17 دسمبر کو ہو نے والی آل پارٹیز کانفرنس کا نچوڑ20 نکاتی ایکشن پلان کی صورت میں سامنے آیا ۔پارلیمانی رہنما پشاور میں ہونے والے اس اجلاس سے بڑے دوٹوک فیصلے کر کے اٹھے لیکن ہنوز نیشنل ایکشن پلان عمل سے زیا دہ بے عملی کا پلان بنا ہوا ہے۔نیکٹا ( نیشنل کا ؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی )جسے دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں کو مربوط انداز سے آ گے بڑھانے میں کلیدی کردار ادا کرنا تھا ،کا غذی کارروائیوں سے آگے نہیں بڑ ھ سکی ۔ نیکٹا وزیر اعظم ہا ؤس اور وزارت دا خلہ کے درمیان فٹبال بنی ہوئی ہے ۔نیکٹا اصولی طور پر وزیر اعظم کے ماتحت ہونی چاہیے لیکن چودھری نثار علی خان کی خواہش ہے کہ اس ادارے کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں ہو۔ بو جو ہ وزیر خز انہ اسحق ڈارانسداد دہشت گردی کے ضمن میں کلیدی کردار ادا کرنے والے اس ادار ے کے لیے مطلو بہ فنڈ زہی نہیں دے پا ئے،نئے بجٹ میں بھی یہی حال ہے ،اسی بنا پر یہ بیل منڈ ھے نہیں چڑ ھ رہی ۔جہا ں تک فوج کا تعلق ہے وہ بھی اپنے زیر انتظام انٹیلی جنس اداروں پر کسی قسم کی سویلین نگرانی قبول کرنا پسند نہیں کرتی۔ لہٰذا اسے بھی نیکٹا کی کوئی جلدی نہیں۔
چوہدری نثا ر علی خان اور میاں نواز شریف کے درمیان''کٹی‘‘ختم ہوچکی ہے۔ چوہدری نثار علی خان جو میڈیا پر لچھے دار تقریر وں کو ہی کارکر دگی سے تعبیر کرتے ہیں، میاں نواز شریف سے ناراض تھے کہ وہ انھیں بائی پاس کرکے وزارت داخلہ کے امور میں دخل دیتے ہیں ۔مزید برآں ان کے سیاسی مشوروں کو بھی درخوراعتنا نہیں سمجھا جا تا کیونکہ وہ خو شامد پسند نہیں ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وزیر دفاع خو اجہ آصف اور وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان کے درمیان بول چال تک بند ہے۔جہاں تک نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کا تعلق ہے‘ اس پر صدق دل سے عمل درآمد وفا قی حکومت کے علاوہ صوبا ئی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے ۔تا حال صوبوں میں بنا ئی گئی اپیکس کمیٹیاں بھی مو ثر ثابت نہیں ہو ئیں ۔ میاں نواز شریف اور ان کے وزیر داخلہ چو ہدری نثا ر علی خان رطب اللسا ن ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آ خری دہشت گرد کے خا تمے تک جا ری رہے گی لیکن اگر وزیر اعظم اور ان کی ٹیم کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے تال میل ہی نہ ہو تو آخری دہشت گرد تک کے خا تمے کا خو اب کیسے شر مندۂ تعبیر ہو سکتا ہے ۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت ایک سو سے زائد افراد کو پھانسی دی جا چکی ہے‘ لیکن ان میں زیا دہ تر وہ مجرم تھے جو سنگین جرائم میںسز اپانے کے بعد سالہا سال سے پھانسی کے منتظر قیدیوں کی کوٹھڑیو ں میں بند تھے۔ان پھانسی پانے والوں میں دہشت گردوں کی تعداد آ ٹے میں نمک کے برابر ہے۔یہ بات بھی متنازع ہے کہ ان دہشت گردوں کو جو خودکش جیکٹس پہن کر نہتے شہریوں پر حملہ آ ور ہو تے ہیں‘ محض پھانسیوں سے ان کے مذموم عزائم سے کیسے باز رکھا جا سکتا ہے۔ نیشنل ایکشن پلان کا ایک بہت بڑا ستون ایسی تنظیموں‘ جو جہا د کے نام پر دہشت گردی میں ملوث تھیں،کو کام کرنے سے روکنا تھا اور اسی بنا پر ان میںسے بعض تنظیموں کو غیر قانونی بھی قرار دیا گیا لیکن ایسی تنظیموں کے رہنما کھلم کھلا دند ناتے پھرتے ہیں اور نفرت آمیز تقریریں کرنے کے علاوہ میڈیا پر بھی فروکش ہو تے ہیںاور حکومت ان کا کچھ بگاڑ نہیں پائی۔ اسی سے منسلک ایک اور مسئلہ نیشنل ایکشن پلان کے تحت نفرت آمیز تقریروں اور لٹریچر پر پابندی لگانا تھا لیکن جب تک نفرت پھیلانے والے لوگ دندناتے پھریں گے ‘ان کے ''رشحاتِ فکر ‘‘ پر پابندی کیونکر عائد کی جا سکے گی ۔اس حوالے سے نیشنل ایکشن پلان کا ایک اور اہم نکتہ دہشت گردوں کی غیر ملکی فنڈنگ کو ختم کرنا تھا ۔نیز یہ کہ ایسے مدارس جومذ ہبی تعلیم دینے کی آڑ میں نفرت پھیلاتے ہیں پربھی پابندی عا ئد کرنا تھا ۔ اس حوالے سے بہت معمولی پیش رفت ہو ئی ہے اور ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے ۔اس ضمن میں ایک بڑی رکاوٹ علمائے کرام کی مضبو ط لابی ہے۔ حا ل ہی میں جب پاکستان میں یمن پر سعودی عرب کی یلغا ر میں میا ں نواز شریف نے حصہ دار بننے سے انکا رکیا تو اس کے بعد ہمارے برادر اسلامی ملک سے اعلیٰ سطح کے مہما ن یہاں آنا شروع ہو گئے ۔پہلے تو ایک مشیر برائے مذ ہبی امور تشریف لائے ،پھر وزیر مذہبی امور نے یہاں آ کر ڈیرے ڈالے اور اس کے بعد امام مسجد الحرا م تشریف لے آئے۔ان حضرات نے سرکاری سطح پر تو تھوڑی بہت لابنگ کی ہی لیکن ان کا زیا دہ وقت مذ ہبی جما عتوں اور ان کی لابنگ میں گزرا ۔یقینا سعودی عرب کے پاکستا ن پر بہت احسا نات ہیں ۔علاوہ ازیںشریف فیملی کو بھی انہوں نے وی آ ئی پی انداز سے نہ صرف پناہ دی بلکہ کاروبار کرنے کی بھی اجازت دی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ بلا واسطہ طور پر پاکستان کے اندرونی معاملات میں مخل ہوں ۔ یہ بات سب کے علم میں ہے کہ جنرل ضیا ء الحق کے دور سے لے کر اب تک پاکستا ن میں مذہبی لابیوں کے لیے فنڈ نگ کہاں کہاں سے ہو تی رہی ہے۔ یقینا پاکستان ایک اسلامی ملک ہے، یہاں پر سیکو لر پالیسیا ں تو نہیں چل سکتیں لیکن اسلام جس برداشت ، رواداری ،جیواور جینے دو کی پالیسیوں کا درس دیتا ہے وہ ہمارے معاشرے میں یکسرمفقود ہیں۔ یہ عنا صر علامہ اقبال کے افکارکی رو شنی اور قائد اعظم کی قیا دت میںمعرض وجود میں آ نے والے جمہو ری پاکستان پران ملکوں کا خصو صی نظام نا فذ کرنے کی کو شش کرتے ہیں جو صرف تیل کی دولت سے تو مالامال ہیں لیکن اعمال کی دولت سے نہیں۔
نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے میاںنواز شریف کا دعویٰ ہے کہ کراچی کی روشنیاں جلد بحال ہو جا ئیں گی اور اب وہاں حالات بہتر ہیں۔ یقینا ستمبر 2013ء سے وہاں بھتہ مافیا ،اغوا برائے تا وان اور ٹا رگٹ کلنگ کی وارداتوں میں خاطر خواہ کمی آ ئی ہے۔کراچی شہر میں قانون اور امن و امان نا فذ کرنے والے اداروں کی زیرو ٹا لرنس پالیسی رنگ لا رہی ہے لیکن وہاں دہشت گردوں کی آماجگا ہیں بھی قائم ودائم ہیںجس کا بین ثبوت حال ہی میں صفورا گو ٹھ میں اسما عیلیوں کا اند وہناک قتل ہے۔علاوہ ازیں مذ ہبی دہشت گرد وہاں اساتذہ اور دیگر اہم شخصیا ت کو موت کے گھاٹ اتا ر رہے ہیں ،یقینااس حوالے سے بہت سے اقدامات کرنے والے ہیں۔ جہاں تک بلو چستان کا تعلق ہے‘ پاکستان کا رقبے کے لحا ظ سے سب سے بڑا صوبہ نہ صرف مذ ہبی دہشت گردی بلکہ پاکستان مخالف نام نہا د قوم پرستوں کی کارروائیوں کا نشانہ بنا ہوا ہے ۔ہزارہ شیعہ حضرات کا قتل عام معمول بن چکا ہے اور اب اس سے بھی زیا دہ خطر ناک کھیل وہاں دوسرے صوبوں سے آ باد پشتون آ باد ی کو دہشت گردی کا نشا نہ بنا نے کی صورت میں نکل رہا ہے۔حال ہی میں سانحہ مستونگ میں بیس سے زائد پختونوں کو بڑی سفاکی سے قتل کیا گیا،بعد میں میاں نواز شریف نے کوئٹہ میں ایک اے پی سی (آل پارٹیز کانفرنس) کا انعقاد کیا۔ کانفرنس میں دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے عزم مصمم کا اظہار کیا گیا لیکن صوبے میں زمینی حقائق جوں کے توں ہیں۔ مئی2013ء کے انتخابات کے بعد بلو چستان میں قومیت پرستوں کی حکومت ہے لیکن اس کے باوجو د صوبے میں ایجنسیوں کا دخل بھی پہلے کی طرح ہی ہے۔جنوبی پنجاب میں جو لوگ گھات لگائے بیٹھے ہیں ان پر بھی آہنی ہاتھ ڈ النے کی ضرورت ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام تر زور دہشت گردوں کی بیخ کنی پر صرف کیا جا ئے ۔حال ہی میں کورکمانڈر زکی میٹنگز اور حکومتی ترجمانوں کی طرف سے پاکستان میں بھارتی انٹیلی جنس ادارے ''را‘‘ کی بڑ ھتی ہو ئی کارروائیوں پر اظہا رتشویش کیا گیا ہے ۔بہتر ہو گا اس حوالے سے ملک کی بڑی سیاسی جما عتوں کے رہنما ؤں کو اعتما د میں لیا جا ئے ۔دہشت گردی کے خلا ف چو مکھی لڑائی ذ ہنوں کی تبدیلی کے بغیر نہ لڑی جا سکتی ہے اور نہ جیتی جا سکتی ہے ۔اسی بنا پر ہماری حکومت کودہشت گردی کے خاتمے کے لئے ابھی بہت سے پا پڑ بیلنا ہوں گے۔