"ANC" (space) message & send to 7575

یمن جنگ میں پاک فوج کی شمولیت ؟

سعودی عرب کی یمن پر یلغار سے بھی بڑی خبر مملکت حرمین شریفین کی قیادت میں ہونے والی بنیادی تبدیلیاں ہیں۔ سعودی عرب کے نئے بادشاہ‘ شاہ سلمان بن عبدالعزیز ‘جنہوں نے اسی برس جنوری میں شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز کے انتقال کے بعد عنان اقتدار سنبھالی تھی‘ اپنے پیش روئوں سے خاصے مختلف ثابت ہو رہے ہیں۔ یمن کی کارروائی بھی اس لحاظ سے منفرد تھی کہ تاریخ میں پہلی مرتبہ سعودی عرب نے امریکہ کی براہ راست مدد کے بغیر کچھ عرب بادشاہتوں کے اتحاد کے ذریعے یمن میں کارروائی کا آغاز کیا لیکن اعلیٰ قیادت میں بنیادی تبدیلیاں اس سے بھی زیادہ دوررس ثابت ہوں گی۔ اسّی سالہ خادمِ حرمین شریفین نے گزشتہ ہفتے عین فجر کے وقت اپنے سوتیلے بھائی ولی عہد شہزادہ مقرن بن عبدالعزیز کو‘ جو شاہ عبداللہ مرحوم کے انتہائی قریب تھے‘ ولی عہد کے منصب سے فارغ کردیا اور اپنے بھتیجے نائب وزیر داخلہ شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد مقرر کردیا۔ اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ اپنے چہیتے بیٹے محمد بن سلمان‘ جو اس وقت وزیر دفاع ہیں اور یمن میں کارروائی کی قیادت بھی کر رہے ہیں‘ کو نائب ولی عہد بنا دیا۔ اس طرح یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہو گئی ہے کہ سعودی عرب میں شاہ سلمان‘ شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں میں سے آخری شخص ہیں جو بادشاہت کے منصب پر فائز ہوئے ہیں۔ اب شاہ عبدالعزیز کے بیٹوں کے بجائے پوتوں کی باری ہے۔ شاہ سلمان نے اپنے پیش رو شاہ عبداللہ کے قریباً تمام صاحبزادوں کو آہستہ آہستہ امور مملکت سے فارغ کردیا ہے۔ جہاں تک مقرن بن عبدالعزیز کا تعلق ہے‘ کہتے ہیں کہ ان میں بادشاہ بننے والی کوئی بات نظر نہیں آتی تھی۔ دوسری طرف نسبتاً نوجوان چونتیس سالہ محمد بن سلمان اپنی عمر سے بڑی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ یمن میں یلغار کو باقی دنیا میں تو ناکامی سے تعبیر کیا جاتا ہے لیکن سعودی عرب میں رائے عامہ( اگر اس کا کوئی وجود ہے) میں یہ مہم جوئی انتہائی مقبول ہے ۔ سعودی عرب کے عوام کے نزدیک یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ ان کی حکومت نے اس انداز سے ایران کو آنکھیں دکھائی ہیں۔ پاکستان میں تاثر کے برعکس ایران، سعودی عرب اور مشرق وسطیٰ کی اکثر بادشاہتوں میں ایک توسیع پسندانہ عزائم والا ملک جانا جاتا ہے۔ اسی بنا پر یہ ممالک ایران سے خوف زدہ رہتے ہیں اور کیوں نہ ہوں؟ ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ نے لبنان اور شام میں اپنے مخالفین کے چھکے چھڑا رکھے ہیں۔ اسرائیل بھی اگر کسی ملک سے خوف کھاتا ہے تو وہ ایران ہی ہے۔ اسی بنا پر اسرائیل کا وزیراعظم نیتن یاہو امریکہ اور ایران کے درمیان ایٹمی معاہدے کی شروعات پر انتہائی خوف زدہ ہے اور ہر قیمت پر اسے سبوتاژ کرنے کے در پے ہے۔سعودی عرب بھی امریکہ اور ایران کے مابین برف پگھلنے کے عمل سے خائف ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ نے اپنے نام نہاد عالمی مفادات کی آبیاری کے لیے مشرق وسطیٰ میں ایسی پالیسیوں کو اپنایا جن سے نہ صرف اس کے اپنے بلکہ سکیورٹی کے لیے اس پر بھروسہ کرنے والے ممالک کے مفادات کو بھی زک پہنچی اور ان ممالک میں ایران کا اثرو رسوخ بڑھ گیا۔ مثال کے طور پر عراق میں جارج ڈبلیو بش کی فوجی مہم جوئی اور عراق کے آمرِ مطلق صدام حسین کو گرفتار کر کے پھانسی چڑھانے کے بعد وہاں پر اہل تشیع کی حکومت قائم ہو گئی۔ اسی طرح شام میں بشار الاسد کے خلاف مہم جوئی نے اس کا تو کچھ نہیں بگاڑا لیکن وہاں اور عراق میں آئی ایس آئی ایس یعنی 'داعش‘ تیزی سے ابھر آئی اور القاعدہ کی سرگرمیاںبھی بڑھ گئیں ۔ مصر میں جہاں صدر اوباما نے جمہوریت کا درس دیا تھا وہاں عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی مرسی حکومت کو فارغ کر کے ایک باوردی جرنیل السیسی امریکہ‘ سعودی عرب اور اسرائیل کی حمایت سے وردی اتار کر صدر بنے بیٹھے ہیں جبکہ مرسی جیل میں سزائے موت کے منتظر ہیں۔ اس تناظر میں سعودی عرب میں حالیہ تبدیلیاں‘ جن میں قریباً چالیس برس تک وزیر خارجہ رہنے والے سعود الفیصل کی جگہ امریکہ میں سعودی عرب کے سفیر عادل الجبیر کی تقرری بھی قابل ذکر ہے لیکن کیا یہ تبدیلیاں تیل کی دولت سے مالا مال مملکت حرمین شریفین سعودی عرب میں آلِ سعود کے اقتدار کو دوام بخش سکیں گی؟۔
اس سے بڑی ستم ظریفی اور کیا ہو سکتی ہے کہ آج یہ عرب ممالک اور اسرائیل جوفلسطینیوں کا خون بہا رہا ہے‘ ایک ہی صف میں کھڑے ہیں۔ جہاں تک یمن میں سعودی عرب کی یلغار کا تعلق ہے وہاں حوثیوں پر شدید بمباری پر اُس کا حلیف امریکہ بھی چیخ اٹھا ہے کہ سعودیہ باوجود جنگ کے کٹھ پتلی صدرہادی کو اقتدار واپس نہیں دلوا سکا۔ پاکستان کو اس فوجی مہم میں گھسیٹنے کی اس کے عرب حلیفوں کی بے پناہ کوششیں تاحال رنگ نہیں لا سکیں۔ ہماری پارلیمنٹ نے درست فیصلہ کیا کہ ہمیں اس قضیے میں نہیں پڑنا چاہیے۔ وزیراعظم میاں نوازشریف‘ فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف بعد ازخرابی بسیار سعودی عرب کا دورہ کر چکے ہیں۔ یہ باتیں بھی گشت کر رہی ہیں جن کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ پاکستان نے وہاں فوج بھیجنے کی ہامی بھر لی ہے لیکن زمینی حقائق کے پیش نظر ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔ اس وقت پاک فوج اندرونی طور پر پاکستان کے ارد گرد سکیورٹی کے معاملات میں بھی ہمہ تن مصروف ہے۔ فوج نہ صرف مشرقی اور مغربی سرحدوں کی حفاظت کر رہی ہے بلکہ اندرونی طور پر سرگرم دہشت گردوں کا قلع قمع کرنا بھی اس کی بنیادی ذمہ داری ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ چینی صدر کے حالیہ دورۂ پاکستان کے دوران قریباً 46 ارب ڈالر کی چین کی سرمایہ کاری کے تحت لگنے والے پراجیکٹس کی حفاظت کے لیے بھی دس ہزار افراد پر مشتمل خصوصی فورس بنانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
سعودی عرب جو ہر مشکل وقت میں ہمارے کام آیا،اس پر مشکل وقت آنے پر پاکستان اس کی دامے،درمے،سخنے مدد کرنے کو تیار ہوگا لیکن جیسا کہ بھارت کے ساتھ ممکنہ فوجی مہم جوئی میں پاکستان میں کوئی بھی شخص یہ توقع نہیں کرتا کہ عرب فوجیں ہمارے شانہ بشانہ لڑیں،اسی طرح ہمارا یمن پر غلبے کی لڑائی میں عملی طور پر ملوث ہونا ہمارے لئے بہت مہنگا سودا ہو گا کیونکہ فوج کی لاجسٹک کمزوریوں کے علاوہ ہم برادر اسلامی ہمسایہ ملک ایران جو ایک اقتصادی اور عسکری طاقت کے طور پر ابھر رہا ہے، کو یکسر ناراض نہیں کر سکتے۔
یہ عجیب بات ہے کہ اس نازک مرحلے پر سعودی عرب پاکستان میں مذہبی ڈپلومیسی کر رہا ہے۔ پہلے سعودی عرب کے مشیر مذہبی امور عبدالعزیز بن عبداللہ العمار نے پاکستان کا دورہ کیا اور مختلف مذہبی جماعتوں کے رہنمائوں سے ملاقاتیں کیں۔ بعدازاں وزیر مذہبی امور اپنے پاکستانی ہم منصب سے ملاقات کے لیے تشریف لائے اور ان سے ایک گھنٹے کی ملاقات کے بعد سارا وقت مذہبی لابی کے ساتھ گزارا اور حال ہی میں امام مسجد الحرام الشیخ خالد الغامدی پاکستان کے طویل دورے پر تشریف لائے اور انہوں نے یہاں صدر مملکت ممنون حسین‘ سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق سے لے کر کئی مقتدیوں کے ساتھ نمازوں کی امامت کی۔ یہ امر انتہائی بابرکت ہے لیکن پارلیمنٹ کی مشترکہ قرارداد کے حوالے سے ان کا یہ بیان کہ پاکستان کی پارلیمنٹ اور پاکستانی قوم کی سوچ میں فرق پایا جاتا ہے‘ بصد معذرت محل نظر ہے۔ سعودی قیادت کو شاید یہ باور نہیں کرایا جا سکا کہ پاکستان اب ایک جمہوری ملک ہے جہاں جمہوری ادارے آزادی سے کام کر رہے ہیں اور اب وہ 'ون ونڈو آپریشن‘ بھی نہیں ہے جو فوجی آمروں جنرل ضیاء الحق یا جنرل پرویز مشرف کے ادوار میں ہوتا تھا۔ کاش پاکستان میں مقیم سعودی عرب کے سفیر ڈاکٹر عبدالعزیز ابراہیم صالح الغدیر اپنی حکومت کو جمہوریت کی ان 'پیچیدگیوں‘ سے آگاہ کردیتے۔ اب شنید ہے کہ لبنان میں سعودی عرب کے سفیر علی عواض العسیری جو پہلے سات سال تک پاکستان میں سفیر رہ چکے ہیں اور اسلام آباد میں انتہائی مقبول ہیں‘ ان کی پاکستان میں دوبارہ تعیناتی کی جا رہی ہے تاکہ سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان تعلقات کو بہتری کی طرف لایا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں