بالآخر بزعم خو د پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا گروپ کے غبارے سے اس کی لا نچنگ سے پہلے ہی ہو ا نکل گئی۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے‘ جو بن کھلے مر جھا گئے۔اب ایگزیکٹ اور بول کے سی ای او شعیب شیخ قانون کے آہنی شکنجے کی گرفت میں آ رہے ہیں اورحفاظتی ضمانتیں کراتے پھررہے ہیں۔ بولـــ‘ ٹیلی وژن چینل کے علاوہ ریڈیو ،انگریزی اور اردو کے اخبارات بھی لا نچ کرنے جا رہا تھا۔ اس سلسلے میں زوروشور سے تیاریاں جاری تھیں اور آسمان سے باتیں کرتے ہوئے مشا ہرے اور پُرتعیش سہو لتوں کی چکا چوند سے مرعوب ہو کرصحا فی بھا ئی اس میڈ یا گروپ کاحصہ بننے کے لیے کو شاں تھے۔ بول نے پاکستان کے اکثر ٹاپ اینکروں اور صحافیوں کو اپنی صف میں شامل کر لیا تھا اوران میں پیش پیش اظہر عباس ،کامران خان ،افتخا ر احمد ،نصرت جا وید اورعاصمہ شیرازی تھے ۔ جب یہ خبر آ ئی کہ ایف بی آ ئی اور ایف آئی اے اس نام نہا د انٹرنیٹ کمپنی کے خلاف‘ جو تعلیم کے مقدس نام کو بھی بد نام کر رہی تھی‘ کارروائی کرنے لگی ہے تو جملہ خواتین وحضرات نے ''اپنے ضمیر کی آواز‘‘ پر لبیک کہتے ہو ئے اسے خیرباد کہہ دیا۔ اس طرح وہ ہزاروں کارکن اور پروفیشنل صحافی جو اب بھی بول میں بیٹھے ہیں اور اپنے میڈیا لیڈروں کی تقلید کرتے ہو ئے بول میں گئے تھے ،یکہ وتنہا رہ گئے ہیں اور وہ بجا طور پر مستقبل کے حوالے سے انتہائی فکرمندہیں ۔مبشر لقمان اور مشتاق منہاس اس لحاظ سے قابل تعریف ہیں کہ اس وقت انہوں نے ڈوبتی ہوئی کشتی سے چھلانگ لگانے سے انکار کر دیا ہے ۔با خبر لو گوں کو تو روز اول سے ہی معلوم تھا کہ سٹا ر اینکر حضرات کی یہ عید زیا دہ عرصہ نہیں چل سکے گی۔ کیو نکہ کسی بھی میڈیا گروپ کا بزنس ما ڈل اس قسم کی تنخو اہوں اور مراعات کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ جو بول گروپ کی طرف سے دی جا رہی تھیں۔اس میں کو ئی شک نہیںکہ ان لو گوں کی تولا ٹری نکل آ ئی تھی جوپہلے ہی اچھی خا صی تنخواہوں اور مراعات سے مستفید ہو رہے تھے۔ جس اینکرکی تنخواہ 10لاکھ تھی اُسے 20لاکھ دے دیا گیا۔اسی طرح 20لاکھ والا 40اور40لاکھ والا کروڑ روپے ماہانہ تک جا پہنچا؛ حتیٰ کہ بعض کی تنخواہ تو ایک کروڑ روپے ماہا نہ سے بھی زیا دہ تھی ۔ انھیںمراعات میں لگثرری کاریں بھی ملیں جن میں سے بہت سی بلٹ پروف تھیں۔
نوجوان شعیب شیخ انتہا ئی منجھے ہو ئے مقرر لگتے ہیں ۔حال ہی میں ان کا سٹا ف اور دوسرے اینکر حضرات سے ایک خطاب سوشل میڈیا پر دیکھنے کا موقع ملا۔ مو صوف فرماتے ہیں کہ ان کامشن بڑے بڑے ''سیٹھوں‘‘ کی اجارہ داریوں کو توڑنا اور اپنے اینکروں اور کارکنوں کو وہ سہولتیں فراہم کرنا ہے جن کا وہ پہلے صرف خواب ہی دیکھ سکتے تھے۔ شعیب شیخ کا دعویٰ ہے کہ نیو یارک ٹا ئمز کے رپورٹر ''ڈیکلن والش‘‘ اس خبر میں پاکستان کے خلا ف اپنے خبث باطن کا اظہار کر کے پرانے بدلے چکا رہے ہیں ۔واضح رہے کہ '' ڈیکلن والش‘‘ کو مئی 2013ء میں عین عام انتخابات کے روز لاہو ر سے جہا ز میں بٹھا کر دیس نکالا دے دیا گیا تھا ۔ اس وقت میں نگران حکومت میں وفاقی وزیر اطلاعات ونشریات تھا ۔غالباً 9مئی کو ''ڈیکلن والش‘‘ اسلام آباد میں میرے دفتر تشریف لائے اور وزارت داخلہ کا وہ آرڈر میرے سامنے رکھ دیا جس کے مطابق انہیں 72گھنٹے کے اندر اندر ملک چھوڑنے کا کہا گیا؛ جبکہ ان کا ویزا جنوری 2014ء تک کارآمد تھا۔ میں نے اس وقت کے وزیر داخلہ ملک حبیب سے کہا کہ کسی صحا فی کوملک بدر کرنے سے پہلے وزارت اطلا عات سے تو مشورہ کرلیتے توانھوں نے انکشا ف کیا کہ وزارت داخلہ تو اس معاملے میں محض پوسٹ آ فس کا کردار ادا کررہی ہے۔ یہ احکامات تو ''اوپر‘‘ سے آ ئے ہیں۔ مجھے بتا یا گیا کہ یہ امریکی صحا فی خفیہ طور پر بلو چستان گیا اور وہاں سے واپس آ کر نیو یا رک ٹا ئمز میں سٹوری "Pakistan's secret dirty war"فا ئل کی ۔والش نے اس کے علاوہ دارالحکومت اسلام آ باد سے چند کلو میٹر دورکا مرہ میں ایٹمی میزائل کی موجودگی کی بے پرکی سٹوری بھی فائل کی ۔ جس کی وجہ سے انھیں واپس بھیجا گیا۔لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ والش کی ایگزیکٹ /بول کے بارے میں خبر غلط ہے۔ نیو یا رک ٹائمز نے پوری چھان پھٹک‘ دستاویزی ثبوت اور کئی ذرائع سے حقائق کی تصدیق کرنے کے بعد یہ سب کچھ شائع کیا ہے۔ لہٰذا محض حب الوطنی کا ڈھنڈورا پیٹ کر ایگزیکٹ کے مالکان احتساب سے نہیں بچ سکتے۔
بلا شبہ ان کے ساتھ نہ صرف انصاف ہو نا چاہیے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آ ناچاہیے اور اس
ضمن میں انھیں اپنی صفائی کا پورا موقع ملنا چاہیے۔لیکن یہاں بجا طورپر یہ سوال پید اہوتا ہے کہ ہماری حکومت اور ریگولیٹری ادارے اپنے فرائض منصبی سے کیونکر کو تاہی کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ وفاقی وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان اب کریڈٹ لینے کے لیے اس مسئلے پر متعدد پریس کا نفرنسیں کر چکے ہیں حالانکہ اس سلسلے میں لچھے دار تقریروں اور بلند بانگ دعووں کے بجائے عملی کارروائی ہو نی چاہیے تھی ۔اگر وطن عزیز میں قانون کی عمل داری ہو رہی ہو تی تو ایسے سکینڈلز غیر ملکی میڈیا کے ذریعے طشت ازبام نہ ہوتے جن سے وطن عزیز کی جگ ہنسا ئی ہو ئی۔ لیکن یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہو ا ہے۔ ہمارے وزیر خزانہ اسحق ڈاررطب اللسان ہیں کہ ملک میں اکانومی درست سمت میں چل پڑی ہے؛ لہٰذا غیر ملکی اور مقامی سرمایہ کا روں کو سرمایہ کاری کرنی چاہیے ۔دوسری طرف ایسی خبریں بھی اخبارات کی زنیت بنتی رہتی ہیں کہ ہمارے حکمرانوں کے اپنے کاروبار تو بیرون ملک ہیں یہاں کون سرمایہ کاری کرے گا ۔ایک اطلاع کے مطابق دبئی کی پراپرٹی مارکیٹ میں2015 ء کی پہلی سہ ماہی میں پاکستانی 38کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کر کے تیسرے نمبر پررہے۔ اس طرح کی تمام اطلا عات غیر ملکی ذرائع سے ہی عوام تک پہنچتی ہیں ۔اس کی وجہ صاف ظا ہر ہے کہ ہمارے ہاں اعلیٰ ترین سطح پر خوب اور ناخوب کی تمیز سرے سے نہیں کی جا تی اور نہ ہی قول و فعل میں کھلے تضاد کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ ایک اور اطلا ع کے مطابق بول چینل کی مالک ایگزیکٹ کمپنی کی‘ جو دنیا بھر میں آن لائن جعلی ڈگریاں فروخت کر رہی تھی‘ روزانہ آمدن ایک لاکھ ڈالر تھی۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کی محیرالعقول آمدنی کی بنیا د پر بول ٹی وی کا بزنس ماڈل، بزنس نہ ہو نے کے باوجود بھی اسے وارے آتا ہے۔پاکستان میںقریباً نوے نیوز اور کرنٹ افیئر زچینل ہیں ۔ان میں معدودے چند ہی منا فع میں ہیں ۔ان چینلز کا واحد ذریعہ آمدنی سرکاری اور نجی شعبے کے اشتہارات ہیں۔ یقینا کچھ چینل اپنے اخبارات یا دیگر کاروبار سے اپنا خسارہ کم کرتے ہو نگے لیکن نہ جانے بول میں شامل ہو نے والے جغادری انو یسٹی گیٹو جرنلسٹوں کویہ بات کیو ں نہیں سوجھی کہ اصل ماجرا کیا ہے۔ یقینا یہ بڑے بڑے نام تو دوبارہ کسی نہ کسی چینل میں ایڈ جسٹ ہو جائیں گے لیکن اگر بول کا بول بالا نہ ہوا ،جو اب مشکل نظر آ رہا ہے، تو بہت سے پروفیشنلز روزگار سے محروم ہو جائیں گے۔ بہرحال یہ بات طے ہے کہ
High profit high risk, Low profit low risk .