مشیر برا ئے خا رجہ اموربز رگوار سر تاج عزیز فرماتے ہیںکہ بھا رت نے مذاکرات کے لیے کھڑ کیا ں بند کی ہیں، لیکن ہمیں بھی سلسلہ جنبا نی بڑھانے کی کو ئی بے چینی نہیں ۔ آ ج کل عام طور پر یہ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان کی خا رجہ پالیسی ناکا م ہے کیو نکہ وہ دنیا میں تنہا رہ گیا ہے۔حکومتی تر جمان اور ڈپلو میٹ پاک چین اقتصا دی راہداری کے حوالے سے چین کے ساتھ خوشگو ار تعلقا ت کا ڈھنڈورا پیٹے رہتے ہیںاور ما سوائے چین کے، معا ملہ واقعی چوپٹ ہے۔ تواتر کے ساتھ یہ دہا ئی دی جا رہی ہے کہ بھا رتی وزیر اعظم نر یندر مو دی بڑی عیا ری اور مہارت سے پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر رہا ہے۔
بھا رتی وزیر اعظم کا دورہ امر یکہ شر وع ہو نے کے حوالے سے جب میں نے ایک اعلیٰ امر یکی ڈپلو میٹ سے گلہ کیا کہ جناب !آ پ پاکستان کو تنہا چھو ڑ کر ہما رے دشمن سے پینگیں بڑ ھا رہے ہیں تو اس نے قدرے جھنجھلاہٹ بھرے لہجے میں الٹا سوال کر دیا کہ آپ بھارت کی فکر کرنے کے بجائے پہلے اپنے معاملا ت ٹھیک کیوں نہیں کرتے؟ ۔اس کے خیال میں پاکستان کو امر یکہ اور دیگر مما لک سے اپنے تعلقا ت بھارت کی عینک سے نہیں دیکھنے چا ہئیں ۔ ڈپلومیٹ نے کینیڈ ا کی مثال دیتے ہو ئے کہا کہ کینیڈ ا کسی سے بھی تعلقات بڑ ھائے توامر یکہ اعترا ض کر نے والا کون ہوتا ہے، اسی طر ح امر یکہ بھی اپنی خا رجہ پالیسی کے اہداف حا صل کر نے میں آ زاد ہے۔ کینیڈا کی مثا ل اپنی جگہ لیکن اس حقیقت کو بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور بھا رت چار جنگیں لڑ چکے ہیں اگر چہ کسی ایک میں بھی نتیجہ پاکستان کے حق میں نہیں آ یا ۔ 1971ء کی جنگ میں تو آ دھا ملک ہی جا تا رہا اور پرویز مشرف کی کارگل کی مہم جو ئی میں پاکستان کو اپنے بہت سے فوجیوں کی شہا دت اور جگ ہنسا ئی کے سوا کچھ حا صل نہیںہوا ۔اب صورتحال یہ ہے اور ہم پر یشان ہیں کہ افغا نستان میں بھا رت کی سر ما یہ کاری سے لگے ہو ئے ڈیم کا افتتاح کرکے نر یندر مو دی امریکہ پد ھا ر چکے ہیں۔ جہاں وہ امر یکی کا نگر س سے بھی خطاب کر ینگے وہاں بھا رت کی یہ بھی کوشش ہو گی کہ اسے نیو کلیئرسپلا ئرز گر وپ کا رکن بنا دیا جا ئے جس سے امر یکہ اور بھارت کے درمیان دفا عی تعاون میں اضا فہ ہو گا اور بھارت پر ہا ئی ٹیکنا لو جی اسلحہ بر آمد کرنے پر کو ئی قد غن نہیں رہے گی ۔ہمیں مو دی کی انتہا ئی جا ر حا نہ ڈپلو میسی پر فکر مند ہو نے کے بجا ئے واقعی اپنے معاملات کو درست کرنا چاہیے ۔معاملہ محض کل وقتی وزیر خا رجہ کی تعینا تی کا نہیں بلکہ خا رجہ پالیسی کی جہت اور اس کے پیچھے کا رفرما سوچ پر نظر ثا نی کر نے کاہے۔ شما لی کوریا جیسے ممالک کو چھوڑکر دنیا بھر میں اب اقتصا دی تر قی اور تجا رت کو فر وغ دینے کی بنیاد پر خا رجہ پالیسی تشکیل دی جاتی ہے لیکن وطن عزیز میں ہمارے پالیسی کارپردازوں کی سوئی ہنوز سکیورٹی کی بنیاد پر پالیسیاں تشکیل دینے پر اٹکی ہوئی ہے ۔ہمارے کارپردازان اور میڈ یا کا ایک مو ثر حلقہ مسلسل یہ دہا ئی دیتا رہا ہے کہ وطن عزیز یہودیوں ، ہندو ؤںحتیٰ کہ عیسا ئیوں کی ریشہ دوانیوں میں گھر اہوا ہے ۔یہ الگ بات ہے کہ ہمارا دوست چین بھی ہمیں کئی مر تبہ یہ مشورہ دے چکا ہے کہ بھا ئی خو د کو اقتصادی طور پر مضبو ط کر و اس کے بعد کشمیر بھی لے لینا جیسے ہانگ کا نگ ہما ری جھو لی میں گر اتھا اور تائیوان الگ ملک ہو نے کے با وجو د ہمارے آ گے گھٹنے ٹیک چکا ہے ۔
یقینا پاکستان اپنی سکیو رٹی سے غا فل نہیں رہ سکتا لیکن ایسا ملک جس کے اندرونی حالات پتلے ہوں، اقتصادی طور پر دیوالیہ ہو اوراس کا بال بال قر ضوں میں جکڑا ہو کیسے اپنا بھر پو ر دفاع کر سکتا ہے۔ اگرہم اقتصادی طور پر مضبو ط ہونگے تواسی صورت میں ہی بھا رت کا مقا بلہ بھی کر سکیں گے ۔محض سب سے 'کٹی‘ کر لینے اور فر سودہ سکیو رٹی پیرا ڈا ئم کے ذریعے اب گزارامشکل ہے ۔ ہمیں پسند ہو یا نہ ہو لیکن بھا رت نے بین الاقوامی سٹیج پر اپنی جگہ بنا لی ہے ۔گز شتہ دوبر س میںامریکی صدر بارک اوباما کے علا وہ روسی صدر ولا دی میر پیو ٹن ،چینی صدر ژی جن پنگ،بر طانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، فرا نسیسی صدرفرینکوئس اولاند،جر من چا نسلر انجیلا مرکل،جا پانی وزیر اعظم شینزو ابے سمیت کئی زعما بھارت کا دورہ کر چکے ہیں ۔حال ہی میں نر یندر مودی کے دورہ قطر کے دوران قطر اور بھا رت نے اقتصادی تعاون کے حوالے سے سات معا ہدوں پر دستخط کئے ہیں ۔قطر بھا رت کو اس کی پچا سی فیصد گیس کی ضروریا ت مہیا کر تا ہے اور ان ملکوں کے درمیان 2015 میں 15.7بلین ڈالر کی تجا رت ہوئی ۔لیکن ہم اسلامی بھا ئی چارے اور اخوت کی دہائی دیتے رہتے ہیں۔ تلور کا شکا ر کرنے توعرب شہزادے با قا عدگی سے پاکستان تشر یف لا تے ہیں اورہم اس لالچ میں کہ یہ با دشاہ یہاں سر ما یہ کا ری کر یں گے، اپنے قانون کی دھجیاں اڑا کے اور جنگلی حیا ت کے قواعدکو بالائے طا ق رکھ دیتے ہیںاور انہیں ہر قسم کی سہو لیا ت دیتے ہیں، ان عر ب شہزادوں کو ہم نے چو لستان میں وسیع اراضی دے رکھی ہے بلکہ یہا ں پر تلور خر ید کر چھوڑے جا تے ہیں تا کہ ' ہزہا ئی نیس ‘ کو اپنے شوق کی تسکین میں آ سانی ہو۔ لیکن جہاں تک تجا رتی اور اقتصادی روابط کا تعلق ہے بھارت ان کا نمبر ون دوست ہے۔ اس معاملے پر واویلا کر نے اور ہاہا کا ر مچا نے کے بجائے ہمیں خود کو ٹھیک کر نا چا ہیے کہ یہاں بھی دنیا بھر کے لشکرسر ما یہ کا ری کر نے کے لیے ٹو ٹ پڑ یں۔
اس وقت تو ہما ری پالیسیوں کی ناکامی کا حا ل یہ ہے کہ ہم سو جو تے بھی کھا رہے اور سو 'پیاز ‘بھی۔ سعودی عرب کے وزیر دفا ع شہز ادہ محمد بن سلمان کی یمن کے خلا ف مہم جو ئی میں ہم نے اپنی فو ج بھیجنے سے پہلو تہی کر دی لیکن ایران کے خلا ف ایک وسیع تر محا ذ میں اپنا جھنڈا کھڑا کر دیا اوروزارت خارجہ کی طر ف سے عذر لنگ پیش کیا گیا کہ ہم سے پو چھے بغیر ہی ہمیں اس الا ئنس کا حصہ بنا دیا گیا ۔ اصولی طور پر ویسے ہی ایران سے سیا سی اقتصادی اور تجا رتی معاملات آ گے بڑ ھنے چا ہئیں تھے لیکن یہ مو قع بھی ہم نے قر یبا ً گنو ا دیا ۔
جب تک خا رجہ پالیسی میں ہا تھی کے دانت کھا نے کے اور دکھانے کے اور کا رویہ بر قرار رہے گا ہما رے معاملات ٹھیک نہیںہو پا ئیں گے جہاں تک نریند ر مو دی کا تعلق ہے یہ درست ہے کہ اس کے ہاتھ گجرات کے مسلمانوں کے خو ن سے رنگے ہوئے ہیں اور کو ئی اس کا بال بیکا نہیں کر سکا لیکن یہی شخص جسے اوباما نے ویزہ دینے سے انکا ر کر دیا تھا اب اس کا قلبی دوست بن چکا ہے۔مودی فضو ل دوروں پر وقت ضا ئع کر نے کے بجا ئے اپنے ملک کی اقتصا دی اور سٹرٹیجک اہمیت بڑ ھا نے کے لیے پا پڑ بیل رہا ہے اور خاصی حدتک اس میں کامیاب بھی ہے۔ ہمیں محض واویلاکر نے کے بجا ئے مو دی سے کچھ سیکھنا بھی چا ہیے۔