"ANC" (space) message & send to 7575

ہم دیکھیں گے

ماہ رواں کے دوران تواتر سے ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوںبالخصوص باچا خان یونیورسٹی پر سفاکانہ حملے کی روشنی میں یہ دعویٰ کہ ہم نے دہشت گردوں کی کمر توڑ دی ہے اور 2016 ء میں وطن عزیز کو ان کے وجودسے پاک کر دیا جائے گا محض ایک سراب لگتا ہے۔ ڈی جی، آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل عاصم سلیم باجوہ کا کہنا ہے کہ چار سدہ میں جامعہ پر حملہ آور دہشت گردوں کا تعلق تحریک طالبان سے ہے اور وہ افغانستان میں اپنی کمین گاہوں سے یہاں پہنچے تھے اور اس حملے کو افغانستان سے ہی ایک مقام سے آپریٹ کیا گیا تھا۔ اس سفاکانہ حملے کے سہولت کاروں کو میڈیا کے سامنے بھی پیش کر دیا گیا ہے اور جنرل عاصم سلیم باجوہ نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ اب جس انداز سے دہشتگردوں سے نبٹا جائے گا ، دنیا دیکھے گی۔ دیر آید درست آید، خُدا کرے ایسا ہی ہو۔
چار سدہ حملے کے فوری بعد پاک فوج کے سربراہ جنرل راحیل شریف نے افغان صدر اشرف غنی، چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ اور اتحادی فوج کے کمانڈرجنرل کیمبل سے ٹیلی فون پر اس مطالبے کے ساتھ احتجاج کیا کہ ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کے لیے تعاون کریں ۔ اگرچہ سرکاری طور پر اس واقعے کے حوالے سے بھارت اور اس کی ایجنسیوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا گیا لیکن میڈیا میں مسلسل اس کی باز گشت سنائی دے رہی ہے۔ بدقسمتی سے خطے میں تین ہمسایہ ملکوں افغانستان، پاکستان اور بھارت میں یہ وتیرہ بن گیا ہے کہ دہشت گردی کے معاملے میں الزام ایک دوسرے کے سر تھونپ دیا جائے کیونکہ ایسا کر کے ان ممالک کے سکیورٹی آپریٹس کو اپنی کمزوریوں پر پردہ ڈالنے کا موقع مل جاتا ہے۔ کہا جا رہا ہے کہ بھارت نے پٹھانکوٹ میں اپنی ہزیمت کا بدلہ لینے کے لیے چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملہ کرایا ہے جبکہ دوسری طرف پاکستان، افغانستان میں پناہ لینے والے طالبان کو اس کا ذمہ دار قرار دے رہا ہے۔ لیکن ہمارے ان تجزیہ کاروں جنہیں پاکستان کے خلاف ہر سازش میں''را‘‘ کا ہاتھ نظر آتا ہے کا کہنا ہے کہ یہ طالبان گروپ بھارت سے ہی مال اینٹھ کر ایسی وارداتیں کرتا ہے۔ اس ضمن میں اگر ہمارے پاس کوئی مواد موجود ہے تو اسے منظر عام پر لانا چاہیے اور قابل عمل انٹیلی جنس پر مبنی ثبوت بھارت کو فراہم کرنے چاہئیں، بالکل اُسی طرح جیسا کہ بھارت نے پٹھانکوٹ کے واقعہ کے حوالے سے پاکستان کو معلومات فراہم کی ہیں، جن کی بنا پر جیش محمد کے سربراہ مولانا مسعود اظہر اور دیگر افراد کو حراست میں لینے کے علاوہ اس کا لعدم تنظیم کے دفاتر بند کیے گئے ہیں۔
پاکستان نے گزشتہ برس اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بانکی مون اور امریکی وزیرخارجہ جان کیری کو''را‘‘ کے پاکستان میں دہشتگردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے حوالے سے دستاویزات پیش کی تھیں لیکن کئی ماہ گزرنے کے باوجود یہ ثبوت صیغہ راز میں ہی ہیں۔ نہ تو حکومت پاکستان نے اس معاملے کو دوبارہ اٹھایا ہے اور نہ ہی ان شخصیات یا اداروں نے ۔لگتا ہے کہ بانکی مون او رجان کیری نے انھیں پڑھے بغیرہی ردی کی ٹوکری میں پھینک دیا ہے یا ان شواہد کوکوئی اہمیت ہی نہیں دی۔ حیران کن بات یہ ہے کہ وزیراعظم میاں نواز شریف گزشتہ ماہ کے اواخر میں جب نریندرمودی کے ساتھ رائے ونڈ میں جپھیاں ڈال رہے تھے تو انھیں اس انتہا پسند بھارتی وزیراعظم سے کہنا چاہیے تھا کہ'' مہاراج صلح جوئی، اقتصادی تعاون اور کھلی تجارت اپنی جگہ لیکن پہلے پاکستان میں ہونے والی یہ خفیہ پنگے بازی تو بند کریں ‘‘لیکن میاں صاحب نے ایسا نہیں کیا ۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ ہم صرف میڈیا کی بیان بازی کی حد تک بھارت کے ملوث ہونے کی بات کرتے ہیں ، بعداز خرابی بسیار آئی ایس پی آر کی طرف سے یہ کہہ کر کہ انٹیلی جنس اداروں کو دہشت گردوں کے بارے میں ٹھوس ثبوت مل چکے ہیںاور ساری سازش کے تانے بانے افغانستان میں مقیم ملا فضل اللہ کی کمین گاہ سے ملتے ہیں، شہیدوں کے لواحقین کے زخموں پر مرہم نہیں رکھی جاسکتی۔ ہر واردات کے بعد یہی کہا جاتا ہے کہ ہم نے دہشت گردوں کا سراغ لگا لیا ہے لیکن اس بات کا جواب کوئی نہیں دیتا کہ کیا ا یسی سفاکانہ کارروائیوں سے قبل ہمارے انٹیلی جنس ادارے خواب خرگوش کے مزے لے رہے ہوتے ہیں؟
وزارت داخلہ کا کہنا ہے کہ چند ہفتے پہلے ہی خیبر پختونخوا کی حکومت کو تعلیمی اداروں میں دہشتگردی کے خطرات سے تحریری طور پر مطلع کر دیا گیا تھا، توکیا وزارت داخلہ محض میمو بھیجنے کے بعد سکیورٹی کے حوالے سے اپنے فرائض کے معاملے میں سرخرو ہوجاتی ہے؟ ابھی تک یہ حقائق سامنے نہیں آسکے کہ باچا خان یونیورسٹی جہاں خان عبدالغفار کی برسی کے موقع پر مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا تھا، وہاں کیا سکیورٹی انتظامات کیے گئے تھے ؟ لگتا ہے کہ اس سلسلے میں کچھ بھی نہیں کیا گیا اور یونیورسٹی کی اپنی سکیورٹی کے سوا کوئی سکیورٹی فراہم نہیں کی گئی، اس مجرمانہ غفلت کا ذمہ دار کون ہے؟ تحریک طالبان پاکستان جس کے کمانڈر خلیفہ عمر منصورہیں نے اپنی ایک حالیہ ویڈیو میں کہا ہے کہ انھوں نے باچاخان یونیورسٹی اور اس سے پہلے آرمی پبلک سکول پر حملہ اس لیے کیا کہ ایسے اداروں سے وکیل ، فوجی افسر اور ارکان پارلیمنٹ پیدا ہوتے ہیں اور یہ اللہ کی حاکمیت کو چیلنج کرتے ہیں۔لہٰذا ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم مسلح فوجیوں کے بجائے ان نرسریوں کو نشانہ بنائیں گے جہاں سے ایسے لوگ پیدا ہوتے ہیں۔ گویا کہ وہ کالجوں، سکولوں اور یونیورسٹیوں کو نشانہ بنانے کی دھمکی دے رہے ہیں کیونکہ بقول اُن کے یہ ادارے کافر پیدا کر رہے ہیں۔ اس دھمکی کے بعد دہشت گردوں نے عملی طور پر پاکستانی ریاست اور قوم کے خلاف کھلا اعلان جنگ کر دیا ہے۔ لیکن مقام افسوس ہے کہ ہمارے ریاستی ادارے اب بھی پوری طرح بیدار نظرنہیں آتے ۔یقینا افواج پاکستان نے دہشت گردوں کا مردانہ وار مقابلہ کیا ہے اور اس سلسلے میں فوج کے افسروں اور جوانوں نے اپنی جانیں بھی قربان کی ہیں تاہم اس دہشتگردی کی کمر توڑنے کے لیے ابھی بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ ہمیں اس وقت دہشت گردی کے خلاف ایمرجنسی نافذ کرنے کی ضرورت ہے ۔نیشنل ایکشن پلان کے زیادہ تر نکات پر ابھی پوری طرح عملدرآمد نہیں ہوا۔دہشت گردوں کے خلاف اداروں کی کارکردگی کو مربوط کرنے کے لیے قائم کی گئی نیشنل کائونٹر ٹیررازم اتھارٹی بھی ''ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘کے مترادف ہے،اسے مطلوبہ فنڈز ہی فراہم نہیں کیے گئے۔ جہاں تک میاں نواز شریف کا تعلق ہے وہ قریباً ہر ہفتے پاکستان میں غیر ملکی سرمایہ کاری لانے اور اقتصادی تعاون کے حوالے سے بیرون ملک خاک چھانتے رہتے ہیں۔ سانحہ باچاخان یونیورسٹی کے روز بھی وہ تہران اور ریاض کے درمیان ثالثی کے ناکام مشن کے بعد ڈیووس روانہ ہوچکے تھے ۔ پی ٹی آئی کے سربراہ عمران خان کا کہناہے کہ وزیراعظم کو دورہ مختصر کر کے واپس آنا چاہیے تھا لیکن وہ ڈیووس کے یخ بستہ ماحول میںسوئس اور بین الاقوامی سرمایہ کاروں کو دعوت دے رہے تھے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کا بہترین موقع ہے اور ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں جہاں غیر ملکی سرمایہ کار محفوظ ہوں۔ ایسے ماحول میں میاں صاحب کے فرمودات کو بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہی تصور کیا جائے گا۔بیرونی دوروں اوربالخصوص لندن کے ہر مہینے سیرسپاٹے اور مغرب کے دل آویز ماحول میں محض ''ستاں خیراں ‘‘کی نوید سنانے سے نہ تو دہشت گردی کا مسئلہ حل ہوسکے گا اور نہ ہی پاکستان میں کوئی سرمایہ کاری کرنے کو تیار ہوگا۔
ایک اطلاع کے مطابق پاکستان نے امریکہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ملا فضل اللہ اور اس کے ساتھی دہشت گردوں کو ختم کرنے کے لیے ڈرون حملہ کریں۔ یقین نہیں آتا کہ یہ بات درست ہے لیکن اگر ایسا ہے تو پاکستان جس کی دنیا کی 8 ویں بڑی فوج ہے اور ایٹمی طاقت سے مالا مال ہے ،دہشت گردوں کے ہاتھوں اتنا ہی بے بس ہو چکا ہے کہ وہ امریکہ کی منت سماجت پر مجبور ہوگیا ہے۔ان دنوں ہمارے وزیرداخلہ چوہدری نثار علی خان منظر سے غائب ہیں۔ باخبر لوگوں کا کہنا ہے کہ یہ '' ملکہ جذبات‘‘' آج کل پھر میاں نواز شریف سے روٹھے ہوئے ہیں۔ لیکن ان کے قریبی حلقوں نے دعویٰ کیا ہے کہ چوہدری صاحب بستر علالت سے بھی وزارت داخلہ کی بھرپور نگرانی کر رہے ہیں۔یہ کیا طرفہ تماشا ہے کہ ایسے نازک مرحلے پر ہمارے انتہائی قابل وزیر داخلہ جو وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے یار غار ہیں، کوئی پالیسی بیان دینے سے بھی قاصر ہیں۔ اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اگر کسی بنا پر وہ روٹھے ہوئے ہیں یا ان کی طبیعت ناساز ہے تو انھیں چھٹی پر بھیج دینا چاہیے کیونکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سویلین حوالے سے وزیر داخلہ کا بہت اہم رول ہوتا ہے۔ اگر حکومت دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے بارے میں سنجیدہ ہے تو چوہدری نثار کو ایوان میں آکر اس الزام کا تسلی بخش جواب دینا چاہیے کہ لال مسجد کے مولانا عبدالعزیز کے داعش سے رابطوں اور کھلے تال میل کے باوجود حکومت موصوف کے خلاف کارروائی کیوں نہیں کر رہی اورطویل عرصہ قبل کالعدم قرارد ی گئی تنظیموں کی سرگرمیوں پر ریاستی اداروں نے آنکھیں کیوں بند کر رکھی ہیں؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں