سابق صدر مملکت اور پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے فوج کے بارے میں حالیہ بیان نے ملک کے جسد سیاست میں ہلچل مچاکر رکھ دی۔ یہ بیان عمومی طور پر زرداری صاحب کی اس میلان طبع کے خلاف تھا جس کے مطابق وہ صلح جوئی اور مصالحت پسندی کی پالیسیوں کے علمبردار رہے ہیں۔ وہ پاکستان کے غالباً واحد سیاستدان ہیں جنہوں نے اپنی پارٹی کے پانچ سالہ دور اقتدار کو پورا کرایا۔ کہا جاتا ہے کہ زرداری صاحب کی قوت برداشت مثالی ہے اور کسی بھی قسم کی ریشہ دوانیاں انھیں مشتعل نہیں کرسکتیں۔ ماضی میں چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی طرف سے کھلم کھلا پیپلز پارٹی کی مخالفت ہو یا میمو گیٹ کا معاملہ ، جس میں اس وقت کے فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا بھی پس پردہ فریق تھے، مگر پھر بھی زرداری صاحب کے پائے استقامت متزلزل نہیں ہوئے۔ لیکن اب آخر کیا معاملہ ہے کہ جس کی بنا پر پیپلز پارٹی کے شریک چیئرپرسن بلبلا اٹھے۔ ہر طرف ہا ہا کار مچی ہوئی ہے کہ پاک فوج جو اس وقت دہشت گردوں کا قلع قمع کرنے کے لیے آپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے، کے بارے میں منفی ریمارکس نامناسب ہیں۔ سب سے دلچسپ ردعمل وزیراعظم میاں نواز شریف کا تھا۔ انہوں نے تو یہ برملا طور پرکہہ دیا کہ فوج کے خلاف بیان پر وہ چُپ نہیں رہ سکتے تھے۔ انہوں نے فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف سے جو ماسکو کے دورے پر تھے، فون پر بات چیت بھی کی۔ میاں نواز شریف نے آصف زرداری سے جو کئی لحاظ سے اُن کے محسن بھی ہیں، پہلے سے طے شدہ ملاقات بھی منسوخ کر دی۔ زرداری صاحب نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیتے ہوئے سیاسی جماعتوں کے سربراہوں کے اعزاز میں دیے گئے افطار ڈنر میں میاں نواز شریف کو سرے سے مدعو ہی نہیں کیا۔ یقیناً زرداری صاحب نے یہ کہا ہوگا کہ '' مرے تھے جن کے لیے، وہ رہے وضو کرتے‘‘۔
عجیب ستم ظریفی ہے کہ وہی نواز شریف جن کی ماضی میں بطور حکمران یا اپوزیشن لیڈرجنرل ضیاء الحق کے سواکسی بھی فوجی سربراہ سے نہیں نبھی ، جنرل راحیل شریف سے اتنے شیر وشکر کیسے ہوگئے ہیں۔ یقیناً ملک کے لیے یہ نیک شگون ہے کہ وزیر اعظم اور آرمی چیف اس نازک مرحلے پر ایک صفحے پر ہیں اور جمہوریت کی بقا کے لیے ایسا ہی ہونا چاہیے ۔
زرداری صاحب کے افطار ڈنر میں ان کے حالیہ بیان پر تفصیلی بات چیت ہوئی ۔ بعد میں محترمہ شیری رحمن اور قمرزمان کائرہ نے بریفنگ میں ''بیک گیئر‘‘ مارا اورکہا کہ پیپلزپارٹی ماضی میں آمر جرنیلوں کا مقابلہ کرتی رہی ہے اورآئندہ بھی کرتی رہے گی اور زرداری صاحب نے اپنے بیان میں جنرل راحیل شریف کو نہیں بلکہ ماضی کے فوجی آمروں کو ہدف تنقید بنایا تھا، نیز یہ کہ زرداری صاحب کا مفاہمانہ رویہ جاری رہے گا۔ پیپلزپارٹی کی قیادت سمیت بیشتر سیاستدانوں نے اس مرحلے پر زرداری صاحب کے بیان کی تائید نہیں کی۔ یہ بات تو اصولی طور پردرست ہے کہ وطن عزیز میں جہاں اس کے قیام سے لے کر اب تک قریباً آدھی مدت فوجی آمریتوں یا نیم آمریتوں کے سائے میں گزری ہے، ان آمریتوں کے دور میں ملک کو نقصان پہنچا ہے اوریہ بات بھی اب قریباً طے ہوچکی ہے کہ تمام تر کوتاہیوں اور خرابیوں کے باوجود ملک کی باگ ڈور منصفانہ انتخابات کے نتیجے میں منتخب سیاستدانوں کے پاس ہی ہونی چاہیے۔ اس تناظر میں ماضی کی فوجی آمریتوں کے رول کا جائزہ لینا فطری عمل بھی ہے اور مستقبل کی راہ متعین کرنے کے لیے ضروری بھی۔ لیکن اس ضمن میں احتیاط کی ضرورت ہے کہ موجودہ فوجی قیادت کو بھی بلاجواز رگڑا نہ لگایا جائے۔ پاکستان میں اس وقت ایک منفردنظام چل رہا ہے ، دودھ کا جلا چھاچھ بھی پھونک پھونک کر پیتا ہے کے مصداق میاں نواز شریف انتہائی احتیاط سے کام لیتے ہیں کہ فوج کو کسی صورت ناراض نہ کریں اور اس کے ہر مطالبے پر صاد کرے ۔ دوسری طرف افواج پاکستان بھی فوج کے سابق سربراہ جنرل کیانی کے دور سے ہی فیصلہ کر چکی ہیں کہ براہ راست حکومت کرنا اس کے بس کا روگ نہیں ہے لیکن دوسری طرف سیاستدانوں کو کھلا بھی نہیں چھوڑ ا جاسکتا۔ اصولی طور پر تو فوج پر سویلین کنٹرول جمہوریت کا ایک بنیادی اصول ہے لیکن بعداز خرابی بسیار سیاستدانوں اور خود فوج نے یہ سبق سیکھا ہے کہ اس طرح کی'' پوتر ‘‘جمہوریت ملک کے معروضی حالات کی بنا پر شاید نہیں چل سکتی۔ اسی بنا پر سیاستدان جب حکومت میں ہوتے ہوئے پر پُرزے نکالنے کی کوشش کرتے ہیں تو ان پر کاٹھی ڈال دی جاتی ہے۔ خارجہ پالیسی، خطے کی صورت حال اور اندرونی سکیورٹی میں فوج کا کلیدی رول اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ بعض ناقدین یہاں تک کہتے ہیں کہ وطن عزیز میں ' سافٹ کُو‘ ہوچکا ہے۔
میاں نواز شریف جب اپوزیشن میں تھے تو وہ کچھ عرصے کے لیے بھارت نواز اورفوج مخالف صحافیوں کے ہتھے چڑھ گئے تھے اور فوج پر کھلی تنقید کرنے کے ساتھ ساتھ بھارت کو جپھی ڈالنے کے لیے اس حد تک کوشاں تھے کہ انہوں نے ایک بھارتی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ویزے کی پابندی کے ہی خلاف ہیں۔اپوزیشن کے اُس دور میں میاں صاحب اور اُن کے نو رتنوں جن میں چودھری نثارعلی خان اور خواجہ آصف پیش پیش تھے، کے بیانات بھی فوج پر تنقید پر مبنی ہوتے تھے۔ تاہم جنرل کیانی کی اس شکایت پر کہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے سیاستدانوں کی فوج پر تنقید کا اچھا اثر نہیں پڑتا، بعض دوستوں کے سمجھانے پر میاں صاحب کو یہ نقطہ سمجھ آگیا اور انہوں نے مزید بیان بازی بند کر دی ۔ اس مرتبہ برسراقتدار آنے کے بعد ان پر بھارت سے دوستی کی پینگیں بڑھانے کا شوق فضول پھر سوار تھا لیکن اسٹیبلشمنٹ کی ناپسندیدگی اور مودی کی پاکستان اور مسلمان دشمن پالیسیوں کے پیش نظر انہیں پسپائی اختیار کرنا پڑگئی اور عمران خان کے دھرنے کے بعد تو میاں صاحب نے سجدہ سہو ہی کرلیا۔ حق بات تو یہ ہے کہ آصف علی زرداری نے اس موقع پر میاں صاحب کی بہت مدد کی، پیپلز پارٹی نے نہ صرف عمران خان کا ساتھ نہیں دیا بلکہ پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس بلوا کر وہاں بطور اپوزیشن نواز شریف کا بھرپور ساتھ دیا۔ حتیٰ کہ پیپلزپارٹی کے ہی بعض حلقوں نے یہ کہنا شروع کر دیا کہ خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر نہیں بلکہ مسلم لیگ (ن) کے رکن لگتے ہیں۔ موجودہ تناظر میں زرداری صاحب کی وضاحت کے باوجود یہ بات مسلمہ ہے کہ صوبہ سندھ جہاں پیپلزپارٹی کی حکومت ہے، وہاں بالخصوص کراچی میں رینجرز کی کارروائیوں کے بارے میں اُس کی قیادت کے کچھ تحفظات ہیں۔ میاں نواز شریف کو شترمرغ کا رویہ اختیار کرنے کے بجائے بطور وزیراعظم اپنا رول ادا کرنا چاہیے اور اگر فیڈریشن کی کسی اکائی کو شکایات ہیں تو ان کو دور کرنے کی بھرپورکوشش کرنی چاہیے۔ اس حوالے سے اصولی اور اخلاقی طور پر انہیں ڈرنے کے بجائے آصف زرداری کو آن بورڈ لینا چاہیے ۔ جہاں تک پیپلزپارٹی کی سندھ میں حکمرانی کا تعلق ہے، بطور شریک چیئرمین زرداری صاحب کو یقیناً یہ سوچنا چاہیے کہ پیپلز پارٹی نے وہاں حکمرانی کے کیا معیار قائم کیے ہیں؟ اور خراب گورننس کے حوالے سے جوبھی معاملات ہیں ان میں بہتری لانا اور تطہیر کرنا ان کے فرائض منصبی میں شامل ہونا چاہیے۔ جہاں تک صوبے میں کرپشن کا تعلق ہے، اس بارے میں شکایات بہت عام بلکہ زبان زدخاص و عام ہیں ، اُن کی تحقیقات نیب جیسے متعلقہ سویلین اداروں کو کرنی چاہیے نہ کہ رینجرز کے ذریعے۔