"ANC" (space) message & send to 7575

اقتدار کے دو سال اور نوشتہ دیوار

شریف برادران وفاق اور صوبوں میں اپنی حکومت کے دوسال مکمل ہو نے کا جشن منا رہے ہیں۔کل صدر مملکت ممنون حسین پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب میں گزشتہ دوبرس کے دوران حکومت کی فتو حات گنائیں گے اور اگلے روز قومی اسمبلی میں نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا جائے گا ۔ جس میں حکومت کے اقتصادی کارنامے دہرانے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینے کے بہانے ان کی طنابیںمزیدکھینچی جا ئیں گی۔نا قدین یہ سوال پو چھنے میں حق بجانب ہیںکہ جشن کس بات کا ؟لیکن اس بات کا کریڈٹ تو حکومت کو دینا ہی پڑے گا کہ وہ گز شتہ ایک برس میں پیدا ہونے والے شدید بحرانوں سے بچ کر نکل آ ئی اور قائم ہے۔ایک برس قبل میاں نواز شریف اور ان کے حواری ''ستے خیراں‘‘ کی نوید سنا رہے تھے۔پنجاب کے وزیر اعلیٰ میاں شہباز شریف بھی اپنی گڈ گورننس کے نشے میں سر شار تھے ۔اسی دوران ایسے واقعات رونما ہونے لگے کہ جلد ہی میاں نواز شریف کے اقتدار کا سنگھا سن ڈولنے لگا ۔سب سے پہلے تو ہمارے وزیر اعظم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو گئے کہ اگر وہ بھارت کے نئے پر دھان منتری نریندر مودی کوجپھی ڈا لیں گے تو پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں سر دمہری ،گرم جو شی میں تبدیل ہو جا ئے گی لیکن انھیں اپنے ناکام دورہ بھارت کے فوری بعد احساس ہو گیا کہ اسٹیبلشمنٹ، پاکستانی میڈیا اور عوام کو بھارت میں مسئلہ کشمیر کو تج کر ''تھلے‘‘ لگنے کی ادا نہیں بھا ئی ۔ انہی دنوں سینئر صحافی حامد میر پر قاتلانہ حملے کے ضمن میں حکومت کی‘ اپنی ہی آ ئی ایس آئی کے سربراہ کے بجائے ایک میڈیا گروپ کی حمایت بھی با خبر لو گوں کے مطابق فوج کو گراں گزری۔ جون میں طاہرالقادری کی جماعت عوامی تحریک کے ہیڈ کوارٹرز میںپولیس کی دہشت گردی میں 14افراد کی ہلاکت کے افسوسناک واقعہ سے خا دم اعلیٰ کی معاملات پرمضبوط گرفت کے دعووں اور گڈ گورننس کی قلعی کھل گئی کیونکہ وہ آ ج بھی یہ دعویٰ کرتے ہیںکہ ماڈل ٹا ؤن میں ان کی ہمسائیگی میں اتنا بڑا آپریشن ان کی لا علمی میںہوا۔مقتدر اداروں اور سویلین حکومت کے درمیان بظاہر بڑھتی ہو ئی کشیدگی کے تنا ظر میں اس دوران عمران خان اور طاہرالقادری کی ایجی ٹیشن کی تیا ریوں کو اسٹیبلشمنٹ کی حما یت نہیں تو کم از کم اسے اس کی خوشنودی سے ضرور منسوب کیا گیا۔ غالباًیہ دونوں حضرات جمہوریت اور جمہوری اداروں کے نظریاتی طور پر قائل نہیں اور ہر قیمت پر حکومت گرانے کے درپے تھے۔اسلام آباد کے ڈی چوک میں گزشتہ برس 14اگست کو یوم آزادی کے موقع پر جب تحریک انصاف کا دھرنا شروع ہوا تو علامہ
طاہرالقادری نے بھی قریب ہی اپنی دکان چمکا لی ۔ان دونوں حضرات کو خا صی پذیرائی حاصل ہو ئی اور دھرنا کامیاب نظر آنے لگا ۔حتٰی کہ اگست کے اواخرمیں ایسا لگنے لگا کہ میاں نواز شریف کی حکومت صبح گئی کہ شام گئی۔اس مرحلے پر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے خان صاحب کے پانچ میں سے ساڑھے چار نکات پر مصالحت کرانے کی پیشکش کر دی لیکن خان صاحب کو ہر شام کنٹینر پر سوار ہو کر نواز شریف کو گالیاں دینے کا سوادآ رہا تھااور ان کی دانست میں تیسرا امپا ئر بھی انگلی اٹھا نے والا تھا۔ غالباً اسی نشے میں سر شار ہو کر انھوں نے نواز شریف کے استعفے سے کم بات پر مصالحت سے انکار کر دیا‘ لیکن خان صاحب کی بدقسمتی کہ ایمپائرکی انگلی نہ اٹھی ۔اس لحا ظ سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین سابق صدر مملکت آ صف علی زرداری میاں صاحب کے لیے مسیحا ثابت ہو ئے۔انھوں نے میاں نواز شریف کواپنی حمایت کا یقین دلانے کے بعد پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلانے کا مشورہ بھی دیا ۔جس پر وزیر اعظم نے صاد کیا اور اس طرح میڈیا کا فوکس خصوصی طور پر خان صاحب اور طاہر القادری کے دھرنوں کے علاوہ پارلیمنٹ کی لا ئیو کو ریج کی طرف بھی چلا گیا ۔غالباًزرداری صاحب نے میاں صاحب کو ایک مشورہ یہ بھی دیا کہ اگر پانچ سال حکومت کرنی ہے تو تھلے لگ کرکام کرو۔اس پس منظر میںاکتوبر 2014ء میں ڈی جی آئی ایس آئی جنرل ظہیر الاسلام کی ریٹا ئرمنٹ کے بعد نواز شریف حکومت کے سرپر منڈلانے والے خطرات کے بادل چھٹنا شروع ہو گئے۔میاں صاحب جن کی ماضی میں کسی بھی فوجی سربراہ سے نہیں نبھی،موجو دہ آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے انتہائی شیروشکر ہیں جس تواتر اور تسلسل سے وزیر اعظم اور آ رمی چیف کی ملاقاتیں ہو تی ہیں اس کی پاکستان کی تاریخ میں نظیر نہیں ملتی ۔ان ملاقاتوں کا نچوڑ یہ ہے کہ نومبر2013ء سے فوج کے سربراہ اور ان کا پروفائل نمایاں سے نمایاں تر ہو تا چلا گیا،اس میں یقینا جنرل صاحب کے پروفیشنل ازم اور فعال ترین ہو نے کے علاوہ سیا سی معاملات پر گوہر افشانی نہ کرنے کا بھی بڑا عمل دخل ہے۔اب حال یہ ہے کہ آ پریشن ''ضرب عضب‘‘ کے تناظر میں غیر ملکی سربراہ ،پارلیمانی وفود اور سفیر بھی ان سے ملاقاتیں کرتے ہیں ۔نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے بھی فوج کا خارجہ حکمت عملی اور اندرونی سکیورٹی معاملات میں گہرا دخل ہے۔اسی بناء پر بعض تبصرہ نگاریہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستان میں ''سافٹ کو‘‘ ہو چکا ہے۔
محترم اسحق ڈار صاحب کی معیت میں پاکستان کی بہتر اقتصادی صورتحال کے بارے میں بڑے ڈھنڈورے پیٹے جارہے ہیں ۔یقینا بین الاقوامی کریڈٹ ریٹنگ ادارے ،موڈیز اورسٹینڈرڈ اینڈ پوور نے ملک کی قرضے لوٹانے کی صلاحیت کو بہتر قراردیا ہے۔ماضی کے برخلاف آ ئی ایم ایف کی فرمائشیں پوری کرکے ہمیں قرضے بھی مل رہے ہیں۔ بجٹ میں خسارہ ،ڈالرکی قیمت میںٹھہراؤ ،افراط زرقابو میں ہے اور ملک کے زرمبا دلہ کے ذخائر میں گوناگوں اضا فہ ہوا ہے۔ سٹاک مارکیٹ بھی اوپر جا رہی ہے لیکن اس کے با وجو د صنعتی اور زرعی پیداوار کے علاوہ برآمدات بھی قریبا ً جمود کا شکار ہیں۔ غیر ملکی اور ملکی سرمایہ کار ی بھی نہ ہو نے کے برابر ہے۔اسی بناء پر پاکستان کی شرح نمو افغانستان کے سوا خطے میں سب سے کم 4.5اور 5فیصد کے درمیان رکی ہو ئی ہے۔اگلے مالی برس میں بھی اس میں بہتری کے آ ثا ر نظر نہیں آتے۔ یقینا حکومت کی اقتصادی پالیسیاں آ ئی ایم ایف اور بین الاقوامی ایجنسیوں کی فرمائشیں تو پو ری کر رہی ہیں لیکن پیداوار میں اس طرح اضافہ نہیں ہو رہا جس سے ملک میں غربت اور پسماندگی پر قابو پایا جا سکے۔میاں برادران کا وژن یہ ہے کہ اقتصادی ترقی‘ موٹرویز ،بلٹ ٹرینوں ، اور میٹروبسوں کا ہی نام ہے۔ ملک میں ٹیکس اور جی ڈی پی کی شرح نو فیصد سے بھی کم ہو گئی ہے۔کسی بھی ترقی پذیر اکانومی کے لیے شرح کم از کم اس سے دگنی ہو نی چا ہیے ۔لیکن وزیر اعظم ایک صنعت کار کی طرح سوچتے ہوئے کہتے ہیں کہ ٹیکس کومزید کم کر کے فلیٹ ریٹ لا گو کیا جا ئے۔اس تناظر میں غریب عوام پستے جا رہے ہیں۔ امیر، امیر تر اورغریب ،غریب تر ہو رہا ہے۔تیل کی بین الاقوامی قیمتیں کم ہو نے کی وجہ سے حکومت کوخاصا سہارا ملا ہے لیکن ایسے نا در موقع کو حکمران جما عت اپنے مخصوص میلان طبع کی نذر کر رہی ہے جس کے مطابق جمہوریت کانام چند پیاروں اور اہل خا نہ کے ذریعے ہی معاملات چلاناہے۔
حکومت کی ایک بڑی ناکامی اس صورت میں اظہر من الشمس ہے کہ نیشنل ایکشن پلان جمود کا شکار ہے۔ پھانسیاں دینے کے علاوہ اس کے اکثر اہداف پر کام ہی شروع نہیں ہوا ۔جہاں تک نیکٹا کا تعلق ہے یہ ادارہ بھی وزیراعظم اور وزیر داخلہ کے درمیان فٹ بال بنا ہوا ہے اوراسے مطلوبہ فنڈز بھی فراہم نہیں کئے گئے۔ اسی بنا پر یہ ابھی تک فعال نہیں ہو سکا ۔میاں برادران کو دور اقتدار کے اگلے تین سال بھی اللہ مبارک کرے لیکن اگرجمہوریت کے ثمرات سے عوام مستفید نہ ہو پا ئیں تو ایسی جمہو ریت کا کیا فائدہ؟۔یقینا جمہو ریت اورجمہوری اداروں کو مضبوط کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن اس کے لیے نو شتہ دیوار پڑھنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں