گز شتہ ہفتے تر کی کے تا ریخی شہر استنبول میں پاکستانی میڈیا کی کچھ سرکردہ شخصیا ت ایک روزہ اجلاس کے لیے اکٹھی ہو ئیں۔اس میٹنگ کا اہتمام جارج سوروس کے ادارے اوپن سوسائٹی فا ؤنڈ یشن ''اوایس ایف‘‘نے کیا تھا اور اس کا مقصدپاکستانی صحافیوں اور میڈیا پر سنز کی حفاظت اور تحفظ کے بارے میںکچھ کرنا تھا۔ اجلاس کو کنڈ کٹ کرنے کا فریضہ ''اوایس ایف ‘‘ کے آزاد صحا فت کے مشاورتی بورڈ کے چیئرمین اور بی بی سی کی عالمی سروس برائے ایشیاکے صحا فتی امور کے چیئرمین بیرو زجوشی نے سرانجام دیا۔شرکا ء میں راقم الحروف کے علاوہ ڈان کے ایڈ یٹر ظفر عباس‘ ''او ایس ایف ‘‘ پاکستان کے ڈا ئر یکٹر ابصار عالم ،پاکستان پریس فا ؤنڈ یشن کے ڈا ئریکٹر اویس اسلم علی، جیو گروپ کے منیجنگ ڈا ئریکٹر شاہ رخ حسن ،ایکسپریس کے فہدحسین اور بعض دیگر شخصیات بھی شامل تھیں۔پاکستان جو کہ تیسری دنیا اور اسلامی دنیا میں بجا طور پر یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ ان کے مقابلے میں یہاں صحا فت آزاد ہے لیکن ساتھ ساتھ وطن عزیز کو صحا فیوں کے لیے خطرناک ترین ملک بھی تصور کیا جا تا ہے ۔اسی بنا پر اس اجلاس کاموضوع یہی تھا۔Practical ideas for media and journalism in Pakistan۔ برادر ظفرعباس کی ڈیو ٹی لگا ئی گئی کہ وہ جو لا ئی کے تیسرے ہفتے تک پاکستان کے تمام میڈ یا گروپس میں اس حوالے سے اتفاق رائے پیدا کریں ۔کمیٹی نے ایک پانچ نکا تی لا ئحہ عمل بھی تیا ر کیا جس میںمختلف احتیا طی تدابیر تجو یز کی گئیں ۔قابل ذکر بات یہ ہے کہ صحافیوں اور میڈ یا اداروں کی حفاظت کلیدی اہمیت کی حا مل ہے اوراس ضمن میں پیش رفت کرنے کا فیصلہ ''او ایس ایف‘‘نے کیا نہ کہ پاکستان کے میڈ یا اداروں اور تنظیموں نے ۔شا ید اسی بناپر''او ایس ایف‘‘ کے منتظمین نے اے پی این ایس، سی پی این ای اور پی بی اے کے نما ئندوں کومتذکرہ اجلاس میں بلانے کی زحمت ہی نہیں کی۔یقینا جس مقصد کے لیے یہ اجلاس بلا یا گیا تھا وہ اعلیٰ و ارفع تھا اور امید ہے کہ بات نشستند گفتند اور بر خا ستند سے آ گے بڑھ کر ایک ایسی با ڈی تشکیل دینے میں کا میا ب ہو جائے گی جس کا ایجنڈا محض ملک میں صحا فیوں اور صحا فتی اداروں کا تحفظ ہو ۔
ہمارے دورۂ ترکی سے عین قبل وہاں بیلٹ بکس کے ذریعے انقلاب آ چکا تھا ۔صدر طیب اردوان کی جما عت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی انتخا بات میں اپنی اکثر یت سے ہاتھ دھو بیٹھی تھی۔ طیب اردوان کی یہ جما عت تقریباً 13 برس سے برسر اقتدار ہے اور ان انتخا بات کے ذریعے اردوان ترکی کے پارلیمانی نظام کو صدارتی نظام میں ڈھا لناچا ہتے تھے لیکن ان کی حکمران جماعت آ ئین میں تبدیلی لانے کے حوالے سے مطلو بہ اکثر یت حا صل نہیں کر پا ئی ۔ ترکی میں متناسب نمائند گی کا نظام را ئج
ہے جس کے تحت حکمران جماعتAKPکے ووٹوں کا تنا سب 50فیصد سے گھٹ کر41فیصد رہ گیا‘ لیکن سب سے حیران کن بات کُردوں کی جما عت پیپلز ڈیمو کر یٹک پارٹی کا دس فیصد سے زیا دہ ووٹ لے جا نا ہے۔ اس طرح اس جماعت کو جس کی پارلیمنٹ میں نما ئندگی نہ ہونے کے برابر تھی ،اب قریبا ً 80 نشستیں حا صل ہوگئی ہیں۔آ خر وہ کیامحرکات ہیں جن کی بنا پر اردوان اور ان کی جماعت کومنہ کی کھانا پڑی؟۔ مختلف دانشوروں اور مقامی صحا فیوں سے بات چیت کے دوران یہ بات واضح ہوئی کہ اس جما عت نے ترکی کو اس کی موجو دہ اقتصا دی خوشحا لی تک لے جانے کے لیے بہت کچھ کیا لیکن ساتھ ہی ساتھ اردوان کی رعونت اور آمرانہ رویہ انھیں بالآخر لے بیٹھا ۔طیب اردوان کو اب '' ترکی کے سلطان‘‘ اور'' پاشا‘‘ کے طور پر یا د کیا جا تا ہے ۔یہ ترکی کے حوالے سے ایک گالی ہے کیو نکہ سلطان اور پاشا وہ لو گ تھے جو اتاترک کے انقلاب سے پہلے وہاں پر بلا شرکت غیرے اقتدار کے مزے لو ٹتے رہے۔ اردوان اس امر کے با وجو د کہ ترکی ایک سیکو لر ملک ہے ،ایک اسلامی جما عت کی سربراہی کرتے ہیں ۔ترکی کے عوام راسخ العقید ہ مسلمان ہیں لیکن وہاں مذہب کا ریا ست سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ایک طرف اگر مساجد آ با د ہیںاور با پردہ خواتین سڑکوں پر نظر آتی ہیں تو جد ید مغربی لباس میں ملبو س خواتین بھی استنبول کی سڑکو ں پر آزادی سے گھوم پھر رہی ہیں۔ترک خوش شکل ہونے کے ساتھ ساتھ خوش لباس بھی ہیں۔طیب اردوان اور ان کی جماعت کے سابق روحا نی پیشوا فتح اللہ گولن امریکہ میںفیلاڈیلفیامیں مقیم ہیں۔ گولن مو ومنٹ با قا عدہ ایک تحریک ہے اور اس کے مقلدپا رلیمنٹ ،پولیس اورعدلیہ میں بھی مو جو د تھے۔ پہلے اردوان نے ان سے لڑا ئی لی اور اس تحریک کے ارکان کے خلاف انتقامی کارروائیاں شروع کر دیں ۔نیز ترکی کی نسبتا ً لبرل شہری آ با دی بالخصوص خواتین کے بارے میں تحقیر آمیز ریما رکس کو چنداںپسندنہیں کیا گیا۔ اس پر مستزادیہ ہے کہ ترک پولیس کو بڑی بے دردی سے اپوزیشن کو کچلنے کی کھلی چھٹی دے دی گئی ۔جب ترکی کے تاکسم سکوائر میں ایک شا پنگ مال بنانے کا فیصلہ کیا گیا تو ترک شہریو ں کی ایک کثیر تعداد نے وہاں احتجا ج شروع کر دیا ۔
طیب اردوان کے بڑھتے ہو ئے آمرانہ ہتھکنڈوں سے تنگ آئے ہوئے عوام سراپا احتجاج بن گئے،ان حالات میں شاپنگ مال تو نہ بن سکا لیکن اس ساری کشیدگی میں 26ترک شہری مارے گئے۔ اردوان کی اختیا رات کو اپنے ہاتھوں میں مرکو ز کرنے کی سعی کے شا خسانے کے طورپر ترکی کا آزاد میڈ یا بھی ان کی انتقامی کا رروائیوں کا نشانہ بنا۔کئی اخبارات کو بند کر دیا گیا اور صحا فیوں کو پا بند سلاسل ۔اس ضمن میں گولن تحریک کے حامی میڈ یا گروپ کو بھی خا ص طور پرتعزیری کارروائیوں کا نشانہ بنا یا گیا۔ اب روس کے صدر پیو ٹن کی طرح اردوان بھی گز شتہ بر س صدر منتخب ہو نے کے بعد آئین کا حلیہ بدل کر ایک با اختیا ر صدارت کے ذریعے ترکی کا حلیہ بدلنا چاہتے تھے لیکن ترک اور کردوںنے انھیں ایسا کرنے کی اجا ز ت نہیں دی ۔ان کے عزائم کے تابوت میں آخر ی کیل ان پر لگنے والے کرپشن کے الزامات ثابت ہو نے پر ٹھکی، ایک ایسی ٹیپ بھی منظر عام پر آئی جس میں ان کے صا حبزادے جو اطلا عات کے مطابق بزنس ڈیلو ں میں خوب ہا تھ رنگ رہے ہیں ، رنگے ہاتھوں پکڑے گئے۔ ڈیل ایرانی تیل تر کی کے ذریعے فروخت کرنے کے حوالے سے تھی ۔واضح رہے کہ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کی بنا پر ایران براہ راست تیل برآمد نہیں کر سکتا ۔ کرپشن کی تحقیقات کرنے کے بجا ئے اردوان نے الزام لگانے والوں پر انتقامی کا رروائیوں کی انتہا کردی ۔ جہاں تک ان کے ذاتی لائف سٹا ئل کا تعلق ہے تو ابھی حال ہی میں وہ ایک ہزار کمروں پر مشتمل اپنے نو تعمیر شدہ محل میں منتقل ہو ئے ہیں ۔اب صورتحا ل یہ ہے کہ AKPکو بر سر اقتدار رہنے کے لیے کسی نہ کسی سیاسی جما عت سے اتحا د کرنا پڑے گا بصورت دیگر انتخا بات دوبارہ کرانا پڑیں گے ۔شاید اردوان ہارماننے کے بجا ئے دوبارہ الیکشن کرانے کا رسک لے لیں ۔ ترک حکومت کی بد قسمتی ہے کہ ان تمام مشکلا ت کے ساتھ ساتھ اقتصا دی طور پر بھی ترکی کا حال زوال پذ یر ہے۔ اس تنا ظر میں دوبارہ انتخابات کی صورت میں بھی برسراقتدار جماعت کو شاید منہ کی کھانا پڑے ۔
جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے ترک پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے ہیں اور ترکی شاید ان معدودے چند اسلامی ملکوں میں سے ہے،جہاں ہمارے شہریو ں کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا جا تا ہے۔ مجھے بہت خو شی اور حیرت ہو ئی جب ایک شہری نے مجھ سے کہا کہ ترک عوام پاکستان سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ وہ ہمارا محسن ہے، اس کا اشارہ قبرص کے معاملے میں یو نانی جارحیت کے حوالے سے پاکستان کی ترکی کے لیے تا ریخی طور پر بھرپور حمایت کی طرف تھا ۔ بے شمار مسا ئل کے باوجود یہ بات واضح ہے کہ ترکی نے حا لیہ برسوں میں ہر لحا ظ سے ترقی کی ہے۔ استنبول کے یو رپی اور ایشیائی حصے دونوں کسی ترقی یا فتہ ملک کے شہر لگتے ہیں۔ استنبول میں میٹروبس بھی رواں دواں ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ٹرام اور انڈر گراؤنڈ ٹرین بھی۔ سابق حکمرانوں کی طرح ہمارے شریف برادران بھی ترکی کی بہت مالا جپتے ہیں، یقینا ترکی ہمارا دوست ہے‘ ہمیں اقتصا دی ،سیاسی اور سما جی لحا ظ سے اس سے بہت کچھ سیکھنا چا ہیے۔ اگرچہ پاکستان ایک سیکولر ملک نہیں ہے لیکن جس مخصوص انداز سے پاکستان کو ''الباکستان‘‘ بنا دیا گیا ہے ہمیں ترکی کی طرف دیکھ کر پاکستان کے کمال اتا ترک قا ئد اعظم محمد علی جنا حؒ کے افکار کی روشنی میں اپنی اصلا ح کرنی چا ہیے اور بانیان پاکستان کی دی ہوئی جیو اور جینے دو کی پا لیسیوں پر کاربند ہو نا چا ہیے۔