لوٹ کر بدھو گھر کو آئے۔ پاکستان کی''مایہ ناز‘‘ کرکٹ ٹیم شکست کا داغ دامن پر سجا کر وطن واپس پہنچ چکی ہے۔ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ میں اس طرح رسوا ہو کر واپس آنا کرکٹ کے شائقین کے لیے حیران کن نہیں تھا کیونکہ کافی عرصے سے پاکستانی ٹیم کا آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے، لیکن سونے پہ سہاگہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مقرر کردہ مینجمنٹ ٹیم ہے کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سربراہ، چیف ایگزیکٹو کے انتخاب سے لے کر نئے آئین کی تشکیل تک تمام معاملات میاں صاحب کی منظوری سے ہی پایہ تکمیل کو پہنچتے ہیں۔ میاں نواز شریف‘ جو بزعم خود نہ صرف کرکٹ کے شوقین ہیں بلکہ کرکٹر بھی ہیں، وزیر اعظم بننے کے بعد اوّلین فرصت میں ہی صدر مملکت کی جگہ خود کرکٹ بورڈ کے سرپرست اعلیٰ بن بیٹھے تھے۔ بورڈ کے مقررکردہ منیجر، کوچ اور سلیکٹر سبھی پاکستانی کرکٹ کو اس حال تک پہنچانے کے ذمہ دار ہیں اور یہ کہنا کہ شہریار خان کی سربراہی اور نجم سیٹھی کی چیف ایگزیکٹو شپ میں کرکٹ کا بیڑہ غرق ہو گیا ہے، قرین انصاف نہیں۔ پاکستانی کرکٹ ٹیم خاصے عرصے سے رجعت قہقہری کا شکار ہے۔ اسے ستم ظریفی ہی سمجھیں کہ پاکستانی کرکٹ نے اپنا عروج 25 مارچ 1992ء کو اس وقت حاصل کیا‘ جب عمران خان کی قیادت میں ٹیم نے پچاس پچاس اوورز کا ون ڈے ورلڈ کپ، آسٹریلیا میں اپنے نام کیا تھا اور ٹھیک 24 برس بعد 2016ء میں 25 مارچ کو ہی ہماری ٹیم ٹی ٹونٹی ورلڈکپ میں آسٹریلیا سے پٹ کر ٹورنامنٹ سے باہر ہو گئی۔ یوں پاکستانی ٹیم دوسری بار ورلڈ ٹی ٹونٹی میں پہلے رائونڈ سے ہی آگے نہ بڑھ سکی۔ ''بڑے بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے‘‘۔
کرکٹ کے اینٹھے خان، ٹی ٹونٹی کے کپتان شاہد آفریدی مسئلے کا حل نہیں بلکہ خود ایک مسئلہ ہیں۔ سوشل میڈیا پر آفریدی کی ''خصوصیات‘‘ کے بارے میں کئی تبصرے گردش کر رہے ہیں۔ ایک تبصرہ نگار کا کہنا ہے کہ ہم سب آفریدی سے محبت کرتے ہیں لیکن اس بے چارے کو ہمیشہ غلط سمجھا گیا۔ پہلے ہم سمجھتے تھے کہ آفریدی ایک آل رائونڈر ہے اور ہر فارمیٹ کی کرکٹ کھیل سکتا ہے، لیکن دس برس گزرنے کے بعد ہمیں یہ احساس ہوا کہ موصوف صرف ون ڈے انٹرنیشنل کرکٹ کے ماہر ہیں۔ اس کے ٹھیک پانچ سال بعد منکشف ہوا کہ وہ صرف ٹی ٹونٹی کرکٹ ہی کھیل سکتے ہیں، لیکن اب ہمیں یہ احساس ہو چکا ہے کہ آفریدی نوجوان کرکٹرز کے لیے اس لحاظ سے رول ماڈل ہے کہ کس طرح کرکٹ نہیں کھیلنی چاہیے۔ 1996ء میں ہم سمجھتے تھے کہ وہ بلے باز ہے جو تھوڑی بہت بولنگ بھی کر لیتا ہے، لیکن 2006ء میں ہمیں احساس ہوا کہ وہ تو ایک بولر ہے‘ جو تھوڑی بہت بیٹنگ بھی کر لیتا ہے، پھر 2013ء میں یہ احساس جاگزیں ہو گیا کہ وہ تھوڑا سا بلے باز ہے اور تھوڑا سا بولر بھی۔
تبصرہ نگار فرماتے ہیں کہ آفریدی ''انتہائی ہونہار‘‘ کرکٹر ہے۔ اس طرح کے بیٹسمینوں میں ون ڈے انٹرنیشنل میں آفریدی کا سٹرائیک ریٹ سب سے اچھا ہے لیکن اس قماش کے بیٹسمین ہیں کون۔ مرلی دھرن، دانش کنیریا، دلیپ جوشی اور عبدالقادر۔ شاہد آفریدی نے ایک نیا ''عالمی ریکارڈ‘‘ بھی قائم کیا جس کے مطابق اس کا شمار ان بیٹسمینوں میں ہوتا ہے جنہوں نے اب تک 350 ون ڈے انٹرنیشنل میچز کھیلے لیکن ان میں آفریدی واحد بلے باز ہے جس نے ان میچز میں سب سے کم بال کھیلے۔ درحقیقت اس نے اتنا سکور نہیں کیا جتنے اس نے ون ڈے میچز کھیلے ہیں، اس کے باوجود آفریدی جب گرائونڈ میں آتا ہے تو سٹیڈیم اس کے پرستاروں کے ''بوم بوم آفریدی‘‘ کے نعروں سے گونج اٹھتا ہے۔ تبصرہ نگار طنزیہ انداز میں کہتا ہے: اکثر اوقات ایک بال کھیلنے کے بعد جب کیمرہ ان پرستاروں کی طرف دوبارہ فوکس ہوتا ہے تو ان کے منہ حیرت سے کھلے اور وہ سر جھکے ہوتے ہیں جبکہ آفریدی صاحب آنکھیں بند کر کے بیٹ گھمانے کے بعد پھر افسردگی کا تاثر دینے کے لیے سر گھماتے خاموشی سے ڈریسنگ روم کی طرف جا رہے ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود ''کرائوڈ‘‘ آفریدی کا مرید ہے لیکن ہر دفعہ آفریدی جسے بطور کپتان خود مثال بننا چاہیے انھیں مایوس کر دیتا ہے۔ سیاست میں تو ہم حکومتوں کو پہلے سو دن ہنی مون پیریڈ دیتے ہیں لیکن سالہا سال تک مایوس کن کارکردگی کے باوجود آفریدی کے بارے میں ہمارا پیمانہ صبر لبریز نہیں ہوتا۔ آفریدی کا تو اب یہ حال ہے کہ اگر مخالف ٹیم کا بولر اسے 3 بال پر آئوٹ کرنے میں کامیاب نہ ہو تو متعلقہ بورڈ اپنے کھلاڑی پر ناقص کارکردگی کا الزام لگا کر اس کے خلاف تحقیقات کا آغازکر دیتا ہے۔
آفریدی ایک مخمصہ ہے۔ بعض لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ ایک سپنر ہے جو بڑی تیز بال کر دیتا ہے جبکہ دوسرا نقطہ نگاہ یہ ہے کہ وہ فاسٹ بولر ہے جو آہستہ آہستہ بولنگ کراتا ہے۔ اس میں آفریدی اکیلے کا کوئی قصور نہیں۔ جیسا آفریدی ہے اسی طرح شاید ہماری قوم کا بھی مزاج بن چکا ہے یعنی جذباتی اور معصوم، جو اپنی غلطیوں سے کوئی سبق سیکھنے کو تیار نہیں۔ ہم ہر بال پر چھکا مارنے کی جہد مسلسل میں رہتے ہیں کہ شاید اس بار کیچ نہیں ہو گا۔ ایک منچلے نے تبصرہ کرتے ہوئے طنز کی ہے کہ کھلاڑیوں کو کون سا موبائل، شیمپو اورکنڈیشنر استعمال کرنا چاہیے آفریدی کو اس کا تو پتا ہے لیکن کرکٹ کا کچھ علم نہیں۔ ٹی ٹونٹی میں ثنا میر کی قیادت میں ہماری خواتین کی ٹیم نے بھارت اور بنگلہ دیش کو ہرا کر ہمارا وقار بلند رکھا ہے۔ خواتین نے مردوں کو شرم دلائی ہے کہ کرکٹ کس انداز سے کھیلنی چاہیے، لیکن ہمارے کئی دیگر کھلاڑیوں کی طرح آفریدی صاحب کے بھی پیٹ میں لمبی داڑھی ہے، وہ فرما چکے ہیں کہ خواتین کا کام چولہا پھونکنا ہے، کرکٹ کھیلنا نہیں۔ سوشل میڈیا پر بھارت سے شکست پر ایک تبصرہ ملاحظہ ہو:
کُج گرائونڈ دی پچ وی گِلی سی
کُج ساڈی ٹیم وی ڈِھلی سی
کُج اپنا ایویں ذوق وی سی
کُج ٹیم دے گل وچ طوق وی سی
کُج انڈین لوگ وی ظالم سن
کُج سانوں مرن دا شوق وی سی
ایک اور چیز قوم کے لیے لمحہ فکریہ ہے کہ موصوف کا اب سٹیٹس کیا ہے۔ پہلے ان کا فرمانا تھا کہ وہ ٹی ٹونٹی ورلڈ کپ کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے لیکن اب آئیں بائیں شائیں کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ وہ بطور کھلاڑی فٹ ہیں، لہٰذا صرف کپتانی سے ریٹائر ہونا چاہتے ہیں۔ یقیناً کرکٹ جوئے کے علاوہ لمبے مال کا کھیل بن چکا ہے۔ پے در پے ناکامیوں کے باوجود بورڈ کے سربراہ کا جانے کو دل کرتا ہے نہ آفریدی صاحب کا۔ شہریار خان صاحب سلیکٹرز اور کھلاڑیوں کو سبق دیتے رہتے ہیں کہ فلاں کو فارغ کر دیا جائے گا، فلاں کے خلاف کارروائی ہو گی‘ لیکن خود سختی کے ساتھ اپنے عہد ے کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں اور جانے کا نام ہی نہیں لیتے۔ انھیں تو فارغ کر کے صرف رننگ کمنٹری کا فریضہ سونپ دینا چاہیے۔ جہاں تک برادر نجم سیٹھی کا تعلق ہے، ان سے یہ پوچھنا چاہیے کہ ان کی چڑیا اب کیا کہتی ہے؟