"ANC" (space) message & send to 7575

سہ طرفہ دبائو اور فائیٹر

حسب توقع 'پاناما لیکس‘ کا بال دوبارہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کے کورٹ میں آ گیاہے۔ ویسے تو روزاوّل سے ہی یہ بال (بلکہ فٹ بال) میاں نواز شریف کے کورٹ میں ہی تھا، لیکن وہ اور ان کے نادان مشیر اسے اِدھر اُدھر پھینکنے کی سعی لاحاصل کرتے رہے۔ جوں جوں وقت گزر رہا ہے 'پاناما گیٹ‘ میاں صاحب کے گلے کا طوق بنتا جا رہا ہے۔ دوسری طرف پاناما کی ایک لاء کمپنی کے ہیک شدہ مواد کی وجہ سے کئی ملکوں کے اقتدار کے ایوانوں اور مالیاتی دنیا میں ایک بھونچال کی سی کیفیت ہے۔ پاکستان کو ہی لے لیجئے، یہاں بھی بڑے بڑے پردہ نشین بے نقاب ہو رہے ہیں۔ عمران خان جنہوں نے 'پاناما لیکس‘ کی بنیاد پر ہیجانی کیفیت طاری کر رکھی ہے، خود بھی ایک آف شور کمپنی کے مالک نکلے ہیں۔ موصوف کا واکھیان یہ ہے کہ میاں نواز شریف نے چوری کے پیسے بچانے کے لئے اپنے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیاں بنائیں، لیکن ان کی بنائی ہوئی'نیازی سروسز لمیٹڈ‘ اس لحاظ سے پوتر ہے کہ انہوں نے لندن میں اپنی کمائی ہوئی دولت پر ٹیکس بچانے کے لئے 1983ء میں یہ کمپنی بنائی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ آف شور کمپنی اس زمانے میں بنائی گئی جب شاید نواز شریف کے فرشتوں کو بھی علم نہ ہو کہ آف شور کمپنی کیا ہوتی ہے؟ یقیناً ایسی کمپنیوں کا قیام کوئی جرم نہیں ہے اور لندن میں پراپرٹی خریدنے والوں کو ایسا کرنا ہی پڑتا ہے کیونکہ برطانوی قواعد کے مطابق ٹیکس اور وراثت کے قوانین اتنے سخت ہیں کہ آمدنی کا بڑا حصہ ریاست ہی لے جاتی ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ ایک میڈیا گروپ کے رپورٹر کی طرف سے یہ سٹوری بریک کرنے سے پہلے خان صاحب نے اس کا راز بر وقت افشا کیوں نہیں کیا؟ یہ کہاں تک جائز ہے کہ آپ میاں نواز شریف اور دیگر شخصیات پر آف شور کمپنیوں کے حوالے سے تابڑ توڑ حملے کرتے جائیں اور یہ بھی برملا کہیں کہ ایسی کمپنیاں چوری کرنے کے لیے ہی بنائی جاتی ہیں لیکن اپنی بات چھپائے رکھیں؟ مسلم لیگ ن کے زبیر عمر نے خان صاحب پر یہ درست فقرہ کسا ہے کہ 'خود میاں فضیحت دیگراں را نصیحت‘۔ دراصل خان صاحب اور ان کے بہت سے حامی اَپر مڈل کلاس کے اُس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنہیں دوسروں کی کرپشن تو صاف نظر آتی ہے لیکن اپنے اوپر ان اصولوں کو منطبق کرنے سے قاصر نظر آتے ہیں۔ یہ طبقہ اپنے سوا تمام سیاستدانوں کو کرپٹ تصور کرتا ہے اور جمہوریت پر زیادہ یقین نہیں رکھتا۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے بانی ڈاکٹر عبدالقدیر کے اہل خانہ کے نام بھی پاناما پیپرز میں آ گئے ہیں۔ایک انگریزی اخبار کے مطابق ڈاکٹر قدیر کے بھائی عبدالقیوم خان مرحوم، ڈاکٹر صاحب کی اہلیہ ہینڈرینا، صاحبزادیوں دینا اور عائشہ خان ایک آف شور کمپنی کی مالک ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اخبار کے رپورٹر سے بات کرتے ہوئے کمپنی کے وجود سے ہی سرے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میرا، میری بیوی اور بیٹیوں کا ایسی کسی کمپنی سے تعلق نہیں؛ تاہم میرے بھائی جن کا کچھ عرصہ قبل انتقال ہوا ہے وہ حبیب بینک کے ملازم تھے، اگر انہوں نے کوئی بینکاری ٹرک استعمال کیا ہے تو ہمیں اس کا علم نہیں۔ مزید برآں کمپنی کے کاغذات پر میری اہلیہ اور بچیوں کے دستخط بھی جعلی ہیں۔'اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا!‘۔
'پاناما پیپرز‘ میں ہمارے جسد سیاست کے بڑے بڑوں کی پاکدامنی کا بھانڈا بیچ چوراہے پھوٹ گیا ہے۔ سبھی کوئی نہ کوئی عذر لنگ تلاش کر لیتے ہیں، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ میاں نواز شریف بطور وزیر اعظم سب سے پہلے جوابدہ نہیں ہیں، اس حوالے سے ان کی مشکلات میں مسلسل اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ خان صاحب تو ان کے درپے تھے ہی اور انہوں نے میاں صاحب سے آصف زرداری کی ذاتی ناراضی کا فائدہ اٹھا کر پیپلز پارٹی سے بھی اتحاد کر لیا ہے۔ ایک مشترکہ دوست نے زرداری صاحب سے پوچھا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا تو انہوں نے برملا جواب دیا کہ عمران خان نے کم از کم میری پیٹھ میں چھرا تو نہیں گھونپا۔ میاں صاحب گزشتہ ماہ جب بغرض علاج لندن گئے تو ان کے ایجنڈے میں سر فہرست آصف زرداری سے ملاقات تھی لیکن زرداری صاحب ملاقات نہ کرنے کی خاطر ہی چرچل ہوٹل، جہاں اکثر وہ قیام کرتے ہیں سے اڑن چھو ہو گئے۔ 'پاناما لیکس‘ کے حوالے سے فوجی قیادت نے بھی میاں صاحب پر دباؤ ڈال رکھا ہے۔ 'بے لاگ اور بلا امتیاز احتساب دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ضروری ہے‘ والا بیان داغ کر آرمی چیف جنرل راحیل شریف نے کرپشن کے الزام میں دو جرنیلوں سمیت چھ افسروں کی قربانی دے ڈالی۔ اس کے بعد میاں صاحب کچھ روٹھ سے گئے اور قریباً ہر ہفتے وزیر اعظم اور آرمی چیف کی ہونے والی ملاقات کا سلسلہ ایک ماہ چار دن منقطع رہا۔ بڑی تگ و دو کے بعد حال ہی میں ہونے والی ملاقات کے بعد بعض ٹی وی چینلوں نے خبریں دیں جن میں جنرل راحیل شریف سے منسوب کیا گیا کہ انہوں نے میاں نواز شریف پر واضح کر دیا ہے کہ 'پاناما لیکس‘ کی وجہ سے ملک رکا ہوا ہے اور سکیورٹی کے بھی خدشات ہیں، لہٰذا اس کا جلد سے جلد حل نکالا جائے۔ لیکن وزیر اعظم ہاؤس کا اصرار ہے کہ ملاقات میں ایسی کوئی بات نہیں ہوئی۔ ظاہر ہے کہ ون آن ون میٹنگ کی روداد فریقین کے علاوہ کراماً کاتبین کو ہی معلوم ہو سکتی ہے؛ تاہم ملاقات کے حوالے سے 'لیکس‘ کافی معنی خیز ہیں کیونکہ آئی ایس پی آر نے اس ملاقات سے متعلق کوئی خبر جاری نہیں کی اور اس حوالے سے یہ بات سامنے آنا جس کی فوج کے ترجمان کی طرف سے کوئی تردید بھی نہیں کی گئی، قوم کو ایک مخصوص پیغام دینے کے مترادف ہے۔ اس پر مستزاد چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس انور ظہیر جمالی کا حکومت کی طرف سے لکھے گئے خط پر جواب ہے۔ انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا ہے کہ ''ٹوتھ لیس‘‘ کمیشن کے قیام سے عدلیہ کے حصے میں محض بدنامی ہی آئے گی۔ عدالت عظمیٰ کمیشن بنانے سے پہلے اسے با اختیار بنانے کے لئے قانون سازی کے علاوہ ٹی اوآرز پر نظر ثانی چاہتی ہے۔
گویا میاں نوازشریف پر اپوزیشن، فوجی قیادت اور عدلیہ کا سہ طرفہ دباؤ ہے۔ اب دیکھیے آج میاں صاحب پارلیمنٹ میں کیا موقف اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ استدلال کہ وہ پارلیمنٹ میں پالیسی بیان اور سوالوں کے جوابات کمیشن میں دیں گے تبدیل شدہ حالات میں یکسر نا قابل قبول ہوگا۔ میاں صاحب کے حواریوں کا یہ دعویٰ کہ ان کا اپنا نام 'پاناما لیکس‘ میں نہیں ہے اوراپنے ''کماؤ‘‘ بیٹوں کی بیرون ملک سرمایہ کاری کے حوالے سے وہ جوابدہ نہیں ہیں، تکنیکی طور پر درست ہو سکتا ہے لیکن سیاسی اور اخلاقی طور پر کوئی اسے تسلیم نہیں کرے گا۔ میڈیا میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں، خاص طور پریہ کہ وہ مستعفی ہو جائیںگے لیکن میرے خیال میں اس کاکوئی امکان نہیں ہے چونکہ میاں صاحب بنیادی طور پر فائٹر ہیں اورپارٹی میں بھی انہوں نے اپنا کوئی جانشین تیار نہیں کیا۔ جہاں تک میاں شہباز شریف کا تعلق ہے وہ خاندانی مجبوریوں کی بنا پر یہ بھاری پتھر اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اس چومکھی لڑائی میں شاید میاں صاحب سرخرو ہو جائیں تاہم انہیں آئندہ انتخابات تک اقتدار میں رہنے کے لئے اپنی طرز حکمرانی اور میلان طبع پر نظر ثانی کرنا ہوگی۔ پارلیمانی نظام میں پارلیمنٹ، اپوزیشن، کابینہ حتیٰ کہ اپنے ساتھیوں کو مسلسل نظر انداز کر کے محض چند من پسند حواریوں کے ذریعے حکومت چلانا ممکن نہیں ہوتا۔ ترقی کے دعوے اپنی جگہ لیکن اگر محض پلوں، سڑکوں، موٹر ویز، گیس اور پاور پراجیکٹس سے حکمرانی کو دوام ملتا ہوتا تو پاکستان کے اکثر فوجی آمروںکو جن کا اقتصادی ریکارڈ سویلین حکمرانوں سے نسبتاً بہتر تھا، رسوا ہو کر نہ جانا پڑتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں