عرب و عجم میں لڑائی عروج پر پہنچ چکی ہے جس نے اب ہمارے دروازے پر بھی دستک دینا شروع کر دی ہے ۔ اسلام آباد میں مقیم عرب سفیروں نے راتوں رات عرب ایمبیسڈرز کونسل کے نام سے ایک تنظیم بنا لی ہے جس نے یہ الزام داغ دیا ہے کہ پاکستانی میڈیا سعودی عرب کے بارے میں ڈس انفارمیشن پھیلا رہا ہے۔ مقام شکر ہے کہ ان عرب ممالک کے برعکس پاکستانی میڈیا آزاد ہے،دوسری طرف ملک بھر میں ایران کے حق میں مظاہرے شروع کر دیئے گئے ہیں جن میں عورتیں اور بچے بھی شامل ہیں۔ الشیخ باقرالنمرسمیت47افرادکے سر قلم کرنے کے واقعہ نے سعودی عرب اور ایران کے پہلے سے کشیدہ تعلقات کو اس نہج پر پہنچا دیا ہے کہ دونوں ملکوں کے سفارتی تعلقات ہی ختم ہو گئے ہیں اور ''پراکسی وار‘‘ براہ راست محاذ آرائی میں تبدیل ہو چکی ہے ۔الشیخ باقر النمرخاصے عرصے سے سعودی عرب میں آباد پندرہ فیصد شیعہ اقلیت کے حقوق کی بات کر رہے تھے۔ ان کا القاعدہ یا کسی اور دہشت پسند تنظیم سے کوئی تعلق نہ تھا۔ اس حوالے سے سعودیہ کے مشرقی صوبے میں کئی دہائیوں سے شورش بپا تھی۔ 2012ء میں ''عرب سپرنگ‘‘ سے خائف سعودی حکومت نے انہیں اس الزام میں گرفتار کر لیا تھا کہ وہ قومی سلامتی کیلئے خطرہ ہیں۔ آخرکار ان کی اس وقت کی گرفتاری اب سزائے موت پر منتج ہوئی ہے۔ وکی لیکس کے مطابق 2008ء میں شیخ نمر نے امریکی سفارتکاروں سے ملاقات میں خود کو ایران نواز اور اینٹی امریکہ لابیوں سے دور رکھتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ ان کا جھگڑا محض رجعت پسند اور آمرانہ سعودی بادشاہت سے ہے۔سوال یہ ہے کہ اس مرحلے پر سعودی عرب کو‘ جو 34ملکوں پر مشتمل اسلامی فو جی اتحادکی داغ بیل ڈا ل چکا ہے جس سے شیعہ یا شیعہ اکثر یتی ممالک ایران، عراق اور شام کو باہر رکھا گیا ہے، اسے یہ پنگا لینے کی کیا ضرورت تھی ۔
اس وقت سعودی عرب کی معیشت تیل کی قیمتوں میں کمی کے با عث بحرانی کیفیت کا شکار ہے اور وہ اپنے شہریوں کو تیل پر دی جانے والی سبسڈی بھی کم کر رہا ہے، لیکن سعودی بادشاہت اپنے ملک میں شورش کے امکانات سے اتنی خائف ہے کہ کسی قسم کی اپوزیشن کو برداشت ہی نہیں کرتی۔ الشیخ باقرالنمرپرالزام تھا کہ وہ بحرین اور سعودی عرب میں شیعوں کو اکسا رہے تھے اگریہ سچ ہے تو بھی یہ اتنا بڑا جرم نہیں ہے کہ انہیںموت کے گھاٹ اتاردیا جاتا۔ اگر کسی سعودی عدالت نے انہیں سزائے موت سنائی بھی تھی تو شاہ سلمان بن عبدالعزیز اسے معا فی تلافی یا عمر قید میں بدل سکتے تھے لیکن سعودی فرما نروا نے اپنے برخوردار شہزادہ محمد بن سلمان کو‘ جو سعودی عرب کے وزیر دفاع بھی ہیں ‘ یمن بحران کے حوالے سے اتنا بااختیار بنا دیا ہے کہ وہ سیاہ و سفید کے مالک بن بیٹھے ہیں۔
یمن اور شام میں خا نہ جنگی کے اثرات نے پورے مشرق وسطیٰ بلکہ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگا کہ پورے عالم اسلام کو لپیٹ میں لے لیا ہے۔ دوسری طرف ایران بھی نچلا بیٹھنے والا نہیں ہے،البتہ ایرانی صدر حسن روحانی نے تہران میں سعودی سفارت خانے پر حملے اور اسے نذر آتش کرنے کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے میں تحمل سے کام لینا چا ہیے، لیکن ایران مشرق وسطیٰ میں بھرپور راکسی جنگ لڑ رہا ہے۔ شام میں وہ 'داعش‘ کے خلاف صدر بشارالاسد کی حکومت کی ایران نواز حزب اللہ کے ذریعے اور براہ راست دفاعی سامان اور مشیروں کی مدد سے حما یت کر رہا ہے۔ اسی طرح عراق کی شیعہ اکثر یتی حکومت کی پشت پناہی بھی تہران سے ہو رہی ہے اور وہاں امریکہ اور ایران قریبا ًایک ہی صفحے پر ہیں۔ لبنان میں حزب اللہ کے ذریعے ایران پوری طرح فعال ہے اور یمن میں خوثی قبائل کی دامے درمے سخنے تہران مد دکر رہا ہے۔ مقا م شکر ہے کہ اس نازک مرحلے پر سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل بن احمد الجبیرنے ‘جو اس سارے قضیے میں براہ راست فریق بنے ہوئے ہیں، چند روز کے لیے اپنا دورہ اسلام آباد ملتوی کر دیا ہے۔ وزیر موصوف جب واشنگٹن میں سعودی عرب کے سفیر تھے تو ایرانی حکومت کی پشت پناہی سے ان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا تھا۔ سعودی وزیر خارجہ سعودی عرب کی قیادت میں بننے والے 34 ملکی اسلامی فو جی اتحا د کے بارے میں پاکستانی لیڈر شپ کو اعتماد میں لینے کے لیے آ رہے تھے۔
پاکستان نے پہلے تو دہشت گردی کے خلا ف اس نام نہاد اتحاد میں شامل ہو نے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا تھا لیکن بعد ازاں وزارت خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل اللہ نے بتایا کہ ہم اس اتحاد میں شامل ہیں۔ وزیر اعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتا ج عزیز نے چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے استفسار پر بتایا کہ ہم یہ معلوم کر رہے ہیں کہ اس اتحا د کی تفصیلات کیا ہیں، گویا کہ اسلام آباد کی منظوری حا صل کیے بغیر ہی پاکستان کو اس اتحاد میں شامل کر لیا گیا تھا۔گزشتہ روز سرتاج عزیز نے قومی اسمبلی میں پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے تعلقات میں کشیدگی پر تشویش ہے، موجودہ صورتحال مسلم امہ کے لئے خطرناک ہے، پاکستان کشیدگی ختم کرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے کو تیار ہے، موجودہ صورتحال سے دہشت گرد قوتیں فائدہ اٹھا سکتی ہیں۔
خطے کی بدلتی بگڑتی اس نئی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کو قطعاً اس لڑائی میں فریق نہیں بننا چاہیے۔ اس بیگانی لڑائی میں ہمیں ہرگز دیوانہ نہیں ہونا چاہیے۔بہتر ہے کہ ہم اس قضیے سے دور ہی رہیں کیو نکہ پاکستان میں ایران کے حامی شیعہ حضرات کی اچھی خا صی تعداد آباد ہے۔ ایران ہمارا برادر ہمسا یہ ملک ہے اور سعودی عرب ہمارا قریب ترین دوست ہے۔ یہ بھی درست ہے کہ اس وقت ترکی سعودی عرب کی پشت پر کھڑا ہے اور حال ہی میں طیب اردوان کا سعودی عرب میں پرتپاک استقبال بھی کیا گیا ہے۔ ترکی سے ہمارے برادرانہ تعلقات اپنی جگہ لیکن ہمیں انقرہ کی طرح خو د کو اس معاملے میں نہیں پھنسا نا چاہیے اور بصد احترام اپنے دوستوں سے یہ کہنا چا ہیے کہ ہم ثالثی کا رول ادا کر سکتے ہیں لیکن فریق بننا ہمارے قومی مفا د میں نہیں ہے۔ بطور ایک غیر عرب اسلامی ملک جس کی ایران سے ہمسا ئیگی ہونے کے ساتھ ساتھ برادرانہ تعلقات بھی ہیں اور سعودی عرب کے ‘جو پاکستان کا خیر خواہ اور دوست بھی ہے، درمیان مصالحت کا رول پاکستان بخو بی ادا کر سکتا ہے اور یہ اسی صورت ممکن ہے کہ وہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تنازعات میں فریق نہ بنے۔
آہستہ آ ہستہ ہمارے حکمران یہ ماننا شروع ہو گئے ہیں کہ پاکستان میں داعش کا وجود ہے اور سیا لکو ٹ میں ان کا سیل بھی پکڑا گیا ہے اور کئی افراد گرفتار بھی ہو ئے ہیں اور اسی طرح کرا چی میں بھی ان کے اثرا ت ملے ہیں۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے تو یہ برملا انکشاف کر دیا ہے کہ پاکستان میں داعش کے ارکان موجو دہیں لیکن ان کی تعداد ایک سو سے زیادہ نہیں ہے۔ رانا ثناء اللہ کی جمع تفریق سے ہٹ کر یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ داعش کے پاکستان میں سر اٹھانے کے خطرات موجود ہیں اس لئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے کے بجائے پاکستان کو اپنے اندرونی معاملات درست کرنے چاہئیں تاکہ یہاں دہشت گردکھل کھیل نہ سکیں۔
ادھر بھارتی میڈیا پٹھان کوٹ ایئر بیس پر حملے کے قلابے جیش محمدکے ذریعے پاکستان سے ملا رہا ہے اور مبینہ طور پر مقبوضہ کشمیر میں سرگرم متحدہ جہاد کونسل نے حملے کی ذمہ داری قبول کرلی ہے، اس تناظر میں اندرون ملک ہر قسم کی دہشت گردی کا قلع قمع کرنا ہماری اولین ترجیح ہو نی چاہیے، ویسے بھی آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کہا ہے کہ 2016ء وطن عزیز کو دہشت گردی سے پاک کرنے کا سال ہے۔ اس مرحلے پر اسلامی کانفرنس کا انعقاد بھی ضروری ہو گیا ہے تاکہ اسلامی ملکوں کے درمیان اختلافات کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جا سکے۔ یہ ہنگا می اجلاس وزارئے خارجہ اورسربراہوں کی سطح پر ہونا چاہیے۔ اس ضمن میں پاکستان ایک بھرپور رول ادا سکتا ہے۔ بد قسمتی سے میاں نواز شریف نے وزارت خا رجہ کا قلمدان اپنے پاس ہی رکھا ہوا ہے، انہیں چاہیے کہ کل وقتی وزیر خا رجہ بنا کر اختیارات اُنہیں سونپیں تاکہ وہ اس بحرانی کیفیت میں کوئی بارآور کردار ادا کر سکیں۔