اپوزیشن چاہتی ہے کہ 'پاناما لیکس‘ میاں برادران کے گلے کا پھندا بن جائے اور ان کے اقتدار کے خاتمے پر منتج ہو، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے دھمکی دے دی ہے کہ اگر چیف جسٹس کی سربراہی میں ان کی مرضی کا کمشن نہ بنا اور شفاف تحقیقات نہ ہوئی تو وہ دھرنا دینے کیلئے ڈی چوک کا نہیں بلکہ رائیونڈ کا رخ کریں گے۔ دوسری طرف اخباری خبروں کے مطابق اپوزیشن کے طوفان بدتمیزی کی روشنی میں سابق چیف جسٹس صاحبان نے کمشن کی سربراہی سے معذرت کر لی ہے۔ پیپلز پارٹی کے رہنما اور اپوزیشن لیڈر سید خورشید شاہ بھی سیخ پا ہیں اور فرماتے ہیں کہ حکومتی کمشن کو کوئی نہیں مانے گا۔ قریباً تین برس پہلے جب سے یہ حکومت بنی ہے‘ پہلی مرتبہ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کم از کم اس مسئلے پر ایک صفحے پر نظر آ رہی ہیں‘ لیکن پھر بھی پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اس حد تک آگے جانے کو تیار نہیں لگتی کہ موجودہ سسٹم ہی تہ و بالا ہو جائے۔ ادھر حکومتی وزرا بالخصوص وزیر اطلاعات پرویز رشید اور رکن قومی اسمبلی دانیال عزیز میاں نواز شریف، ان کے صاحبزادوں حسین نواز، حسن نواز اور صاحبزادی مریم نواز کی مدافعت کرنے میں پیش پیش ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ اس بات کی وضاحت کریں کہ شریف فیملی نے آف شور کمپنیاں کیوں تشکیل دیں اور ان کے ذریعے کی گئی انویسٹمنٹ کیلئے رقم کہاں سے آئی‘ وہ مسلسل عمران خان اور ان کے قائم کردہ ہسپتال کے مالی معاملات کے حوالے سے بے تکی باتیں کر رہے ہیں۔ عمران خان کے طرز سیاست سے ہزار اختلافات کے باوجود ان پر چندہ خوری یا امانت میں خیانت کا الزام کسی نے نہیں لگایا۔ یقیناً شوکت خانم کینسر ہسپتال ان کا بہت بڑا کارنامہ ہے‘ اور اس کار خیر میں میاں نواز شریف نے بھی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب اپنا ڈول ڈالا تھا۔ اگر تحریک انصاف 'پاناما لیکس‘ کو جواز بنا کر چور دروازے سے حکومت کو گرانا چاہتی ہے تو یہ رویہ مناسب نہیں‘ لیکن دوسری طرف حکومتی پارٹی کی بوکھلاہٹ بھی قابل فہم نہیں ہے۔ ایجی ٹیشن تو خان صاحب کا طرز سیاست ہے اور وہ شروع سے ہی پاکستان میں تیسری بڑی سیاسی جماعت ہونے کے باوجود اب بھی اسی راستے پر گامزن ہیں، اس دوران انہیں متعدد ناکامیوں کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ 2013ء کے عام انتخابات میں دھاندلی کا الزام ثابت کرنے کیلئے کمشن کے قیام کی خاطر انہوں نے 126 روزہ دھرنے اور قومی اسمبلی سے استعفے دینے سمیت تمام پاپڑ بیلے لیکن ڈھاک کے وہی تین پات۔ حالیہ ضمنی انتخابات میں بھی جہانگیر ترین کی کامیابی کے سوا انھیں ناکامیوں کا منہ دیکھنا پڑا لیکن پارٹی کے اندر گروپ بندی کے باوجود حکومت کو ٹف ٹائم دینے کیلئے تحریک انصاف کو یہ ایک اچھا ایشو مل گیا ہے۔ پیپلز پارٹی بھی‘ جو ڈاکٹر عاصم حسین کی گرفتاری اور زرداری صاحب کی جلا وطنی کے حوالے سے میاں صاحب سے ناراض لگتی ہے‘ اب کھل کر کھیل رہی ہے۔ یہ آصف علی زرداری ہی تھے جنہوں نے دھرنے کے دوران میاں نواز شریف کو بیل آؤٹ کیا لیکن رات گئی بات گئی کے مصداق میاں صاحب ایک حد سے زیادہ پیپلز پارٹی کا ساتھ نہیں دے سکے۔ جہاں تک کرپشن کے الزامات کا تعلق ہے پیپلز پارٹی بھی اس ضمن میں پوتر نہیں ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اکثر سیاسی جماعتیں اس حمام میں ننگی ہیں تو غلط نہ ہو گا۔
ہمارے جسد سیاست کا بنیادی فلسفہ ہی مال بناؤ بن چکا ہے۔ اکثر سیاستدان یہ عذر لنگ پیش کرتے ہیں کہ سیاست اور الیکشن لڑنا ایک مہنگا کھیل بن چکا ہے اور اس کا خرچہ پورا کرنے کیلئے جائز اور ناجائز طریقے سے مال اکٹھا کرنا ضروری ہے۔ اس معاملے میں میڈیا میں بھی ہاہاکار مچی ہوئی ہے‘ اور میڈیا کا وہ حصہ جو ہر صورت شریف حکومت سے چھٹکارا چاہتا ہے، انتہائی سرگرم ہو گیا ہے۔ بھانت بھانت کی بولیاں بولی جا رہی ہیں۔ ایک تجزیہ کار کا تو کہنا ہے کہ فوج کو حکومت کی چھٹی کرا دینی چاہیے یا کم از کم زبردستی نظام میں تبدیلیاں لا کر صدارتی نظام میں بدل دینا چاہیے۔ اسی عطار کے لونڈے سے دوا لینے والے یہ خواتین و حضرات تاریخ سے سبق سیکھنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر فوجی مداخلت پاکستان کو صاف شفاف بنا سکتی تو یہ بہت پہلے ہو جاتا کیونکہ ایوب خان سے لے کر جنرل پرویز مشرف تک سبھی فوجی سربراہوں نے سیاستدانوں کی کرپشن اور نااہلی کو جواز بنا کر ہی اقتدار پر قبضہ کیا اور بدقسمتی سے بعد ازاں کرپٹ ترین سیاستدانوں کو ہی ساتھ ملا کر اپنے اقتدار کو دوام بخشنے کی کوشش کی۔ سرکاری بینکوں سے قرضے، سرکاری املاک کی بندر بانٹ اور خصوصی پرمٹوں کے اجرا کے ذریعے سیاسی وابستگیاں تبدیل کرنا‘ ایک وتیرہ بن گیا ہے۔ ایوب خان نے 22 خاندانوں کو جنم دیا‘ جن سے نہ صرف امیر، امیر تر ہو گیا‘ بلکہ مشرقی پاکستان احساس محرومی کے باعث الگ ہو گیا۔ جنرل ضیاء الحق نے تو اسلام کے نام پر سیاسی جماعتوں کو ہی ممنوع قرار دے دیا‘ لیکن اس حوالے سے جو پارٹی سسٹم بنایا اس کی بنیاد ہی مالی مراعات پر رکھی گئی۔ اسی طرح سیاستدانوں کے درمیان راتوں رات امیر ہونے کی دوڑ لگ گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور تک زیادہ تر سیاستدان پلاٹوں اور پرمٹوں سے آگے نہیں تھے‘ لیکن بعد میں سرکاری بینکوں سے قرضے لے کر صنعتیں لگانا اور کاروبار کرنا سیاستدانوں کا محبوب ترین مشغلہ بن گیا۔ جب شریف برادران کے حواری یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ آف شور کمپنیاں بنانا اور بیرون ملک کاروبار کرنا کوئی جرم نہیں ہے‘ تو ان کی یہ بات تکنیکی طور پر شاید درست ہو۔ ہمارے مروجہ قوانین میں اتنے رخنے رکھے گئے ہیں کہ سیاستدان بڑی آسانی سے سرمایہ بیرون ملک منتقل کر سکتے ہیں اور اتنی ہی آسانی سے کالے دھن کو سفید کر کے واپس لا سکتے ہیں۔ اسی بنا پر معدودے چند سیاستدانوں کے سوا میاں نواز شریف سمیت باقی سیاستدان مضحکہ خیز حد تک کم ٹیکس ادا کرتے ہیں‘ لیکن شاہانہ طرز زندگی گزارتے ہیں جبکہ اندرون ملک ان کے کوئی ذرائع آمدنی نہیں ہیں۔ جہاں تک خان صاحب کا تعلق ہے وہ خود تو دیانتداری کا دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کا اور ان کے خاندان کا کوئی کاروبار نہیں ہے لیکن ان کی پارٹی میں متمول سیاستدانوں کی کوئی کمی نہیں۔ خان صاحب کا بھی رہن سہن اور انداز سیاست باقی پارٹیوں کے سربراہوں سے مختلف نہیں لہٰذا ضرورت تو اس بات کی ہے کہ اگر سیاستدان اس ملک میں واقعی صاف شفاف قسم کا نظام چاہتے ہیں تو انہیں احتساب کے عمل کو موثر بنانے کیلئے پارلیمنٹ میں بیٹھ کر موجودہ قوانین میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔
پاناما لیکس نے کئی ملکوں کی حکومتوں کیلئے بحران کھڑے کر دیئے ہیں، آئس لینڈ کے وزیر اعظم مستعفی ہو چکے ہیں لیکن حکومت مخالف مظاہرین نئے عام انتخابات کیلئے سڑکوں پر ہیں۔ لندن میں ٹین ڈاؤننگ سٹریٹ کے سامنے بھی ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا اور وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔ ادھر ڈیوڈ کیمرون نے اعتراف کیا ہے کہ وہ اپنے آنجہانی والد کی آف شور کمپنی میں شراکت دار تھے اور اقتدار سنبھالنے سے چار ماہ پہلے اپنے شیئر فروخت کر چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی ٹیکس تفصیلات بھی سامنے لانے کا اعلان کیا ہے جبکہ ان کے مخالفین کا مطالبہ ہے کہ وہ اقتدار سے الگ ہو جائیں۔ پاکستان میں اپوزیشن کے تیور دیکھ کر میاں صاحب کو اس معاملے میں کوئی بھی فیصلہ جلد کر لینا چاہیے تاکہ معاملات سڑکوں پر طے ہونے کی نوبت نہ آئے۔ جہاں تک چیف جسٹس کی سربراہی میں کمشن بنانے کا تعلق ہے حکومت کو الزامات کا جواب الزام تراشی سے ہی دینے کے بجائے مل بیٹھ کر طے کر لینا چاہیے لیکن پاکستان میں حمودالرحمان کمشن، ایبٹ آباد کمشن سمیت دیگر کمشنوں کا جو حال ہوا ہے‘ اس کے بعد توقع رکھنا کہ مجوزہ کمشن کے ذریعے کوئی انقلاب آ جائے گا، ایں خیال است و محال است و جنوں۔