16برس بعدکسی بھارتی وزیر اعظم کے اچانک دورئہ پاکستان اور وہ بھی نریندر مو دی جیسے'' عقاب‘‘ کی لاہور یاترا پر اہل وطن حیران وششدر رہ گئے۔سرکاری خبر تو یہ ہے کہ بھا رتی وزیر اعظم نے صبح ساڑھے گیا رہ بجے میاں نواز شریف کو''سالگرہ مبارک ‘‘کہنے کے لیے کا بل سے فون کیا تو میاں صاحب نے ان کو چائے کی دعوت دے دی اور مو دی صاحب اپنے سوسے زیادہ افراد پر مشتمل وفد کے ساتھ لا ہوچلے آئے۔گو یا یہ سب کچھ کسی منصوبہ بندی یا بیک چینل ڈپلو میسی کے بغیر ہوا۔میاں صاحب نے لا ہور ائیرپو رٹ پر مو دی کا پرتپاک استقبال کرتے ہو ئے انھیں جپھی ڈالی ۔امید ہے کہ ماضی کی طرح یہ جپھی انھیں مہنگی نہیں پڑے گی اور یقیناان کے اقتدار کے خا تمے پرمنتج نہیں ہو گی۔ جب فروری1999ء میں بھا رتی وزیر اعظم اٹل بہا ری واجپا ئی بس پر سوارہو کر لاہو ر تشریف لا ئے تب بھی میاں صاحب نے انھیں ''جی آ یا ں نوں‘‘ کہا تھالیکن اس وقت اٹل جی سے کیا ہو ا معا نقہ میاں صاحب کو بہت مہنگا پڑا تھا۔بظا ہر لبرل لیکن درحقیقت بھارت کے حوالے سے پرلے درجے کے ''ہا ک ‘‘اس وقت کے پاک فوج کے سربراہ جنرل پرویز مشرف نے بھارت کے شاعر وزیراعظم کے پاکستان آنے کو پسند نہیں کیا اور ان کی آمد کے موقع پر لاہور آنے سے گریز کیا ۔کیو نکہ پرویز مشرف کا تو کچھ اور ہی ایجنڈا تھا ‘وہ کا رگل کی چوٹیوں پر قبضہ کر کے بھارت کے کمیونی کیشن سسٹم اور دراس سیکٹر تک اس کی رسا ئی کو کاٹ کر فوجی نکتہ نگا ہ سے مقبو ضہ کشمیرپاکستان کو واپس دلانے کا خواب دیکھ رہے تھے ۔یہ خواب تو شرمندئہ تعبیر نہ ہوا لیکن نواز شریف کو امریکی صدر بل کلنٹن کے ذریعے پاکستان کی معافی تلافی کرانے کی پاداش میں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار سے ہی فارغ کر دیا ‘لیکن میاں صاحب بھی اپنی ہٹ کے پکے ہیں‘وہ بھارت سے سلسلہ جنبانی بڑھانے سے باز ہی نہیں آتے۔ پہلے مو صوف مئی2014ء میں بڑے طمطراق کے ساتھ مو دی کی تقریب حلف برداری میں شرکت کے لیے نئی دہلی تشریف لے گئے ‘اس مو قع پر مو دی نے ایسی گرم جو شی کا مظا ہرہ نہیں کیا جیسا کہ میاں صاحب نے اب لاہور میں کیا ہے۔ساڑھیوں کے تبا دلے اور میاں صاحب کی میٹھی میٹھی با توں کے با وجو د اس مو قع پر کشمیر کاذکر نہ ہو نا اور حریت کا نفرنس کے وفدسے پاکستا نی وزیر اعظم کی ملا قات نہ ہو نے کامحب وطن حلقوں نے سخت برا منا یا ۔ وطن عزیز کے''عقابی حلقے‘‘ اور فوج میں موجود ہا رڈ لا ئینرزنے بھی ان کے خوب لتے لیے ۔
2014 ء کا سال میاں صاحب پر گراں گزرا۔اس دوران مو دی اور ان کے حواریوں کی دھمکیوں کے ساتھ ساتھ لائن آ ف کنٹرول پر صورتحال انتہا ئی کشیدہ ہو گئی ۔پاک بھارت مذاکرات کا عمل مفلوج ہو کر رہ گیا ۔اندرونی طور پر عمران خان اور طاہر القادری اپنے دھرنوں اور راست اقدام کے ذریعے میاں صاحب کی دھنا ئی کرتے رہے ۔ایک مرحلے پر تو ایسے لگتا تھا کہ شریف حکومت ہر چندکہیں ہے کہ نہیں ہے۔ رواں سال کے آ خری چند ہفتوں میں پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں برف پگھلنا شروع ہو گئی۔ اسی ماہ پیرس میں مودی اور نواز شریف کا اچانک مصافحہ، بنکا ک میں پاکستان اور بھارت کے نیشنل سکیو رٹی کے مشیروں کی ملا قات اور بھارتی وزیر خا رجہ سشما سوراج کی ہارٹ آف ایشیا کا نفرنس میں شرکت کے لیے اسلام آبادآمد اور دوستا نہ باتیں اس بات کا مظہر تھیںکہ بھارتی قیا دت نے پاکستان سے مخا صمت کا گیئرتبدیل کر لیا ہے۔سابقہ روایات کے بر عکس سشماسوراج نے لوک سبھا میں اپنے بیان میں جس اندازسے پاکستان کے ساتھ بہتر تعلقا ت بنانے کے عزم کا اعادہ کیا ‘اس سے یہ بات اظہرمن الشمس ہو گئی کہ امریکہ اور برطانیہ کی بیک چینل ڈپلومیسی کے علاوہ مو دی کو بھی احسا س ہو گیا ہے کہ بھارت کوامریکہ اور چین کے مقابلے کی اقتصادی سپر طاقت بنانے کے لیے پاکستان سے تعلقات بہتر کرنا ہو نگے ۔''تا زہ خبر آ ئی ہے‘ خضر ہمارا بھا ئی ہے‘‘کے مصداق بر صغیر میں جذبا تیت کے رو یے ہیں جن میں دشمنی ایک دم معانقوں میں بدل جا تی ہے ۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان مخا صمت کی ایک طویل تا ریخ ہے۔گنجلک اور بنیا دی مسائل ابھی تک تصفیہ طلب ہیں۔ نریندر مو دی صاحب دورئہ روس اور کابل کے بعد لاہور پہنچے تھے ۔انھوں نے ماسکو میں صدر پیو ٹن کے ساتھ بھارت کے لیے6ایٹمی پلا نٹس ،جدید جنگی طیا رے ،میز ائل اور ہیلی کا پٹروں کی خریداری کے 6ارب ڈالر کے 16 معاہدوں پر دستخط کیے۔مزید برآں روسی صدر نے بھارت کی اقوام متحدہ کی سلامتی کو نسل کی مستقل سیٹ کے معاملے میں بھی حما یت کا یقین دلا یا ۔ کابل میں پارلیمنٹ کی بلڈنگ جو بھارت نے ہی تعمیر کی ہے کے افتتاح کے مو قع پر مودی نے پاکستان کا نام لیے بغیر افغانستان میں بیرونی درانداز ی کا ذکر بھی کیا اور مذاقاًیہ بھی کہا کہ وہ قونصلیٹ جہاں سے''را‘‘کے ایجنٹس کارروائی کرتے ہیں ،انھیں بھی دکھائے جا ئیں۔افغانستان کی اقتصادی اور عسکری امداد کے حوالے سے مودی نے یہ بھی کہا کہ اس سے کسی تیسرے ملک کو خا ئف نہیں ہو نا چاہیے۔گویا دہشت گردی ،پاکستان سے بنیا دی تنا زعات اور بھا رت کے سپر طاقت بننے کے عزائم کے حوالے سے معاملہ جوں کا توں رہے گا اور مسکراہٹوںاور جپھیوں کے باوجو دپاکستان کو ان مسا ئل پر اپنے مو قف پر قائم رہتے ہو ئے لچکدار رویہ اپنانا ہو گا ۔
جب سے جنرل راحیل شریف نے پاک فو ج کی کمان سنبھا لی ہے ‘یہ روایت سی بن گئی ہے کہ پاکستان آنے والے زیا دہ تر سربراہان حکومت و بیرونی عمائدین جی ایچ کیو بھی حا ضری دیتے ہیں ۔ ظا ہر ہے یہ تو قع رکھنا کہ نر یند ر مودی پاک فوج کے سربراہ سے بھی ملیں گے یا پاک فوج کا کوئی سربراہ بھارتی لیڈر کوجپھی ڈالے گا ‘موجودہ ماحول میں عبث ہو گی ‘تا ہم میاں نواز شریف کے لیے سب سے بڑا چیلنج یہی ہے کہ وہ افواج پاکستان کو بھارت سے برابری کی بنیا دپر تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں آن بورڈ لیں ۔فوج کو بھی یہ تا ثر زائل کرنا چاہیے کہ وہ بھارت سے تعلقات بہتر بنانے کے معاملے میں تحفظات رکھتی ہے۔1999ء کے مقابلے میں ماحول کا فی تبدیل ہو چکا ہے ۔جنرل راحیل شریف کی سربرا ہی میں فوج نے گز شتہ ڈیڑھ برس میں مذ ہب کے نام پر دہشت گردی پر کاری ضرب لگا ئی ہے۔ ما ضی میں پاک فوج اس بارے میں بھی تحفظات کا شکا ر رہی ہے ۔جنرل راحیل شریف کے پیش رو جنرل اشفاق پرویز کیا نی بر ملا کہتے تھے کہ ٹی ٹی پی کے خلا ف آ پریشن کیاگیا تویہ ملک کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں گے ‘لیکن جنرل راحیل شریف نے دہشت گردی کا بھی کامیابی سے مقابلہ کیا اور مشر قی ومغربی سر حدوں پر خطرات سے بھی بڑی کامیابی سے نبردا ٓزما ہو رہے ہیں ۔ لیکن یہ بات واضح ہے کہ وہ پرویز مشرف کی طرح کسی اندرونی اور بیرونی ایڈ ونچر کے قائل نہیں ہیں ۔
نواز شر یف اور مودی کی ''اچانک ملاقات ‘‘کی شروعات میں بنکاک میں دونوں ملکوں کے قومی سلامتی کے مشیروں کابیک چینل رابطہ بھی شامل ہے ۔پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیر ریٹائرڈ جرنیل ہیں۔ نریندرمو دی اور نواز شریف میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں اکنا مک ڈپلو میسی کے قائل ہیں۔جب تک پاکستان اقتصا دی طور پر ترقی نہیں کر تا جہا لت اور پسماندگی پر قابو پانے کا خواب ادھورا رہے گا اور دہشت گردوں کی کھیپیں تیا ر ہو تی رہیں گی۔ سیا سی اور سٹر یٹجک معاملا ت پر اختلاف رائے کے با وجو د پاکستان اور بھا رت کے درمیان بہتر اقتصا دی اور تجا رتی تعلقات میں ہی بر صغیر کی دو ایٹمی قوتوں کے عوام کا بھلا ہے۔ اس مقصد کے حصول کے لیے جہاں دنیا بدل چکی ہے ہمیں بھی بدلنا ہو گا ۔پاکستان تو اس حد تک بدل چکا ہے کہ جماعت اسلامی اور حافظ سعید کے سوا تمام سیاسی جما عتوں نے پاک بھا رت تعلقات کی نئی شروعات کا خیر مقدم کیا ہے تاہم بھارت میں اپوزیشن کا نگریس اور خود بھارتیہ جنتاپارٹی کے رہنما خوب ہاہاکار مچا رہے ہیں ۔