"ANC" (space) message & send to 7575

جانشین کون؟

بالآخر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ لندن میں ڈاکٹروں نے وزیراعظم نواز شریف کو''اوپن ہارٹ سرجری‘‘ کرانے کا مشورہ دے دیا ہے اور کل لندن کے ایک ہسپتال میں اُن کی سرجری ہو رہی ہے۔ میاں نواز شریف کی علالت کو تحریک انصاف کے جیالے کافی عرصے سے محض ڈھونگ قرار دے رہے تھے۔ گزشتہ ماہ جب میاں صاحب بغرض علاج لندن تشریف لے گئے تو انہی میں سے بعض کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جا رہا تھا کہ اب وہ واپس نہیں آئیں گے۔ دوسری طرف ''پاناما گیٹ‘‘ کی تحقیقات کے لیے ٹی او آرز بنانے والی پارلیمانی کمیٹی کے اندر اپوزیشن کے نمائندے بعد از خرابی بسیار یہ موقف اختیار کیے ہوئے ہیں کہ میاں نواز شریف کا نام بطور ملزم ٹی او آرز سے حذف نہیںکیا جاسکتا۔ اگرچہ ''پاناما لیکس‘‘ میں میاں صاحب کے دونوں بیٹوں اور صاحبزادی کا نام موجود ہے لیکن خود ان کا نام نہیں ہے، لہٰذا یہ موقف اختیار کیا گیا کہ ان کا نام حذف کرنے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑتا کیونکہ وزیراعظم نے پہلے ہی خود کو احتساب کے لیے پیش کیا ہوا ہے۔ اس معاملے پر اتفاق کرنے پر خان صاحب نے شاہ محمود قریشی کی خوب دھنائی کی اور اگلے ہی روز قریشی صاحب کو طوعاً و کرہاً اپنا موقف بدلنا پڑا۔اس وقت ٹی او آرز پر پارلیمانی کمیٹی ڈیڈ لاک کا شکار ہے، لیکن میاں نواز شریف کی بیماری جو ایک سنجیدہ نوعیت کی ہے، منظر عام پر آنے کے بعد صورت حال کچھ بدل گئی ہے۔ 
عمران خان کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ ''پاناما لیکس‘‘ بحران ان کا پیدا کردہ نہیں بلکہ یہ خدا کی طرف سے میاں فیملی پر ناز ل ہوا ہے۔ اسی منطق کے مطابق میاں صاحب کی بیماری بھی اللہ کی طرف سے ہے، ان کی خود پیدا کردہ نہیں۔ خان صاحب کو جو روز اوّل سے ہی میاں نواز شریف کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑے ہیں اور اکثر کہتے ہیں کہ ''او نواز شریف تمہیں نہیں چھوڑوںگا‘‘ فی الحال اپنی جارحانہ مہم پر نظرثانی کرنا پڑے گی۔ تحریک چلانے یا رائیونڈ میں ان کی اقامتگاہ کے باہر دھرنا دینے کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ فریق اوّل تو وہاں موجود ہی نہیں ہوگا۔ میاں نواز شریف کی صاحبزادی محترمہ مریم نواز کے مطابق وہ ایک ہفتہ ہسپتال میں رہنے کے بعد وطن واپس آجائیں گے لیکن وزیراعظم کے ترجمان ڈاکٹر مصدق ملک کا کہنا ہے کہ ڈاکٹروں کی اجازت کے بغیر وہ اتنی جلدی واپسی کا سفر نہیں کر سکیںگے۔ دراصل ''اوپن ہارٹ سرجری‘‘ ایک بڑا اور پیچیدہ آپریشن ہوتا ہے۔ فروری 2008ء میں لندن کے ایک ہسپتال میں، میں خود بھی ہارٹ بائی پاس کروا چکا ہوں۔ مجھے ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ دل کی بڑی شریان قریباً بند ہے، لہٰذا اینجیو پلاسٹی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور بائی پاس آپریشن بھی خاصا پیچیدہ ہوگا۔ اللہ کے فضل سے لندن کے کوئین میری ہسپتال میں بائی پاس کے ایک ہفتے بعد مجھے چھٹی مل گئی لیکن باقاعدہ ورزش، زندگی بھر غذا میں انتہائی احتیاط کی روٹین اور صحت بہتر ہونے کے باوجود واپسی کے سفرکی اجازت چند ہفتے بعد ہی ملی تھی اور بائی پاس کے بعد ایک مہینہ مجھے لندن میں قیام کرنا پڑا تھا۔ اس تناظر میں میاں نواز شریف بھی کم از کم ایک ماہ تک یا شاید اس سے بھی زیادہ عرصے تک وطن واپس نہیں لوٹ پائیںگے اور اگر معجزاتی طور پر آ بھی جائیں تو ملکی معاملات کا بوجھ اٹھانے کے لیے انھیں کئی ہفتے لگیںگے۔
آئین پاکستان میں قائم مقام صدر بنانے کا طریقہ کار موجود ہے جس کے مطابق صدر پاکستان کی عدم موجودگی میں چیئرمین سینیٹ صدارت کا منصب سنبھالتا ہے۔ امریکی صدر کو اگر کچھ ہوجائے تو نائب صدر قائم مقام ہوتا ہے۔ صدر بل کلنٹن کو چوٹ لگنے پر جب کہا گیا کہ انھیں جنرل انتھسیزیا لگایا جائے گا تو بتایا گیا کہ دنیا کے طاقتور ترین شخص جس کا ہاتھ ایٹمی بٹن پر ہوتا ہے، ایک سیکنڈ کے لیے بھی ذہنی طور پر غیر حاضر نہیں ہو سکتا، لہٰذا نائب صدرکو حلف اٹھانا پڑے گا، جس پر ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ کلنٹن کو جنرل انتھسیزیا کے بجائے لوکل انتھسیزیا سے کام چلا لیا جائے۔ میاں صاحب کی جگہ اسحق ڈار امور مملکت دیکھیں گے تاہم وہ قائم مقام وزیراعظم نہیں ہوسکتے کیونکہ آئین میں اس کی گنجائش موجود نہیں ہے۔ ویسے تو کلیدی معاملات میں میاں نواز شریف ہارٹ سرجری کے چند روز بعد ہی کچھ نہ کچھ اِن پُٹ دینے کے قابل ہوجائیں گے تاہم بہتر یہی ہوگا جیساکہ پارلیمانی جمہوریتوں میں کلچر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کی پارلیمانی پارٹی کو میاں صاحب کی اشیر باد سے اپنا پارلیمانی لیڈرچن لینا چاہیے۔ جہاں تک برادرم اسحق ڈار کا تعلق ہے وہ انتہائی محنتی آدمی ہیں، بڑی جانفشانی سے فرائض انجام دیتے ہیں اور میاں صاحب کے مکمل طور پر وفادار ہیں، لیکن تکنیکی طور پر وہ فوری طور پر وزیراعظم بننے کے اہل نہیں کیونکہ وہ قومی اسمبلی کے نہیں بلکہ سینیٹ کے رکن ہیں۔ میاں شہباز شریف ایک اچھی چوائس ہوسکتے تھے لیکن وہ تو پنجاب کے وزیراعلیٰ ہیں اور قومی اسمبلی کے رکن نہیں ہیں۔ ان دونوں شخصیات کو عبوری طور پر وزیراعظم بننے کے لیے بھی قومی اسمبلی کی کسی نشست سے الیکشن لڑنا ہوگا، جو ایک لمبا عمل ہے۔ مطلب یہ کہ قومی اسمبلی کے کسی رکن کو ہی وزیراعظم بنایا جا سکتا ہے۔ 
قومی اسمبلی میں میاں صاحب کے پیاروں میں ایاز صادق، چوہدری نثار علی خان، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، احسن اقبال شامل ہیں، لیکن یہ تمام شخصیات موجودہ نازک مرحلے پر معاملات کو بخوبی چلانے کی پوری اہلیت نہیں رکھتیں۔ جہاں تک چوہدری نثار علی خان کا تعلق ہے وہ تو جنون کی حد تک نرگسیت کا شکار ہیں، خواجہ آصف کسی سے سیدھے منہ بات نہیں کرتے اور خواجہ سعد رفیق کی طبیعت میں جذباتیت زیادہ ہے۔ جہاں تک احسن اقبال کا تعلق ہے وہ نارووال کی مقبول اور اہم شخصیت ہونے کے باوجود سیاستدان سے زیادہ پروفیسر لگتے ہیں اور خود کو پرفیسر کہلوانا پسند بھی کرتے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی کئی اہم شخصیات قومی اسمبلی میں موجود ہیں جو وزرات عظمیٰ کی اہل ہو سکتی ہیں لیکن ایسی شخصیت پر میاں برادران کا کامل اعتماد ہونا ضروری ہے۔ ویسے تو اسحق ڈار ہی میاں صاحب کو سوٹ کرتے ہیں، وہ ایک ٹیکنوکریٹ ہونے کے باوجود سیاست میں میانہ روی کے قائل ہیں۔ ان کے پیپلزپارٹی سمیت قریباً تمام سیاسی جماعتوں سے روابط ہیں۔ جلاوطنی کے زمانے میں وہ محترمہ بینظیر بھٹو کے بھی بہت قریب تھے۔ اس لحاظ سے ڈار صاحب ٹی او آرز کی تشکیل اور دیگر معاملات پر بھی اپوزیشن سے تعاون حاصل کر سکتے ہیں۔
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جنہوں نے پاکستان جسٹس اینڈ ڈیموکریٹک کے نام سے ایک تانگہ پارٹی بنائی ہوئی ہے، فرماتے ہیں کہ میاں نواز شریف کی غیر حاضری کے دوران ایک نیا وزیراعظم نامزد کرنا آئینی ضرورت ہے، تاہم اکثر قانون دان اُن کی اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے ۔ اُن کے مطابق آئین کے آرٹیکل 48 اور 90 کے تحت کابینہ اور نامزد وزیروں سے ہی کام چلایا جا سکتا ہے۔ یہ تو رہا عبوری معاملہ، میاں فیملی کو دور رس سیاسی معاملات اور مسلم لیگ (ن) کی اگلی قیادت کے بارے میں جلد سنجیدگی سے غور کرنا ہوگا۔ سب سے پہلے میاں صاحب کو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ موروثی سیاست کے حوالے سے ان کی صاحبزادی مریم نواز کا نام ''پانامالیکس‘‘ میں موجود ہے اور ان کے بیٹے کاروبار میں تو دلچسپی لیتے ہیں لیکن سیاست سے دور رہتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ برصغیر میں پارلیمانی جمہوریت کے باوجود موروثیت کا گہرا عمل دخل ہے لیکن بھارت میں نریندر مودی نے کانگریس کی موروثیت کو چت کر دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے کرتا دھرتا میاں شہباز شریف نے پنجاب کا محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ میاں صاحب کو جلد صحت عطا فرمائے، صحت یابی کے بعد انھیں اب کچھ بنیادی فیصلے کرنا ہوںگے کیونکہ اب ان کی حکومت کے دو سال رہ گئے ہیں، لہٰذا ایک سال بعد عام انتخابات کی ریل پیل شروع ہو جائے گی۔ کیا میاں صاحب اس پوزیشن میں ہوںگے کہ وہ سیاست، سیاسی مخالفین کے تابڑ توڑ حملوں اور انتخابی مہم کی کاڑھ نکال سکیں؟ شہباز شریف کو وزیراعظم کے طور پر لانا خاندان کے لیے اور سیاسی لحاظ سے ایک گنجلک مسئلہ ہے۔گزشتہ عام انتخابات میں شہباز شریف نے ہی پنجاب ڈلیورکیا تھا۔ لہٰذا پہلے تو شہباز شریف کا جانشین ڈھونڈنا پڑے گا۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی مسلمہ ہے کہ ووٹ میاں نواز شریف کو پڑتے ہیں، وہی ایسا ڈائنامو (Dynomo) ہیں جن سے مسلم لیگ (ن) کی بتی جلتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں