"ANC" (space) message & send to 7575

دردِدل

پاکستان میں کبھی کوئی سویلین حکومت چین سے نہیں بیٹھی اور نہ ہی عمومی طور پر اپنے اقتدار کی مدت پوری کر پائی ہے؛ البتہ فوجی آمروں کے سائے تلے اور بیساکھیوں کے سہارے چلنے والی اکثر حکومتیں برقرار رہی ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کی چھتری تلے ق لیگ کے وزرائے اعظم نے اپنی مدت پوری کی تاہم جنرل ضیاء الحق اپنے ہی من پسند وزیر اعظم محمد خان جونیجوکو بھی برداشت نہ کر سکے۔ پاکستان کی حالیہ سیاسی تاریخ میں آصف زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی سویلین حکومت نے ذوالفقار علی بھٹو کے دور اقتدارکے بعد پہلی مرتبہ پانچ سال پورے کیے لیکن یہ مدت بھی اس نے سسک سسک کر پوری کی۔کہا جاتا ہے کہ سویلین حکومتوںکو کبھی فوجی اورکبھی صدارتی مداخلت اور اکثر اوقات اپوزیشن کی ریشہ دوانیوںکا سامناکرنا پڑا۔ آ ٹھویں ترمیم کے بعد صدارتی مداخلت کم ہو جانی چاہیے تھی لیکن 1997ء میں صدر فاروق لغاری نے جسٹس سجاد علی شاہ کے ساتھ ملی بھگت کرکے نہ صرف وزیر اعظم نواز شریف کی ناک میں دم کیے رکھا بلکہ قریباً فارغ ہی کروا دیا لیکن اس موقع پر آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت نے میاںصاحب کو'بیل آؤٹ‘ کیا اور لغاری صاحب کو استعفیٰ دینا پڑگیا۔ 2008ء میں جب پیپلز پارٹی برسر اقتدار آئی تو زرداری صاحب نے کسی اورکو صدر بنانے کا رسک ہی نہ لیا بلکہ خود صدر بن گئے۔ انھوں نے بڑی بردباری، سیا سی سوجھ بوجھ اورصبر سے کام لیتے ہوئے پیپلز پارٹی کی حکومت کے پانچ سال مکمل کرائے تاہم انھیں اپنے دور اقتدار میں چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری اور فوجی قیادت کی طرف سے شدید دبائوکا سامنا کرنا پڑا ۔ میاں نواز شریف نے بھی اپنے اقتدارکے تین سال مکمل ہونے پر اتوارکو لندن کے ہارلے سٹریٹ کلینک میں کیک کاٹا ہوگا۔ اپنی موجودہ صحت کی بنا پر وہ کیک کاٹ تو سکتے تھے لیکن کھا نہیں سکتے تھے۔ ہو سکتا ہے کہ انھوں نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کیک چکھ لیا ہو۔
مسلم لیگ(ن) کی حکومت نے اپنے اقتدارکی تیسری سالگرہ کے ساتھ ہی چوتھا بجٹ بھی پیش کیا ہے۔ اگر شریف حکومت کے گڈگورننس کے دعوؤںکا آئندہ مالی سال کے پیش ہونے والے بجٹ اور اکنامک سروے کے حوالے سے جائزہ لیا جائے توکوئی اچھی تصویر سامنے نہیں آئی۔ آئندہ مالی سال کے لیے شرح نموکا انداہ 5.7 فیصد رکھا گیا ہے جبکہ گزشتہ برس 5.5 فیصد اندازے کے برعکس شرح نمو4.7 فیصد رہی۔ سابق مشیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق حکومت نے 18میں سے10شعبوں میں اعداد و شمار میں دانستہ رد و بدل کیا ہے اور اصل پیداواری شرح 3 فیصد رہی ہے۔ ڈاکٹر حفیظ پاشا جو سابق وزیر تجارت ہمایوں اختر خان کے تھنک ٹینک انسٹی ٹیوٹ فار پالیسی ریفارمزکیمدار المہام تھے اور انھیں بقول ان کے ہمایوں اختر خان کے برادر خورد ہارون اخترکے وزیر خزانہ کے مشیر برا ئے ٹیکسیشن بننے کے بعد اسحق ڈارکے دباؤ پر فارغ ہونا پڑاکی باتوں پر اگر یقین نہ بھی کیا جائے اور حکومت کے اعداد و شما رکو ہی سچ مان لیا جا ئے پھر بھی گزشتہ برس شرح نموکا ٹارگٹ پورا نہیں ہو سکا تو آئندہ برس کیونکر ہو سکے گا۔ وزیر خزانہ اسحق ڈار ہزار دعوے کریں کہ ہم نے تین برس میں ملکی معیشت کو بحال کر دیا ہے لیکن ہر پاکستانی شہری جانتا ہے کہ دودھ کی نہریںکہیں نہیں بہہ رہیں، بجٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ زرعی پیداوار میں کافی کمی ہوئی ہے۔ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے اور موٹرویز، سڑکوںکے جال، میٹرو بسوں و ٹرینوں اور پاور پراجیکٹس قا ئم کر نے والے شہری سیٹھ حکمرانوں نے زراعت کو نظر اندازکرکے مجرمانہ غفلت کا ثبوت دیا ہے۔ یہ کہنا کہ دنیا بھر میں اجناس کی قیمتیں گرنے کی بناء پر پاکستانی کسان بھی مشکلات کا شکار ہے محض عذر لنگ ہے کیونکہ سوائے گنے کے قریباً تمام اجناس بالخصوص کپاس کی پیداوارکم ہوئی ہے۔کسان رو رہا ہے اور سڑکوں پر نکل کر دہائی دے رہا ہے کہ 'میں مارا گیاہوں‘۔ آ ئندہ سال کے بجٹ میں اس کے لیے ترغیبات رکھی گئی ہیں۔ اس سے پہلے' کسان پیکج‘ بھی دیا گیا تھا لیکن اس سے بھی کسان کی حالت پرکوئی فرق نہیں پڑا۔ میاں صاحب کو صحت مند ہوکر واپس آنے کے بعد اپنی ترجیحات پر نظر ڈالنی چاہیے۔ ان کے سمدھی اور وزیر خزانہ اسحق ڈار بڑے محنتی آدمی ہیں لیکن بنیادی طور پر چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ یقیناً انھوںنے بڑی مہارت سے آ ئی ایم ایف کا پروگرام مکمل کیا ہے جو ایک کٹھن کام تھا اور پاکستان میں پہلے کبھی مکمل نہیں ہوا تاہم میاں صاحب کی حکومت اس ویژن سے عاری ہے جو وطن کوحقیقی خوشحالی سے ہمکنارکر سکے۔
میاں صاحب جب واپس آئیںگے تو انھیں سیاسی طور پر 'پاناما گیٹ‘ کے حوالے سے بھی مشترکہ اپوزیشن کی مہم جوئی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ان کے گزشتہ تین سالہ دور اقتدارسے عمران خان اور ان کی پارٹی تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) کے لیے سب سے بڑا درد سر ہے۔ اب بھی خان صاحب اور اپوزیشن کے ہارڈ لا ئنرزکا کہنا ہے کہ ٹی او آرز پر سمجھوتہ نہ ہونے اورکمیشن نہ بننے کی صورت میں وہ عوام کو سڑکوں پر لائیںگے اور خان صاحب رمضان المبارک کے بعد جولائی میں تحریک چلانے کی پوری تیاری کر رہے ہیں۔ میاں صاحب کے دور اقتدارکی ایک بڑی ناکامی یہ ہے کہ انھوں نے اپنی مغلائی پالیسیوںکی بنا پر اپوزیشن کو اکٹھا کر دیا ہے۔ زرداری صاحب جنہوں نے 2014ء میں عمران خان کے دھرنے کے دوران انھیں 'بیل آ ؤٹ‘ کیا تھا اب یہ کہہ کرکہ 'میاں صاحب نے میری پیٹھ میں چھرا گھونپا ہے‘ ان سے ملنے سے بھی انکاری ہیں۔ 'پانامالیکس‘ میں اگرچہ براہ راست میاں نواز شر یف کا نام نہیں ہے لیکن پیپلزپارٹی پرکرپشن کے الزامات لگاتے لگاتے بقول اپوزیشن اب وہ خود بھی پوتر نہیں رہے۔ تکنیکی طور پر شاید وہ اپنی فیملی کے آ ف شور اکاؤنٹس کے بارے میں تاویلیں پیش کر کے اپنی بے گناہی ثابت کر لیں، لیکن اخلاقی طور پر ان کے امیج کو دھچکا لگ چکا ہے۔ 
ماضی کے برعکس اس مرتبہ لگ رہا تھا کہ میاں صاحب اور فو ج کے سربراہ جنرل راحیل شریف کے درمیان بڑے اچھے تعلقات کار ہیں تاہم اب جبکہ خاکی شریف چند ماہ بعد اپنے منصب کی میعاد پوری کرنے والے ہیں، یہ بات اظہر من الشمس ہوگئی ہے کہ فوجی اور سویلین قیادت ایک صفحے پر نہیں ہیں تاہم اس حوالے سے محض نواز شریف حکومت کو قصوروار قرار دینا ہی مبنی بر انصاف نہیں ہوگا۔ لگتا ہے کہ فوجی قیادت ماضی کی طر ح 'ٹیک اوور‘ کرنے کے بھاری پتھرکو اٹھانے کے لیے تیار نہیں ہے لیکن وہ اپنی حکمت عملی جس میں ٹویٹس اور سٹر یٹیجک بیانات بھی شامل ہیں اور حکمرانوں کی جملہ کمزوریوںکی بنا پر جن جن شعبوں اور معاملات میں وہ اپنا عمل دخل چاہتی ہے اسے ممکن بنا لیتی ہے۔ میاں صاحب کے مخالفین کے مطابق وزیر اعظم مغلیہ انداز حکمرانی اختیارکیے ہوئے ہیں۔ وہ اس کے لیے وفاقی کابینہ کا اجلاس سات ماہ کے بعد ہونا، پارلیمنٹ جو ان کے اقتدارکا منبع ہے وہاں قدم بھی نہ رکھنا کی دلیل دیتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے دو ریٹائرڈ جرنیل جو ڈیفنس سیکرٹریز بھی رہے ہیں نے اس بات کی دہائی دی کہ چونکہ ہمارا کو ئی فل ٹائم وزیر خارجہ نہیں ہے، لہٰذا ہماری خارجہ پالیسی ناکام ہو چکی ہے اور وطن عزیز یکہ و تنہا ہوگیا ہے۔ ان کی رائے میں ایران، افغانستان اور بھارت کے اشتراک سے چاہ بہارکی بندرگاہ کو فعال بنانے کا منصوبہ پاکستان کے مفادات کے خلاف ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر پاکستان میںکل وقتی وزیر خارجہ ہوتا بھی توکیا نتائج مختلف ہوتے۔ اس وقت بھارت سے مابعد پٹھانکوٹ سلسلہ جنبانی بالکل بند ہے۔ اشرف غنی جو حامد کرزئی کے بعد ہم سے میٹھی میٹھی باتیںکر رہے تھے، اب وہ بھی ہم پر براہ راست دراندازی کا الزام لگا رہے ہیں۔ چند ماہ قبل جب ایرانی صدر حسن روحانی پاکستان کے دورے پر آئے تو ایک ٹویٹ کے ذریعے الزام عائدکیا گیا تھاکہ بھارتی جاسوس کل بھوش یادیوکو ایران نے پناہ دے رکھی تھی۔ امر یکہ نے یہ کہہ کرکہ جب تک پاکستان حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی بند نہیں کرتا ایف ـ 16طیاروںکی فراہمی روک دی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اپنی باقی ماندہ دو سالہ مدت میں سیاسی، اقتصادی، گڈگورننس اور فوج سے تعلقات کار کے حوالے سے میاں نواز شریف کو متعدد چیلنجزکا سامنا ہوگا۔ ان تمام مسائل کے یکدم سامنے آنے سے ان کی تین سالہ 'حسن کا رکر دگی‘ دھندلا سی گئی ہے۔ انشاء اللہ جب وہ درد دل کا علاج کرانے کے بعد صحت مند ہو کر واپس آ ئیں گے تو انھیں مختلف قسم کے 'درددل‘کا سامنا ہوگا۔ 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں