"ANC" (space) message & send to 7575

کمزور حکومتی رٹ!!

کراچی میں دہشت گردوں کے ہاتھوں اسماعیلی برادری کے 45 افراد کی ہلاکت کے اندوہناک واقعہ نے سانحہ اے پی ایس پشاور کے زخم ہرے کر دیئے ہیں۔ اس انتہائی افسوسناک واقعے کے چند گھنٹے بعد ہی آرمی چیف جنرل راحیل شریف اپنا پہلے سے طے شدہ سری لنکا کا دورہ ملتوی کر کے کراچی پہنچ گئے اور وزیراعظم میاں نواز شریف بھی جو اس روز پاک چین اقتصادی راہداری پرسابق صدرِ مملکت آصف زرداری سمیت پارلیمانی رہنماؤں کو بریفنگ دے رہے تھے، بعدازاں وہاں پہنچ گئے۔ اس روز کراچی میں اعلیٰ سطح کا اجلاس ہوا جس میں میاں نواز شریف اورآرمی چیف کے علاوہ آصف علی زرداری ، سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ، ڈی جی آئی ایس آئی اور ڈی جی رینجرز سندھ بھی شریک تھے۔ فیصلہ کیا گیا کہ دہشتگردوں کے خلاف بھرپور اور فیصلہ کن جنگ لڑی جائے گی لیکن اس قسم کی باتیں سنتے سنتے عوام کے کان پک چکے ہیں۔ سانحہ پشاور کے بعد دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے جو اقدامات کیے جانے تھے وہ ہنوز نہیں ہوسکے۔ یقینا ریاست اپنے فرائض منصبی ادا کرنے میں یکسر ناکام نظر آرہی ہے جس بنا پر وہ عناصر جو اسلام کی اپنے ڈھب کے مطابق مخصوص تعبیر کرتے ہیں نہتے شہریوں اور بالخصوص اقلیتوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
اس افسوسناک واقعے کے اگلے ہی روز آرمی چیف نے اپیکس کمیٹی سندھ کے اجلاس میں شرکت کی جس میں فیصلہ کیا گیا کہ کراچی میں سیاسی اور مذہبی وابستگیوں سے بالاتر ہو کر گرفتاریاں کی جائیں گی، افسروں کی تعیناتیاں میرٹ پر ہونگی، انٹیلی جنس ایجنسیوں میں تعاون بڑھایا جائے گااور دہشت گردی کی فنڈنگ پر کڑی نظر رکھی جائے گی۔ یہ باتیں سانحہ پشاور کے موقع پر بھی کی گئی تھیں لیکن بوجوہ عملی طور پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوسکی۔ یقینا پاک فوج اور پولیس سمیت ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے قربانیاں بھی دی ہیں اور دہشت گردی کے واقعات میں کمی بھی آئی ہے لیکن کراچی کے بس سانحہ نے اس حقیقت کو طشت ازبام کر دیا ہے کہ دشمن دندناتا پھررہا ہے اور ہمارے سکیورٹی ادارے اس کی بیخ کنی کرنے میں قریباً ناکام ہیں۔ اس انتہائی تشویشناک صورتحال میں ایک نئے عنصر کا بھی اضافہ ہوا ہے جس کے مطابق بھارتی خفیہ ایجنسی'' را‘‘ پاکستان میں دہشتگردی کی کارروائیوں میں پوری طرح ملوث ہے۔ یہ الزام جنرل راحیل شریف کی صدارت میں ہونے والے فوج کے اعلیٰ ترین فورم کورکمانڈرز کے حالیہ اجلاس میں بھی لگایا گیا تھا۔اب سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے بھی یہ انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور داخلی معاملات میں '' را‘‘ کی مداخلت کے ناقابل تردید شواہد سے بھارت کو بار بار آگاہ کیا جاچکا ہے۔ انھوں نے متنبہ کیاہے کہ بھارت نے مداخلت اور پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی کارروائیوں کا سلسلہ بند نہ کیا تو پھر پاکستان بھرپور جواب دینا جانتا ہے۔ گویا کہ عام شہری کے لیے تو یہ بات انتہائی تشویشناک ہے کہ کراچی میں بھتہ مافیا، اغوا برائے تاوان کے مجرم ایم کیو ایم کے زیرسایہ جرائم میں ملوث ہیں تو دوسری طرف تحریک طالبان پاکستان کے شہر میں موجود سلیپر سیل بھی سرگرم ہیں۔ اس پرمستزاد یہ کہ '' را‘‘ بھی پاکستان کے اندر ایک گھناؤنا کھیل کھیل رہی ہے۔
یہاں عام شہری کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہونا فطری امر ہے کہ اس ضمن میں ہمارے فوجی و سویلین انٹیلی جنس ادارے کیا کر رہے ہیں؟ کیا پاکستان جو ایک ایٹمی طاقت ہے اور اس کی فوج کا شمار دنیا میںساتویں نمبر ہے، ایسا ترنوالہ ہے کہ یہاں دہشت گرد اور غیر ملکی ایجنٹ بلا روک ٹوک دندناتے پھریں؟ ہماری حکومت کا حال تو 'ہر چند کہیں کہ ہے، نہیںہے‘ کے مترادف ہے۔ اس سے بڑی ستم ظریفی کیا ہوسکتی ہے کہ جس روز کراچی میںخون کی ہولی کھیلی گئی ،وزیراعظم اور دیگر پارلیمانی رہنمائوں کو پرتکلف لنچ کھانے کی پڑی ہوئی تھی۔ مینیو میں سوپ، پلاؤ، بون لیس چکن، چکن گریوی، سیخ کباب اور میٹھے میں قلفہ شامل تھا۔ دنیا بھرکو محظوظ کرنے کے لیے اس پرتکلف طعام کو تناول کرنے کا منظر ٹیلی ویژن سکرینوں پر لائیو دکھایا گیا۔ یہ دیکھ کر عام آدمی کے ذہن میں یقینا یہ تاثر ابھرا ہوگا کہ ایسے اندوہناک سانحے کو دیکھ کر تو لیڈروں کی بھوک ہی اڑ جانی چاہیے تھی یہ کیسے لیڈر ہیں؟ویسے میاں صاحب کے میڈیامنیجرز کو داد دینے کو دل چاہتا ہے کہ انھوں نے اس پر تکلف ظہرانے کی لائیو کوریج کروا دی، غالباً یہ اس لیے کیا گیا کہ وہ بھی لنچ کرنے والے خواتین و حضرات میں شامل تھے۔
ایک اور بات جو چونکا دینے والی ہے ۔وہ وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان کا منظر عام سے یکسر غائب ہونا ہے۔ باخبر ذرائع کے مطابق گزشتہ کئی ماہ سے میاں صاحب اور نرگسیت کا شکار چوہدری نثارعلی خان کے درمیان بول چال ہی بند ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف چوہدری صاحب کی زبردست لابی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ چوہدری نثار جودہشت گردی کی سرکوبی کے حوالے سے اہم ترین وزارت کی سربراہی کر رہے ہیں، اگر میاں نواز شریف کے ساتھ نہیں چل سکتے تو پھر استعفیٰ دے دیں یا میاں صاحب انھیں خود ہی فارغ کر دیں۔ کیونکہ موجودہ نازک صورتحال میں اس قسم کی بوالعجبیوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، یقینا برادر خورد میاں شہباز شریف جو چوہدری صاحب کے قریب ترین دوستوں میں سے ہیں، کو اس ضمن میں مثبت رول ادا کرنا چاہیے۔ سانحہ پشاور کے بعد جس طمطراق سے نیشنل ایکشن پلان کا اعلان کیا گیا تھا وہ بھی ہنوز تشنہ ہے۔ یہ ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ نیشنل ایکشن پلان اور نیشنل کاؤنٹرٹیرر ازم اتھارٹی (نیکٹا) کے لیے مختص رقم تو وزارت خزانہ ادا نہیں کر پائی لیکن راولپنڈی اسلام آباد کے میٹروبس منصوبے کے لیے 70 ارب روپے کی گنجائش نکال لی گئی ،اس سے یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی ہے کہ دہشت گردی کا خاتمہ حکومت کی اولین ترجیح نہیں ہے۔ حکمرانوں کو میٹروبس، بلٹ ٹرین اور پاک چین اقتصادی راہداری کی پڑی ہے ۔اگر وطن عزیز دہشت گردوں کے ہاتھوں ہی چھلنی ہوجائے، تو یہ منصوبے کس کام کے؟
بھتہ مافیا اور جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن انتہائی کلیدی اہمیت کا حامل ہے لیکن اس سے بھی بڑھ کر جب تک دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم مصمم کرنے کے ساتھ ساتھ اس پر عمل نہیں کیا جاتا، حالات بہتر نہیں ہوسکتے اور نہ ہی وطن عزیز میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوسکتا ہے۔ اس ساری صورتحال میں لگتا ہے کہ جنرل راحیل شریف کی قیادت میں فوج Space لے رہی ہے اور سویلین حکومت کی رٹ کمزور پڑتی جا رہی ہے۔ اس تناظر میں وزیراعظم نواز شریف نے نوشتہ دیوار پڑھتے ہوئے اپنے اردگرد نااہل ٹیم کی چھٹی نہ کرائی تو خدشہ ہے کہ ان کی چھٹی نہ کرادی جائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں