"ANC" (space) message & send to 7575

ایم کیو ایم کا کڑا امتحان

وطن عزیز میں اس وقت عجیب بے یقینی کی صورتحال ہے۔ ایم کیو ایم کے بارے میں بی بی سی کے دھماکہ خیز انکشافات کی روشنی میں شہری سندھ میں راج کرنے والی جماعت کا وجود ہی سوالیہ نشان بنتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کے ممکنہ کریک ڈائون کے بارے میں طرح طرح کی افواہیں گشت کر رہی ہیں جن کو پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور برخوردار بلاول بھٹو زرداری کی اچانک دبئی روانگی سے مزید تقویت ملی‘ لیکن افواہ ساز فیکٹریوں کی قیاس آرائیوں کے برعکس بلاول بھٹو جمعہ کی شام کو واپس کراچی پہنچ گئے۔ آصف زرداری جو بغرض علاج بذریعہ دبئی امریکہ کے لیے روانہ ہوئے تھے‘ شنید ہے کہ وہ اب دبئی سے ہی واپس وطن لوٹ رہے ہیں۔ میڈیا کے مخصوص حصے اور سوشل میڈیا پر عام طور پر یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ اب کرپٹ اورجرائم پیشہ عناصر کے احتساب کی گھڑی قریب آن پہنچی ہے۔ نام نہاد تجزیہ نگار جوش خطابت اور شوخی تحریر کا مظاہرہ کرتے ہوئے مفت مشورے دے رہے ہیں کہ جمہوریت اپنی جگہ لیکن اس سے زیادہ سیاستدانوںاور بیوروکریٹس کی کرپشن کا بے رحم احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جہاں ایوب خان، یحییٰ خان ، ضیاء الحق اور پرویز مشرف جیسے جرنیل ملک کی تاریخ کا قریباً نصف عرصہ بلاشرکت غیرے حکومت کر چکے ہیںوہاں ایک مرتبہ پھرایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کہ جمہوریت کو خیرباد کہنے کی صورت میں کوئی آنسو نہ بہائے۔یقینا جہاں صورتحال کویہاں تک پہنچانے میں سیاستدانوں کی ناقص کارکردگی اور ڈیلیور کرنے میں ناکامی کا گہرا عمل دخل ہے وہاں اس بات سے کس طرح صرف نظر کیاجاسکتا ہے کہ ماضی میں حکومتیں برطرف کرنے والے جرنیلوں نے ہمیشہ اس بات کی دہائی دی کہ وہ وطن عزیز کو بے لاگ احتساب کر کے کرپشن سے پاک کریں گے اور گورننس کی اعلیٰ وارفع روایات کی بنیاد ڈالیں گے لیکن یہ کتنی ستم ظریفی ہے کہ یہ جرنیل اپنے اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ''کرپٹ سیاستدانوں‘‘ کا احتساب کرنے کے بجائے ان کو اپنی گود میں بٹھالیتے ہیں اور پاکستان کو مسائلستان بنا کر اڑان بھر جاتے ہیں۔
ایوب خان کی پالیسیوں کے نتیجے میں بالآخر آدھا ملک ہی ہمارے ہاتھ سے چلا گیا اور ضیاء الحق کے اسلام کی آڑ میں پہلے احتساب پھر انتخابات کے نعرے کا شاخسانہ کلاشنکوف کلچر اور دہشت گردی کے ناسورکی صورت میں سامنے آیا‘ جس سے ہم آج تک نبردآزما ہیں۔ کارگل کے ہیرو پرویز مشرف نے اپنے نوسالہ دورِاقتدار میں پاکستان کے ہرادارے کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ فوجی ادوار میں ملک میں انفراسٹرکچر ڈویلپمنٹ کا کوئی کام نہیں ہوا لیکن آج ہمارے بعض مخصوص میلان طبع رکھنے والے دانشوروں کا یہ حال ہے کہ میر تقی میر کے بقول ؎
میر کیا سادہ ہیں، بیمار ہوئے جس کے سبب
اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں
سیاستدانوں کو اپنے گھر درست کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ کرپشن، اقرباپروری اور میرٹ کے فقدان جیسے مسائل نے عوام کے ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اگر جمہوریت کا مطلب صرف لوٹ مار اور ایک مخصوص طبقے کی آبیاری کرنا ہے تو کیا عوام نے ایسی جمہوریت کا اچار ڈالناہے ۔لیکن سب سے زیادہ حیرت ان نام نہاد دانشوروںپر ہوتی ہے‘ جن کا طرز عمل دیکھ کر مجھے بزرگ سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان بہت یاد آتے ہیں۔ پاکستان کے جسد سیاست میں نوابزادہ نصراللہ خاں مرحوم کو ایک منفرد حیثیت حاصل تھی‘ وہ سیاسی جماعتوں کے اتحاد بنانے اور توڑنے میں یکتا تھے۔ آمرانہ ادوار میں وہ جمہوریت کے غم میں دبلے ہوتے رہتے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے سیاسی جماعتوں کو اکٹھا کرنے میں کامیاب ٹھہرتے‘ لیکن جونہی بری بھلی یا لولی لنگڑی جمہوریت بحال ہوتی وہ جمہوری حکومتوں کو گرانے کی خاطر اتحاد تشکیل دینے کے لیے سرگرم عمل ہو جاتے۔ مجھے یاد ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لاہور میں، نکلسن روڈ پر ان کی بیٹھک میں ہربرانڈ کا سیاستدان رونق افروزرہتا اور وہ اکثر یہ کہتے کہ بھٹو کی جمہوریت سے تو انگریز کا ایکٹ آف 1935 بہتر تھا۔ اسی حوالے سے یونائیٹڈ ڈیموکریٹک فرنٹ اور 1977 ء کے انتخابات سے پہلے مختلف الخیال جماعتوں کو ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کرنے کے لیے پاکستان قومی اتحاد کی تشکیل میں ان کا کلیدی رول تھا۔
جہاں تک ایم کیو ایم کا تعلق ہے‘ اون بینٹ جونز (Owen Bennett-Jones) کی رپورٹ میں لگائے گئے الزامات پہلی مرتبہ منظر عام پر نہیں آئے ۔ 1980 ء کی دہائی میں لسانی بنیاد پر قائم ہونے والی اس جماعت پر بھارت نواز ہونے کا الزام شروع سے ہی عائد کیا جارہا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جرائم پیشہ افراد کے ذریعے بھتہ اکٹھا کرنے، قتل اور دیگر جرائم میں ملوث ہونے کے الزامات لگتے رہے ۔ شہری سندھ پر اس پارٹی کا مکمل ہولڈ ہے اور ایم کیو ایم حکومتوں میں شامل ہونے کے باوجود ''ایجی ٹیشن‘‘ کی سیاست کو بھی فروغ دیتی رہی ہے۔ اس کے قائد 1992ء سے لندن میں خودساختہ جلاوطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ برطانوی شہری ہونے کے ناتے 2012ء میں لندن میں عمران فاروق کے قتل اور منی لانڈرنگ جیسے الزامات میں برطانوی قانون ان کے خلاف حرکت میں آچکا ہے‘ لیکن بی بی سی کا یہ الزام جو بعض بے نام پاکستانی اہلکاروں کے حوالے سے لگایا گیا ہے کہ ایم کیو ایم کے لیڈروں کو بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ پناہ دینے کے ساتھ تربیت دیتی رہی ہے اور اسلحے کے علاوہ مالی امداد فراہم کی جاتی رہی ایک انتہائی سنگین الزام ہے جس کی بے لاگ اور غیرجانبدارانہ تحقیقات اب ہونا ہی ہوگی۔
بظاہر محسوس ہو رہا ہے کہ میاں نواز شریف کی حکومت نے ایک نیا وتیرہ اختیار کرلیا ہے جس کے مطابق پہلے کسی بین الاقوامی طور پر معروف صحافتی و نشریاتی ادارے میں کسی معروف صحافی کو تحقیقاتی رپورٹ لیک کی جاتی ہے اور اس کے شائع یا نشر ہوتے ہی حکومت اس پر کارروائی کا آغاز کردیتی ہے۔ حال ہی میں سافٹ ویئر ادارے ''ایگزیکٹ‘‘ کے بارے میں نیویارک ٹائمز نے اپنے لندن میں مقیم پاکستان کے لیے نامہ نگارڈیکلن والش (Declan Walsh)کی رپورٹ شائع کی اور حکومت نے ایگزیکٹ کے خلاف بڑی سرعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اتنی بھرپور کارروائی کی کہ اس کے زیراہتمام عنقریب بڑی دھوم سے منظر عام پر آنے والے نیوز چینل ''بول‘‘ کا بولورام ہوگیا۔ اب ایم کیو ایم کے بارے میں بھی تازہ انکشافات جو پاکستانی میڈیا کے لیے تونئے نہیں ہیں‘ بی بی سی کے ذریعے کئے گئے ہیں اور وزیردفاع خواجہ آصف اسمبلی کے فلور پر فرما رہے تھے کہ ایم کیو ایم کی لوڈ شیڈنگ آج شام کو ہی ہونے والی ہے۔ اس پس منظر میں یہ بات خاصی واضح ہو جاتی ہے کہ بی بی سی کے نمائندے کو باقاعدہ ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے تحت اطلاعات فراہم کی گئیں؛ اگرچہ اس طرح یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حکومت کو بین الاقوامی اخباری ونشریاتی اداروں کے ذریعے ایسی اطلاعات ملتی ہیں جن پر وہ کارروائی کرسکے۔ ایم کیو ایم کے خلاف الزامات اتنے سنگین ہیں کہ ان کی بے لاگ تحقیقات کے سوا اب کوئی چارہ بھی نہیں۔ حکومت کو سپریم کورٹ یا کسی عدالتی کمیشن کے تحت ایم کیو ایم کے خلاف ریفرنس دائر کرنا چاہیے تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ ایسے عدالتی فورم پر ایم کیو ایم کو صفائی کا پورا حق حاصل ہونا چاہیے۔ دوسری طرف الطاف حسین اور ان کے ساتھی واقعی یہ سمجھتے ہیں کہ بی بی سی نے محض ڈیسک رپورٹنگ کر کے ان کی کردار کشی کی ہے تو انھیں اس نشریاتی ادارے کے خلاف قانونی چارہ جوئی کرنی چاہیے۔ لیکن وقت آگیا ہے کہ سیاسی طور پر ایم کیو ایم‘ جس کی اکثریت بڑے زیرک سیاستدانوں پر مشتمل ہے‘ وہ جرائم پیشہ قیادت سے جلد از جلد چھٹکارا حاصل کر کے سیاسی حربوں کے ذریعے سیاست کرنے کی سعی کرے۔ یقینا ایم کیو ایم شہری سندھ کی نمائندگی کرتی ہے جو جرائم پیشہ افراد کا نہیں بلکہ سیاستدانوں کا کام ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں