"ANC" (space) message & send to 7575

حسن انتخاب!!

میاں برادران گورنر پنجاب سے تعلقات کار کے حوالے سے خاصے بدقسمت ثابت ہوئے ہیں۔ ایک طرف تو سندھ کے گورنر عشرت العباد ہیں جو غالباً کسی پارلیمانی جمہوریت میں سب سے طویل عرصے تک گورنر رہنے کے حوالے سے اپنا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میںدرج کروانے کے در پے ہیں۔وہ گذشتہ 13 برس سے گورنر چلے آرہے ہیں۔ دوسری طرف پنجاب ہے جہاں کوئی گورنر زیادہ عرصہ ٹکتا ہی نہیں۔ میاں شہباز شریف انتہائی سخت گیر ٹاسک ماسٹر ہیں۔ انتہائی محنتی اوراس حد تک متحرک ، کہ ہر وقت بے چین رہتے ہیں۔ شاید اسی بنا پرہر گورنر شاہراہ قائداعظم پر واقع ایکٹروں میں پھیلے گورنر ہائوس کے کمپلیکس میں خود کو بیکار اور محبوس سمجھتا ہے۔ میاں محمد اظہر، شریف فیملی کے اتنے قریب تھے کہ انھیں قریباً گھر کا فرد ہی سمجھا جاتا تھا۔ انھیں1990 ء میںمیاں نواز شریف کے پہلے دور وزارت عظمیٰ میں گورنر کے منصب پر فائز کیا گیا۔ اس وقت وزیراعلیٰ غلام حیدر وائیں تھے جبکہ عملاً پنجاب میں اختیارات کا مرکز شہباز شریف ہی تھے۔ کچھ عرصہ بعد ہی میاں اظہر کے میاں شہباز شریف سے اختلافات شروع ہوگئے۔ میاں اظہر لاء اینڈ آرڈر ٹھیک کرنے کے درپے تھے لیکن انھیں جلد ہی احساس ہوگیا کہ پنجاب میں شہباز شریف کے اذن اعلیٰ کے بغیر پتا بھی نہیں ہلتا۔ نتیجتاً میاں اظہر گورنری سے الگ ہو کر محترمہ بے نظیر بھٹو کی پیپلز پارٹی کی گود میں جا بیٹھے۔پھر ایک اور گورنر جو آج کل انتخابی دھاندلیوں کی تحقیقات کے لیے بنائے گئے جوڈیشل کمیشن میں مسلم لیگ (ن) کے وکیل ہیں، شاہد حامد کو بھی بڑے ہی بھونڈے انداز میں میاں صاحب کے دوسرے دور میں فارغ کیا گیا۔ وہ کسی تقریب کی صدارت کر رہے تھے کہ انھیں رقعہ پہنچایا گیا کہ آپ کو فارغ کر دیا گیا ہے۔ شاہد حامد وہ شخصیت ہیں جو اُس وقت کے صدر فاروق لغاری کے دستِ راست تھے۔ وہ فاروق لغاری کے ہاتھوں نومبر 1996ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو کی چھٹی کرانے میں پیش پیش تھے اور پھر عام انتخابات کے بعد انعام کے طور پر گورنر پنجاب لگائے گئے تھے۔ اس لحاظ سے بھی شاہد حامد صاحب میاں نواز شریف کے محسن ہیں کہ جب میاں صاحب بھاری مینڈیٹ سے سرشار تھے تو گورنرشاہد حامد ہی انھیں اپنے دوست فاروق لغاری کے آبائی گھر چوٹی لے گئے تھے جہاں ان سے آئین کی شق 58 ٹو۔بی کی تنسیخ پر دستخط کرالیے ۔ سنا ہے کہ اس وقت فاروق لغاری یہ شعر گنگناتے رہ گئے ؎
دیکھا جو کھا کے تیر، کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی
بعد میں سردارذوالفقار کھوسہ کو شاہد حامد کی جگہ گورنر بنایا گیا۔ سردار صاحب پنجاب کے سینئر وزیر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کے بیٹے دوست محمد کھوسہ کو عبوری مدت کے لیے وزیراعلیٰ بھی بنایا گیا لیکن اب وہ بھی اپنا گروپ بنا کر میاں برادران سے الگ ہو چکے ہیں۔
گلاسگوسے لیبر پارٹی کی طرف سے برطانوی پارلیمنٹ کے سابق رکن چوہدری محمد سرور بہت سے دیگر پاکستانی نژاد برطانوی سیاستدانوں کی طرح پاکستان کی سیاست میں بھی عملاً دلچسپی لیتے رہتے ہیں۔ وہ مئی 2013 ء کے انتخابات سے قبل میاں برادران کے بہت قریب ہوگئے تھے۔ پنجاب میں مسلم لیگ (ن) کی ٹکٹوں کی تقسیم کے حوالے سے انھوں نے کلیدی رول ادا کیا بلکہ ان کے بقول جہاں جہاں میاں برادران نے ان کے مشورے پر پارٹی ٹکٹ تقسیم کئے وہاں مسلم لیگ (ن) جیت گئی اور جہاں ان کا مشورہ نہیں مانا گیا وہاں ہار گئی۔ ان کا دعویٰ غالباً ٹھیک ہی ہے کیونکہ اس صلاحیت کے اعتراف کے طور پر انھیں بھی ''لاٹ صاحب‘‘ کی کوٹھی میں بٹھادیاگیا۔چوہدری صاحب ویلے بیٹھنے والی شخصیت نہیں ہیں۔ پہلے انھوں نے یورپی یونین سے پاکستانی ٹیکسٹائل کو جی ایس پی پلس کی سہولت دلانے کے لیے کامیاب لابنگ کی ، بعد میں انھوں خود کو پینے کے صاف پانی کے پراجیکٹس میں مصروف کر لیا لیکن برطانیہ کی سیاست کے برعکس انھیں جلد یہ احساس ہوگیا کہ یہاں میاں فیملی کے ناز و نعم اٹھائے بغیر سیاسی گذارا نہیں ہوسکتا۔ باخبر لوگوں کے مطابق ان کی پنجاب میں ''ولی عہد‘‘ جن کا طنطنہ وزیراعلیٰ سے بھی زیادہ ہے، سے نہیں نبھی ۔ ایک بات سمجھ میں نہیں آئی کہ پارلیمانی نظام کی ماں برطانیہ میں سیاست کرنے والے چوہدری سرور کو پہلے ا س بات کا احساس کیوں نہیں ہواکہ اس نظام میں صدر اور گورنر کی حیثیت محض علامتی ہوتی ہے اور وہ بے اختیار ہوتا ہے ۔ویسے بھی اختیارات تو شہباز شریف کسی میں بانٹنے کے قائل ہی نہیں ہیں۔ گورنر سلمان تاثیر تو تھے ہی پیپلزپارٹی کے نمائندے لیکن اس کے باوجود اگر اللہ انھیں زندگی دیتا تو ان کا حشر بھی اپنے پیشروئوں سے مختلف نہ ہوتا۔
نئے گورنر کی تقرری کے لیے ملتان کے معروف وکیل اور مسلم لیگ (ن) کی طرف سے دوبار سینیٹر منتخب ہونے والے ملک محمد رفیق رجوانہ کا انتخاب یقینا بڑے سوچ بچار اور احتیاط سے کیا گیاہے ۔ رجوانہ صاحب ایک سیلف میڈ وکیل ہیں اور اپنی لاء فرم رجوانہ اینڈ رجوانہ چلاتے رہے ہیں۔ انتہائی مرنجان مرنج شخصیت کے حامل ہیں۔ اسی بنا پر سیاسی جماعتوں اور میڈیا میں بالعموم اُن کی تقرری کا خیر مقدم کیا گیا ہے ۔ دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے، غالباً اس مرتبہ میاں شہباز شریف کا اپنے بھائی صاحب سے اصرار تھا کہ گورنر ان کے ڈھب کا ہونا چاہیے ۔بڑے میاں صاحب برادرم عطاء الحق قاسمی سے وعدہ کر بیٹھے تھے کہ انھیں گورنر بنائیں گے لیکن برادر خورد نے ویٹو کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ عطاء الحق قاسمی اس وقت لاہور آرٹس کونسل کے چیئرمین ہیںاور وہ جہاں ہیں وہیں ٹھیک ہیں۔ میاں صاحب کے مشیروں کی طرف سے ایک اور دلچسپ دلیل دی گئی کہ ایک ہی کالم نگار ہیں جو ہمارے حق میں کھل کر بھرپور دلائل کے ساتھ لکھتے ہیں‘ گورنر بنا کر ہم اُن کی اس صلاحیت سے محروم ہو جائیں گے ۔گویا کہ میاں برادران کے دربار میں صرف ان صحافیوں کو نوازا جاتا ہے جن کا منہ بند کرنا ہو۔ میاں شہباز شریف، عیسیٰ خیل سے تعلق رکھنے والی محترمہ ذکیہ شاہنواز کو گورنر بنانا چاہتے تھے لیکن اُن کے خلاف یہ دلیل استعمال کی گئی کہ ان کے بھائی تحریک انصاف میں ہیں لہٰذا یہ رسک نہ لیا جائے۔ اسی طرح بہاولپور سے سعود مجید کا نام بھی سامنے آیا اور حمزہ شہباز شریف ان کے پرجوش سفارشی تھے لیکن جنوبی پنجاب میں پارٹی میں حیثیت متنازعہ ہونے کی بنا پر انھیں ڈراپ کر دیا گیا لیکن قومی اسمبلی کا الیکشن ہارنے کے باوجود اب انھیں رجوانہ صاحب کی طرف سے خالی کی گئی سینیٹ کی نشست پر سینیٹر بنوادیا گیا ہے۔
رجوانہ صاحب سے جمعہ کو گورنر ہائوس میں ملاقات ہوئی۔ میرا اُن سے پہلے براہ راست تعارف نہیں تھا لیکن اپنی شہرت کے عین مطابق میانہ رو اورسلجھی ہوئی طبیعت کے مالک نکلے ۔ میرے استفسار پر رجوانہ صاحب نے بتایا کہ انھوں نے اس عہدے کے لیے نہ تو خواہش کا اظہار کیا اور نہ ہی انھیں آخری وقت تک علم تھا کہ انھیں یہ منصب سونپا جا رہا ہے۔ وہ تو عدالتی کمیشن میں مسلم لیگ (ن) کے وکیل سابق گورنر شاہد حامد کی بطور وکیل معاونت کر رہے تھے۔ اسی دوران انھیں میاں نواز شریف کے پولیٹیکل سیکرٹری آصف کرمانی کا فون آیا کہ میاں صاحب آپ سے آئندہ دوروز میں میٹنگ کرنا چاہتے ہیں‘ لہٰذا آپ اسلام آباد میں ہی رکیں ۔ رجوانہ صاحب کے بقول جب میاں صاحب نے انھیں بلا کر یہ پیشکش کی تو انھیں خوشگوار حیرت ہوئی۔ نئے گورنر پنجاب خاصے احتیاط پسند اور پروٹوکول کی قیود سے مبرا ہیں۔ ملتان اگرچہ ان کا آبائی گھر ہے تاہم وہاں پنجاب اسمبلی کی نشست کے ضمنی انتخابات کی بنا پر وہ روایات کے برعکس حلف اٹھانے کے بعد ملتان نہیں گئے اورضمنی انتخاب کے بعدگذشتہ روز ملتان تشریف لے گئے ۔ رجوانہ صاحب کا کہنا تھا کہ میں اس بنا پر ملتان نہیں گیا کہ کسی کواور بالخصوص پی ٹی آئی کو نکتہ چینی کا موقع نہ ملے۔ بطور وکیل وہ گذشتہ روز بن بلائے اور پروٹوکول کے بغیر ہی ہائیکورٹ چلے گئے جہاں بارروم میں انھیں ہاروں سے لاد دیا گیا اور ان کا خیر مقدم کرنے والوں میں لاہور ہائی کورٹ بار کے صدرپیر مسعود چشتی جن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے‘ بھی شامل تھے۔ رجوانہ صاحب کاقیام گورنر ہائوس کی بجائے ڈیفنس میں رحمن ولاز کے فلیٹ میں ہے ۔ انھوں نے بتایا کہ فی الحال ان کا وہیں ٹکنے کا ارادہ ہے۔ رجوانہ صاحب کے کوئی سیاسی عزائم نہیں لگتے۔اس لحاظ سے میاں برادران کے حسن انتخاب کی داد دینا پڑے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں