چند روز قبل امر یکہ میں پاکستان کے سابق سفیر جمشید مارکر کی یاد داشتوں پر مبنی کتاب پڑھنے کاموقع ملا ۔جمشید مارکر پاکستان کے پہلے وزیر اعظم نواب لیا قت علی خان کے قر یبی دوست تھے اور ان کی اکثر شامیں نواب لیا قت علی خان اور ان کی اہلیہ محتر مہ رعنا لیا قت کے ہاں گزرتی تھیں ۔وہ لکھتے ہیں ‘لیا قت علی خان کی کرنال بھا رت میں بڑی جا گیریں تھیں جنہیں وہ پاکستان ہجرت کرتے وقت چھوڑ آ ئے تھے۔ایک بار میں ان کے گھر مد عو تھالیکن نواب صاحب خلاف معمول
کا فی تا خیر سے دفتر سے گھر پہنچے اور ان کا موڈ بھی سخت خراب تھا ۔ میں نے وجہ پو چھی تو کہنے لگے آ ج میرے سیکرٹری نے میر ے سامنے ایک فا ئل منظوری کے لیے پیش کی جو بھا رت میں میری چھوڑی گئی جا گیروں کے عوض پاکستان میں قیمتی
جا ئید ادوں کی الا ٹمنٹ کے کلیموں سے متعلق تھی ‘جسے دیکھ کر مجھے طیش آ گیا اور میں نے وہ فا ئل سیکر ٹری کے منہ پر دے ماری اور کہا : ''آ ؤ میرے ساتھ کرا چی کی ان آ با دیوں کو دیکھو جہاں پاکستان کے لیے اپنا سب کچھ چھوڑ چھا ڑ کر ہجرت کرنے والے کھلے آسمان تلے کسمپرسی کی زند گی گزاررہے ہیں ‘‘۔جمشید مارکر لکھتے ہیں کہ لیا قت علی خان کی شہا دت کے بعد میں نے ان کے قریبی دوست کے طورپر جب ان کے مالی معاملات کا جا ئز ہ لیا تو متحدہ پاکستان کے وزیر اعظم اور خاند انی نو اب کے بنک اکا ؤنٹ میں صرف 47ہزار روپے تھے جبکہ الما ری سگریٹ جلانے والے لا ئیٹروں سے بھر ی پڑ ی تھی جنہیں جمع کرنا ان کا مشغلہ تھا ۔ لیاقت علی خا ن کی سیا ست سے تو اختلا ف ہو سکتا ہے لیکن ان کی دیا نتداری مسلمہ تھی۔پاکستان بنانے والی شخصیا ت کے صاف ستھرے کرداراور یہاں ہر دور میں حکمرانی کرنے والوں کے معاملات دیکھ کر ہر محب وطن سوچتا ہے کہ ہم کہاں سے چلے اور کہاں پہنچ گئے ہیں۔
حال ہی میں ''نیب ‘‘کی کارروائیوں پر حکمرانوں کے رد عمل سے لگتا ہے کہ میاں برادران نے نیب کے خلا ف اعلان جنگ کر دیا ہے۔سوال یہ پید اہو تاہے کہ وہ کو نسی چیز ہے جس کی بناپر وزیر اعظم میاں نواز شریف اور برادر خو رد وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے صبر کا پیما نہ لبریز ہو گیا ہے ۔میاں صاحب تو گز شتہ دنوں بہا ولپو ر میں مسلم لیگی کا رکنوں سے گفتگو کے دوران نیب پر خوب بر سے ،جبکہ میاں شہباز شریف نے دنیا نیو ز کے ساتھ انٹرویو میں قومی احتساب بیو رو کے لتیّ لیے ۔شہباز شریف کا کہنا ہے کہ نیب اہلکا ر اہم منصوبو ں پر جا کر پو چھ گچھ شروع کر دیں گے تو کام کو ن کرے گا؟ انہو ں نے مشورہ دیا کہ نیب خو د کواپنے مقاصد تک محدود رکھے ۔وزیر اعلیٰ نے یہ بلند بانگ دعویٰ بھی کر ڈالا کہ ہما ری حکومت میں کوئی کرپٹ ہو ہی نہیں سکتا ۔اگر ایسا ہی ہے تو نیب کیو نکر ان کی کا بینہ کے رکن رانا مشہو د اور ڈی جی سپو رٹس عثمان انو ر کے گردگھیرا تنگ کر رہاہے ۔ چاہیے تو یہ ہے کہ شہباز شریف انھیں ذمہ داریوں سے سبکد وش کر کے اپنا دامن صاف ثابت کرنے کا موقع دیں ۔ با خبر لو گوں کا کہنا ہے کہ نیب نے اورنج لائن کے ٹھیکیدار عامر لطیف کوپرانے کیسوں میں دھر لیا ہے ۔اسی طرح رائے ونڈ روڈکی تعمیر کے حوالے سے ریفرنس کو بھی طا ق نسیان سے نکال کر ایکٹو کر دیا گیا ہے۔ایک لحا ظ سے دیکھا جا ئے تو میاں صاحبان کو نیب کی مشکیں کسنے کے بجا ئے اس کی کارروائیوں کا خیر مقدم کرنا چاہیے کیو نکہ پاکستان کی تا ریک سیاسی تا ریخ میں شاید ہی کو ئی ایسا مو قع آیا ہو ،جب عدلیہ سمیت کسی بھی ادارے کو حکمرانوں پر ہا تھ ڈالنا تو کجا اس ضمن میں بات کرنے کی بھی تو فیق ہو ئی ہو ۔بڑے میاں صاحب تو یہ کر یڈٹ بھی لے سکتے ہیں کہ میرے دور میں عدلیہ،میڈیا اور نیب آ زاد ہیں۔میرا دامن صاف ہے ۔ لہٰذا ہر قسم کے احتساب کے لیے تیا ر ہوں ۔نا قدین تو کہتے ہیں کہ گز شتہ 6ما ہ کے دوران جس طرح ڈاکٹر عاصم حسین کو نیب ،ایف آئی اے نے گھسیٹا اس پر تو مسلم لیگ(ن) نے ایک مذمتی فقرہ تک نہیں کہا بلکہ اسی معاملے کی وجہ سے پیپلز پارٹی اور مسلم (ن) کے درمیان بقائے باہمی کی فضا بھی مکدر ہو گئی ہے۔
میاں صاحب کے گزشتہ دور حکومت میں جب سیف الر حمن کی زیر کمان احتساب بیو رومن ما نیاں کرتے ہو ئے بے نظیر بھٹو سمیت اپوزیشن کے اکثر رہنما ؤں کومطعون کر رہا تھا تو اس وقت بھی کسی کاماتھا نہیں ٹھنکا تھا ۔مجھے یا د ہے ‘اس وقت میاں صاحب کے با اعتما د ساتھی اور وزیر داخلہ چو ہدری شجا عت حسین نے اپنی سیاسی بصیرت سے کام لیتے ہو ئے مجھ سے کہا تھا کہ بے نظیر بھٹو کے خلا ف ایسے ریفرنس بنا کر میاں صاحب کو ئی اچھی روایت قائم نہیں کر رہے ۔ایک نہ ایک دن انھیںبھی ایسی صورتحال کاسامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے گز شتہ دور اقتدار میں بھی چیف جسٹس افتخا رمحمد چودھری کی سربرا ہی میں سپریم کورٹ نے پیپلز پارٹی کی حکومت کے ناک میں دم کر رکھا تھا۔اس وقت مسلم لیگ(ن)بطور اپوزیشن اس پر خوشی کے شادیا نے بجا تی تھی۔ یو سف رضا گیلا نی کو جب وزیر اعظم ہا ؤس سے رخصت ہو ناپڑا تو وہ میاں صاحب کے رو یے پر سخت شاکی تھے ۔ان کا کہنا تھا کہ انھوں نے بطور وزیر اعظم ہر مر حلے پر میاں نواز شریف کے ساتھ بقا ئے با ہمی کی پالیسی اپنائے رکھی لیکن انھوں نے ان کی چھٹی کرانے میں کو ئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا ۔ میمو گیٹ کی سماعت کے موقع پر تو میاں نواز شریف وکیل کی وردی پہن کر خو د سپر یم کو رٹ پہنچ گئے تھے۔
اس ساری صورتحال کا مطلب یہ بھی نہیں کہ نیب شتر بے مہا ربن جائے اور ایسی کا رروائیوں پر اتر آ ئے کہ سرما یہ کا ر پاکستان میں سرما یہ کاری کرنے سے خو ف کھا ئیں ۔ اس وقت نیب نے سیاستدانوں کے علاوہ حسین داؤد ،میاں محمد منشا اور گو ہر اعجاز سمیت پاکستان کے ممتاز صنعت کاروں کے خلا ف دفتر کھول رکھا ہے۔بے جا نو ٹسز،طلبیوں سے ان صنعت کاروں کو ہرا ساں کر نے کا سلسلہ جاری ہے ۔نیب نے ہر ڈیل کے حوالے سے گوشوارے بنارکھے ہیں جن میں سرما یہ
کا ری ایک حد سے زائد نظر آ ئے تو نیب اہلکا ر پوری چھان پھٹک کے مجاز ہو تے ہیں ۔ میاں صاحبان یہ درست کہتے ہیں کہ اس ما حول میں سرما یہ کا ری کو ن کرے گا ؛تا ہم اگر انھوں نے احتسابی عمل کو شفاف بنانا ہے تو انھیں میٹھا میٹھا ہپ اور کڑوا کڑوا تھو کی پالیسی تر ک کرنا ہوگی۔ ادھر حکومت نے ا س بات کی تردید کرد ی ہے کہ نیب کی نگرانی کے لیے سپریم کو رٹ کے ریٹا ئرڈجج کی سربرا ہی میںکوئی کمشن تشکیل دیا جا رہا ہے۔ میثا ق جمہوریت میں بھی ایک غیر جانبدار احتسا بی ادارہ بنا نے پر اتفاق کیا گیا تھا اور یہ اسی صورت ممکن ہے، جب میاں صاحب اپنی مو نچھ تھو ڑی نیچی کرکے اپوزیشن سے بات چیت کریں کیونکہ اس حوالے سے قانون سازی کے لیے ان کے پاس سینٹ میں مطلو بہ اکثر یت مو جو د نہیں ہے۔
عمران خان بھی بھولے بادشاہ ہیں ،مالدیپ کے صاف شفاف سمندر میں گھری ہو ئی تفریحی ریزارٹ میں اپنے بچوں کے ساتھ چھٹی گزارنے کے بعد وطن واپس پہنچتے ہی انھوں نے وارننگ دی ہے کہ نیب کے پر کا ٹنے کی بھرپور مزاحمت کریںگے۔اصولی طور پر ان کا مو قف درست ہے تا ہم خیرات گھر سے شروع ہو تی ہے ‘انھیں بھی چاہیے کہ خیبر پختونخوامیں اپنے وضع کردہ احتسابی ادارے کے اختیارات محدود کرنے کے بجا ئے ان کوبڑ ھا ئیں اور اس حوالے سے اپنے ہی تعینات کیے ہو ئے نیب کے سربراہ جنرل حامد جو بطور احتجاج مستعفی ہو گئے ہیں ‘انھیں واپس لا ئیں۔
بعض تجزیہ نگا ر یہ چہ مگو ئیاں کر رہے ہیں کہ نیب نے یہ کام از خو د شروع نہیں کیا بلکہ اس کے پیچھے کو ئی خفیہ ہا تھ ہے،ورنہ نیب میں اتنی جرأت کہاں کہ اس کا ہا تھ شریف برادران کے گریبان تک پہنچ جائے۔مجھے ان تجزیہ نگا روں سے اتفاق نہیں اور ہاں ‘اگر اس میں تھوڑی سی بھی سچا ئی ہے تو یہ ہما ری بہت بڑ ی بد قسمتی ہو گی‘کہ ہم نے ما ضی سے کو ئی سبق نہیں سیکھا اور یہ تا ثر کہ سیا ستدان،صنعت کا ر اوربز نس مین سب چور ہیں ،جمہو ریت کے لیے کو ئی اچھا سرٹیفکیٹ نہیں ہے۔ ماضی میں طالع آزماؤں نے پہلے احتساب کا نعرہ لگایا پھر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کے لیے ہر قسم کی کرپشن کو روارکھنے میں کو ئی عار نہیں سمجھی۔اس طرح وہ لو گ جن کا کبھی احتساب نہیں ہوا،سیا ستدانوں کو ڈس کریڈٹ کر نے میں کا میا ب ہو جاتے ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ احتساب کا ایسا ادارہ قائم کیا جا ئے جو نہ تو سیف الر حمن برانڈ ہو اور نہ ہی پرویزمشرف کے قائم کردہ نیب جیسا مک مکا برانڈ کا ہو ۔ احتساب کے لیے ایک ایسے آزاد ادارے کی ضرورت ہے جو آزاد نہ کام کرے اور ایسا احتساب کرے کہ احتساب ہو تا ہوا نظر آ ئے ۔فی الحال ایسا ہو تا نظرنہیں آ تا کیو نکہ حکمرانوںکوخو د کو بھی احتساب کے لیے پیش کرنا پڑے گا اور اپنے اندر برداشت کا ما دہ پیداکرنا ہو گا ۔