گلگت بلتستان کے علاقے نلتر میں پاک فوج کے ہیلی کاپٹر کا کریش ہونا انتہائی اندوہناک سانحہ ہے۔ اس میں ناروے اور فلپائن کے سفیروں کے علاوہ ملائیشیا اور انڈونیشیا کے سفیروں کی بیگمات جاں بحق ہوگئیں،ہیلی کاپٹر کے دو پائلٹ میجر التمش اور میجر فیصل کے علاوہ چیف ٹیکنیشن صوبیدار ذاکر بھی شہید ہوگئے جبکہ 13 زخمیوں میں ہالینڈ اور پولینڈ کے سفیر بھی شامل ہیں۔ سفیروں اور ان میں سے بعض کی بیگمات کوایم آئی17 ہیلی کاپٹرکے ذریعے گلگت بلتستان میں پی اے ایف کے سکائی ریزارٹ پر چیئرلفٹ اورچین کے تعاون سے تعمیر ہونے والے نلتر پاور پروجیکٹس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کے لیے لے جایا جا رہا تھااور وزیراعظم میاں نواز شریف ان کا خیرمقدم کرنے کے لیے روانہ ہو چکے تھے‘ لیکن اس افسوسناک واقعہ کی اطلاع ملتے ہی وہ واپس چلے گئے اور انہوں نے ایک دن کے قومی سوگ کا اعلان کر دیا۔ ایئر چیف کے مطابق یہ محض ایک حادثہ ہے جس میں ہیلی کاپٹر اترتے وقت وادی نلتر میں سکول کی عمارت پر گرکر کریش کرگیا۔ حکومت نے تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کرنے کی دو ٹوک تردید کی ہے ؛تاہم یہ حادثہ ہر لحاظ سے افسوسناک ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ سفیروں کو ایم آئی 17 ہیلی کاپٹروں میں لادنے کا رسک کیوں لیا گیا؟ روسی ساخت کے ان انتہائی پرانے ہیلی کاپٹروں کو لوہے کے تابوت بھی کہا جاتا ہے۔ 2004 ء سے لے کر اب تک پانچ ایسے ہی ہیلی کاپٹر کریش ہوچکے ہیں۔ یقینا آرمی ایوی ایشن، ایئر فورس یا حکومتِ پاکستان کے پاس اس سے بہتر اور جدید ہیلی کاپٹر موجود ہوں گے۔ اس حادثہِ جانکاہ نے پاکستان کے 'سافٹ امیج‘ کو اجاگر کرنے کے بجائے الٹا شدید نقصان پہنچایا ہے۔ اس بات کی بے لاگ تحقیقات ہونی چاہیے کہ اس مجرمانہ غفلت کا کون کون ذمہ دار ہے‘ جس میں ہمارے فوجی پائلٹوں، عملے اور سفارتکاروں سمیت سات افراد لقمہ اجل بن گئے۔
اس حادثے کا بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ سے ناتہ جوڑنا دور کی کوڑی لانے کے مترادف ہے؛ تاہم حال ہی میں راولپنڈی میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی صدارت میںہونے والی کورکمانڈرز کانفرنس میں جس دوٹوک انداز میں‘ بھارتی خفیہ ایجنسی کو نہ صرف بلوچستان بلکہ کراچی اور فاٹا کے معاملات میں ملوث قرار دیا گیا‘اس کے پیش نظر اس بات کا سنجیدگی سے جائزہ لینا چاہیے کہ اس وقت وطن عزیز کے اندر کون کون سی قوتیں سرگرم ہیں۔ ''را‘‘ کے ملوث ہونے کے بارے میں بیانات اکثر آتے رہتے ہیں۔ ماضی قریب میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ ''را‘‘ اور افغان انٹیلی جنس ایجنسی ''خاد‘‘ پاکستان میں کھل کھیل رہی ہیں۔ بہت عرصہ قبل کراچی کے تناظر میں بعض بھارتی ذرائع سے یہ گیدڑ بھبکیاں سامنے آتی رہی ہیںکہ "K" "K" for یعنی ''کشمیر کے بدلے کراچی‘‘۔ اگرچہ بھارت کا یہ الزام بے بنیاد ہے کہ پاکستان مقبوضہ کشمیر میں دراندازی کر رہا ہے تو ہم کراچی کے امن کو تہہ و بالا کرنے میں کوئی کسراٹھا نہیں رکھیں گے۔ لیکن حالیہ برسوں میں کشمیر میں نام نہاد دراندازی کے الزامات کی مہم کم ہوتی گئی توکراچی کے حوالے سے بھارت کا نام آنا بھی کم ہوگیا؛ تاہم ایم کیو ایم کے سربراہ الطاف حسین کے تازہ بیان کے بعد کہ ''را‘‘ ہماری ایک بار کھل کر مدد کرے‘ پاکستان میں کارروائیوں کے حوالے سے ''را‘‘ کا نام دوبارہ سامنے آرہا ہے لیکن پاک فوج کے اعلیٰ ترین فورم سے ''را‘‘ کی سرگرمیوں کا ذکر ایک انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ امید ہے کہ آنے والے دنوں میں حکومت اس سلسلے میں ٹھوس شواہد بھی پیش کرے گی۔ اگرچہ دفترخارجہ کا کہنا ہے کہ سیکرٹری خارجہ سطح کی حالیہ ملاقات میں پاکستان نے اس ضمن میں کچھ ثبوت بھارت کے حوالے کیے ہیں‘ ہماری حکومت کا بھارت سے جپھی ڈالنے کا شوق فضول پھر بھی کم ہوتا نظر نہیں آتا۔ میاں نواز شریف نے قریباً ایک ہفتے کے بیرونی دورے سے واپس آتے ہی بھارتی ہم منصب نریندرمودی کو فون کھڑکا دیا۔ حالانکہ جہاں ایک طرف پاکستان کو اپنے ہمسایہ ممالک کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے‘ اسی طرح بھارت پر بھی یہ واضح کر دینا چاہیے کہ سلسلہ جنبانی اور سبوتاژ کی کارروائیاں ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔نیزیہ کہ محض ''را‘‘ کے سرالزام تھونپ کر ہم اندرونی طور پر دہشت گردی پر قابو پانے کی کوششوں میں حکومتی کوتاہیوں کو نظر انداز نہیں کر سکتے۔ مثال کے طور پر نیشنل ایکشن پلان وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کی لچھے دار تقریروں تک ہی محدود ہو کر رہ گیا ہے۔عملی طور پر ابھی اس ضمن میں بہت کچھ کرنا باقی ہے۔
حال ہی میں وزیراعظم میاں نوازشریف نے بہاولپور کے قریب چولستان میں چین کے تعاون سے لگنے والے سولر پاور پروجیکٹ کابڑے تزک و احتشام سے افتتاح کیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نوازشریف نے اپنے برادرخوردمیاں شہباز شریف کو شاندارخراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس پروجیکٹ کی قیمت میں
ایک ارب نوے کروڑ روپے کم کرائے ہیں اور کہا کہ دہشتگردی کے خاتمے کے بعد بجلی کے بحران کو ختم کرنا ان کی اولین ترجیح ہے۔ اس موقع پر سینئر ایڈیٹروں، کالم نگاروں، اینکرز اور صحافیوں کی فوج ظفر موج کو خصوصی ایئر بس طیارے کے ذریعے اسلام آباد اور کراچی سے وہاں ڈھویا گیا۔ صحافیوں کی اتنی بڑی ٹیم کو اکٹھا کرنے میں سیکرٹری انفارمیشن پنجاب مومن علی آغا نے بڑی جانفشانی سے کام کیا۔ وہاں تشریف لے جانے والوں میں سی پی این ای کے صدرمحترم مجیب الرحمٰن شامی، معروف کالم نگار برادرم عطاء الحق قاسمی اور کئی سینئر خواتین و حضرات شامل تھے۔ مجھے بھی آغا صاحب کی طرف سے دعوت دی گئی کہ وزیراعلیٰ کی خصوصی طور پر خواہش ہے کہ آپ خودجاکر دیکھیں کہ جنگل میں منگل کیسے سجایاگیاہے۔ غالباً باقی ایڈیٹرز کو بھی یہی تاثر دیا گیا کہ وہ وزیراعلیٰ کی خصوصی فرمائش پر چولستان لے جائے جا رہے ہیں۔اگر صحافی خواتین و حضرات کا یہ خیال تھا کہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ اس دورے میں اُن سے خصوصی طور پر ملاقات کریں گے تو یہ توقع نقش برآب ثابت ہوئی۔ میں اپنی پہلے سے طے شدہ مصروفیات کے باعث اس خصوصی دعوت کو قبول نہ کر سکا لیکن جو حضرات وہاں تشریف لے گے ان میں میرے ٹی وی پروگرام کے اینکر چوہدری غلام حسین نے مجھے بتایا کہ ''دیکھنے ہم بھی گئے مگر تماشہ نہ ہوا‘‘، اُسی شام پروگرام سے پہلے میں نے غلام حسین صاحب سے پوچھا کہ اتنے تھکے تھکے اور مضمحل کیوں نظر آرہے ہیں؟میرے استفسار پر ان کا کہنا تھا کہ معاملہ نشستنداور برخاستند تک ہی محدود رہا‘ گفتند کی نوبت ہی نہیں آئی‘ شریف برادران الگ الگ آئے اور تقاریر کرکے چلے گئے۔ ہم اخبار نویسوں کو ان سے علیک سلیک کا بھی موقع نہیں ملا۔ یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ سینئر اخباری مالکان، سینئرصحافیوں اور دیگر عمائدین کے ساتھ ہمارے موجودہ حکمران چائے کی پیالی پینے سے بھی کیوں گھبراتے ہیں۔ انہیں تو اپنے مہمانوں کی عزت افزائی کرنی چاہیے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ بے رخی اور بے اعتنائی حکومتی کلچر بن چکی ہے اس کا موازانہ اگرآصف زرداری کے دور سے کیا جائے تو معاملات بالکل مختلف تھے۔ میرا ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو شہید کی برسی کے مواقع پرنوڈیرو جانا ہوا۔ان مواقع پر بھی صحافیوں کو لے جانے کے لیے خصوصی طیارے کا اہتمام کیا گیا لیکن یہ طیارے نجی تھے‘ قومی ائیر لائن کے نہیں۔وہاں اس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری نے اخبار نویسوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھایا، گپ شپ کی، انہیں سٹیج پر بٹھایا اور بعد میں خصوصی فلائیٹ پر روانگی سے قبل انہیں بریف بھی کیا۔ میاں برادران گزشتہ ربع صدی سے زائد عرصے سے اقتدار میں آ، جا رہے ہیں۔ انہیں اقتدار کی اس دھوپ چھائوں نے آدابِ محفل سے کیونکر غافل کر دیا ہے۔