گئی ہے۔ حتٰی کہ وزیراعظم نواز شریف کہ بھی یہ کہنا پڑا ہے کہ کچھ کہنے سے پہلے سوچنا چاہیے نیز یہ کہ فوج کی ساکھ کا خیال رکھنا حکومتی ذمہ داری ہے۔ ایم کیو ایم کی اس انوکھی منطق سے جس میں وہ حقائق کو اپنی مرضی کے مطابق توڑنے مروڑنے میں یدطولیٰ رکھتی ہے، اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ تمام ٹی وی چینلز ان رشحاتِ فکر کو 'لائیو‘ ٹیلی کاسٹ کرتے ہیں لہٰذا اس بارے میں ابہام کی کوئی گنجائش نہیں کہ انہوں نے فوج اور فوجی قیادت پر تنقید کی ہے۔وقتی طور پر ایم کیو ایم کا موقف کہ الطاف حسین نے فوج پر تنقید نہیں کی،مان لیا جائے تو پھر الطاف حسین نے معافی کیوں مانگی۔متحدہ کے قائد کی یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے کہ وہ رات کو اداروں پر تنقید کرتے ہیں اور صبح کو معافی تلافی کرتے رہتے ہیں،اس کی پہلے بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
پاک فوج کے ماضی میں ملکی سیاست میں ملوث ہونے کے بارے میں ہم کئی بار تنقید کر چکے ہیں نیز فوج کی سابق قیادت کے ہوتے ہوئے بھی تحریک طالبان پاکستان کے خلاف کارروائی نہ کرنا بھی ایک متنازعہ معاملہ رہا ہے۔ تاہم جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج نے جس بہادری اور فیصلہ کن انداز سے دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب کی صورت میں کارروائی کی ہے اسے‘ نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی سراہا جا رہا ہے۔ اس دوران فوجی افسروں اور جوانوں نے جام شہادت نوش کیے لہٰذا فوج پر بے جا نکتہ چینی کا واقعی کوئی جواز نہیں ہے۔
اگر ایم کیو ایم کی قیادت کا خیال تھا کہ کراچی میں اس کے گڑھ حلقہ این اے 246 میں شاندار کامیابی کے بعد اسے کھلی چھٹی دے دی جائے گی تو یہ ایک خام خیالی تھی۔ یقینا اس حلقے کی کامیابی ایم کیو ایم کی سیاسی فتح ہے لیکن اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ اس کے زیر سایہ جرائم پیشہ عناصر‘ بھتہ مافیا‘ آتش زنوں کو بخش دیا جائے گا۔ وزیراعظم میاں نوازشریف نے ستمبر 2013ء میں ایم کیو ایم سمیت تمام سٹیک ہولڈرز کے ساتھ اتفاق رائے سے کراچی کی روشنیوں کو بحال کرنے کے لیے آپریشن شروع کیا تھا اور جب تک اس کارروائی کو اس کے منطقی انجام تک نہیں پہنچایا جاتا یہ کیونکر ممکن ہے۔ ایم کیو ایم کو یہ راگ الاپنے کے بجائے کہ اسے 'سنگل آئوٹ‘ کیا جا رہا ہے اپنے اندر جرائم پیشہ عناصر کی خود بیخ کنی کرنی چاہیے تھی۔ یقینا سندھ کے شہری علاقوں میں اس کو بھرپور سیاسی برتری حاصل ہے لیکن یہ اس بات کا جواز نہیں بن سکتا کہ مجرمانہ کارروائیاں بھی ساتھ ساتھ جاری رہیں اور پارٹی کے سربراہ ایسا طرز تکلم اختیار کریں جس سے فوج سمیت پاکستان کے ریاستی اداروں کی توہین کا پہلو نکلتا ہو۔
دوسری طرف بلوچستان اسمبلی نے الطاف حسین کی فوج کے خلاف تقریر سے متعلق مذمتی قرارداد منظور کر لی ہے ۔قرارداد میں الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے خلاف سخت کارروائی کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے،قرارداد میں مزید کہا گیا ہے کہ الطاف حسین کا بیان آرٹیکل چھ کے زمرے میں آتا ہے اس لئے ان کے خلاف کارروائی کی جائے۔
کسی جماعت کو غیر قانونی قرار دینا ایک ناپسندیدہ فعل ہے جس کے ماضی میں کبھی مثبت نتائج برآمد نہیں ہوئے۔ اسی بنا پر ایم کیو ایم کو اپنا سیاسی کردار ادا کرنے کی پوری اجازت ہونی چاہیے لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسے بھی اپنے مخالفین کے بارے میں 'جیو اور جینے دو‘ کی پالیسی اپنانا ہوگی۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف اور بعض وفاقی وزراء بھی الطاف حسین کے بیانات کے حوالے سے مذمتی مہم میں شامل ہو گئے ہیں۔ عمران خان بھی میاں نوازشریف کی خاموشی پر خوب برسے ہیں ،ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم کی خاموشی حیران کن ہے ،تاہم وزیر اعظم نے دو ٹوک انداز میں حکومتی مؤقف واضح کر دیا ہے۔ ایک ایس ایس پی سے اتنے سنگین الزامات لگوا کر پراپیگنڈا مہم میں تو فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے لیکن یہ مسئلے کا حل نہیں ہے۔ ایک نسبتاً جونیئر افسر سے اس قسم کے الزامات لگوانے کے بجائے وزیرداخلہ چودھری نثار علی خان جنہیں پریس کانفرنسیں کرنے کا بہت شوق ہے اس حوالے سے پالیسی بیان کیوں نہیں دیتے اور اگر اس پولیس آفیسر کے بیان میں تھوڑی سی بھی صداقت ہے تو پھر یہ معاملہ اعلیٰ عدالت میں لے جانا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے۔ بصورت دیگر ایم کیو ایم یہ دعویٰ کرنے میں حق بجانب ہوگی کہ حکومت کا کیس کمزور ہے اور محض اس کا منہ کالا کرنے کے لیے الزام تراشی کی جا رہی ہے۔